حدیث نمبر 596

روایت ہے حضرت ابودرداء سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مجھ پر جمعہ کے دن درود زیادہ پڑھو کیونکہ یہ حاضری کا دن ہے جس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۱؎ اور مجھ پرکوئی درود نہیں پڑھتا مگر اس کا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے حتی کہ اس سے فارغ ہوجائے۲؎ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا کیا موت کے بعد بھی فرمایا کہ ا ﷲ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا کھانا حرام کردیا ہے ۳؎ لہذا اﷲ کے نبی زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں۴؎(ابن ماجہ)۵؎

شرح

۱؎ یعنی اس دن میں رحمت اور برکت کے فرشتے اترتے ہیں اور مسلمانوں کے گھروں،ان کی مجلسوں میں پہنچتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ ذکر میں مشغول ہوں اور قیامت میں ان کے ایمان اور تقویٰ کی گواہی دیں۔

۲؎ یعنی یہ نہیں ہوتا کہ درود پہنچانے والا فرشتہ سارے درودوں کا تھیلا ایک دم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ئے بلکہ اگر کوئی سو بار درود شریف پڑھے تو یہ فرشتہ سو بار اس کے اور گنبدِ خضریٰ کے درمیان چکر لگائے گا اور ہر درود علیحدہ علیحدہ پیش کرے گا۔(مرقاۃ)اس سے اس فرشتے کی قوت رفتارمعلوم ہوئی۔

۳؎ اس جواب سے معلوم ہورہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حیات النبی بیان فرمارہے ہیں،یعنی انبیاء بعد وفات زندہ ہی رہتے ہیں لہذا تمہارے درود مجھ پر جیسے اب پیش ہورہے ہیں پھربھی پیش ہوتے رہیں گے۔یہاں مرقاۃ نے فرمایا کہ اولیاءاﷲ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں اسی لیئے ان کی موت کو انتقال یا وفات کہتے ہیں اور ان کی موت کے دن کو عرس،کہ وہ دولہا کی طرح یہاں سے وہاں منتقل ہوجاتے ہیں۔ہم پہلےعرض کرچکے ہیں کہ نبی کے جسم کو نہ مٹی کھا سکتی ہے ہے نہ کوئی جانور۔یعقوب علیہ السلام کا فرمانا میں ڈرتا ہوں کہ یوسف کو بھیڑیا کھا جائے گا ظاہر یہ ہے کہ وہاں بھیڑئے سے مراد خود ان کے بھائی ہیں ورنہ پیغمبر کےجسم کو مٹی نہیں کھاتی۔

۴؎ ظاہر یہ ہے کہ یہ فرمان بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے اور نبی سے مراد جنس نبی ہیں۔مرقاۃ نے یہاں فرمایا کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں،نمازیں پڑھتے ہیں۔امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حضرات بعد وفات مختلف وقتوں میں مختلف جگہ تشریف فرماتے ہیں یہ عقلًا نقلًا ہرطرح ثابت ہے۔(۱)رب تعالٰی فرماتا ہے:”وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ”یعنی اے محبوب!اپنے سے پہلے انبیاء سے یہ مسئلہ پوچھو۔معلوم ہوا کہ گزشتہ انبیاءحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زندہ ہیں کہ آپ ان سے بات چیت و سوال و جواب بھی کر سکتے ہیں۔(۲)اور فرمایا ہے:”وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزْوٰجَہٗ مِنۡۢ بَعْدِہٖۤ اَبَدًا”۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے ان کی وفات کے بعد کبھی نکاح نہ کرو۔اس آیت نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی بیویاں بدستور ان کے نکاح میں رہتی ہیں بیوہ نہیں ہوتیں،ورنہ اَزْوٰجَہٗنہ فرمایا جاتا،نیز ان سے نکاح کی حرمت ماں ہونے کی وجہ سے نہیں وہ بیویاں احترام میں مائیں ہیں نہ کہ احکام میں ورنہ ان کی میراث امت کو ملتی۔ان کی اولاد سے نکاح حرام ہوتا ہے یہ آیت حیات النبی کی کھلی دلیل ہے۔(۳)شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ ا لسلام کو ان کی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا۔جب سرکار بیت المقدس پہنچے تو انہیں اور سارے پیغمبروں کو وہاں نماز کا منتظر پایا اور پھر جب آسمانوں پر تشریف لے گئے تو چوتھے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام کو اور مختلف آسمانوں پر دیگر انبیاء کو اپنا منتظر دیکھا۔ان قرآنی آیات اور احادیث سے پتہ چلا کہ انبیائے کرام بعد وفات زندہ ہوتے ہیں بلکہ ان پر زندوں کے بعض احکام جاری ہوتے ہیں۔(۴)کہ ان کی بیویاں اور دوسرا نکاح نہیں کر سکتیں۔(۵)ان کی میراث تقسیم نہیں ہوتی۔(۶)حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر نمازی سلام عرض کرتا۔(۷)ہم کلمے میں پڑھتے ہیں محمد رسول اﷲ(محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں)اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو کہا جاتا کہ اﷲ کے رسول تھے۔غرضکہ اس حدیث کی تائید قرآنی آیات سےبھی ہے اور دیگر عقلی و نقلی دلائل سے بھی۔خیال رہے کہ آیت کریمہ”اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ”اس حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ وہاں موت سے مراد حسی موت ہےجس پر بعض احکام موت کے جاری ہوجاتے ہیں جیسےغسل،کفن،دفن،وغیرہ اور یہاں زندگی سےحقیقی زندگی مراد ہے،نیز وہاں آیات میں موت سے مراد ہے روح کا جسم سے علیحدہ ہوجانا اور یہاں زندگی سے مراد ہے روح کا جسم وغیرہ میں تصرف کرنا،جیسے ہماری سیلانی روح نیند میں جسم سے نکل کر جسم کو زندہ رکھتی ہے یوں ہی ان کی مقامی روح بوقت وفات جسم سے نکل کر بھی زندگی باقی رکھتی ہے۔لہذا نہ تو آیات متعارض ہیں اور نہ حدیث و قرآن میں کچھ تعارض اس لیئے اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے میت الگ بولا گیا اور دوسرے کے لیئے میتون علیحدہ،اگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی دوسروں کی طرح ہوتی تو یوں فرمایا جاتا “اِنَّكَ وَ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ”۔اس حیات کی مفصل تحقیق ہماری”تفسیرنعیمی”پارہ دوم میں دیکھیں۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم روح ہیں سارا عالم جسم ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم جڑ ہیں سارا عالم درخت ہے،ا گر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فنا ہوگئے ہوتے تو عالَم بھی ختم تھا۔جیسے درخت کی سبز شاخیں جڑ کی زندگی کا پتہ دیتی ہیں اور جسم کی حس و حرکت روح کا پتہ دیتی ہے ایسے عالَم کا قیام و بقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا پتہ دے رہا ہے۔دیکھو جسم کا سوکھا ہوا عضو سڑتا گلتا نہیں کہ ابھی روح سے وابستہ ہے اگر چہ بے کار ہوگیا ہے،ایسے ہی ہم گنہگاروں پر عذابِ الٰہی نہیں آتا کہ اگرچہ ہم بے کار ہیں مگر دامن مصطفے پاک سے وابستہ ہیں،رب تعالٰی فرماتا ہے:”وَمَاکَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنۡتَ فِیۡہِمْ”۔اگر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں نہ رہے ہوتے تو ہم پر عذاب آجانا چاہیئے تھاہماری بدکاریوں کے سبب۔(۸)حضرت سلیمان کے متعلق رب فرماتا ہے:”مَا دَلَّہُمْ عَلٰی مَوْتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ”یعنی حضرت سلیمان بعد وفات عصا پر ٹیک لگائے کھڑے رہے بہت عرصہ کے بعد دیمک نے لاٹھی کھائی تب آپ کا جسم زمین پر آیا اسی عرصہ میں نہ جسم بگڑا نہ دیمک نے کھایا۔(۹)وہ شہدا جوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامانِ غلام ہیں جب ان پر فدا ہوکر زندہ جاوید ہوگئے تو خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کیسی اہم ہے۔رزق سے مراد رزق حسی ہے یعنی جنیں میوے ان کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں جس سے وہ بہرا مند رہتے ہیں،جب ان کے غلام یعنی شہداء کی روحیں جنت میں پہنچتی ہیں،وہاں کے پھل کھاتی ہیں اور جب مریم کو دنیا میں جنت کے پھل دیئے گئے اور انہوں نے کھائے(قرآن مجید)تو انبیائےکرام خصوصًا سید الانبیاء کے رزق کا کیا پوچھنا۔اصحاب کہف اور ان کا کتا صدہا سال سے سو رہے ہیں،انہیں غیبی رزق بھی برابرپہنچ رہا ہے،سورج ان پر دھوپ نہیں ڈالتا۔دسمبر،جنوری،اور جون و جولائی ان پر سردی گرمی نہیں پہنچاتے،حضرات انبیاء بعد وفات ان سے اعلیٰ حسن والی زندگی رکھتے ہیں۔(۱۰)حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بعد وفات اپنی ازواج کا نان نفقہ واجب ہے جیسے زندگی شریف میں تھا۔چنانچہ بخاری وغیرہ کتب احادیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ ہم کسی کے وارث نہ کوئی ہمارا وارث،ہمارے بعد ہماری ازواج کے نفقہ اور عُمّال کی تنخواہوں سے جو بچے وہ صدقہ ہے۔(۱۱)حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب تک میرے حجرے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق دفن رہے میں بے حجاب وہاں جاتی تھی مگر جب سے جناب عمر دفن ہوئے میں بے حجاب جاتے عمر سے شرماتی ہوں،اگر وہ حضرات زندہ نہیں تو یہ شرم کس سے ہے۔(۱۲)بعض اولیاء کے اجسام صدہا برس کے بعد اب بھی درست دیکھے جاتے ہیں۔اگر وہ بالکل مردے ہیں تو جسم گلتا کیوں نہیں۔حیات نبی پر یہ بارہ دلائل ہیں۔اس کی تحقیق ہماری کتاب “درس القرآن”میں دیکھو۔

۵؎ مرقاۃ نے فرمایا کہ اس کی اسناد نہایت صحیح اورقوی ہے اور یہ حدیث بہت اسنادوں سے مختلف الفاظ میں منقول ہے۔