جنت کا ایک خزانہ
جنت کا ایک خزانہ
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیںکہ ہم رحمت عالم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو لوگ بلند آواز سے کہنے لگے اس پر رحمت عالم ﷺ نے فرمایا اے لوگوں !اپنی جانوں پر نرمی کرو تم لوگ نہ بہرے کو پکارتے ہو نہ غائب کو تم سمیع و بصیر کو پکار رہے ہو جو تمہارے ساتھ ہے جسے تم پکار رہے ہو وہ تم میں سے ہر ایک کی سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے۔
ابو موسیٰ اشعری( رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے پیچھے تھا۔ اپنے دل میں کہہ رہا تھا’’ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَاِلَّا بِاللّٰہِ‘‘تو حضور انے فرمایا اے عبد اللہ بن قیس کیا میں تم کو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ پر رہبری نہ کر دوں میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہﷺ فرمایا’’لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَاِلاَّ باِللّٰہِ‘‘ (بخاری ومسلم )
میرے پیارے آقاﷺ کے پیا رے دیوانو !رحمت عالمﷺانے جو بلند آواز سے تکبیر کے لئے منع فرمایا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ ذکر بالجہر (بلند آواز سے) منع ہے بلکہ اس لئے منع فرمایا تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر سفر کرتے ہوئے یہ نعرے تکلیف کا باعث تھے اسی لئے فرمایا اپنی جانوں پر نرمی کرو اور اشعۃاللمعات میں ہے کہ یہ سفر غزوئہ خیبر کا تھا کہ سرکار ﷺ مع صحا بہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے خیبر فتح فرمانے تشریف لے جارہے تھے اس سفر میں حضور رحمت عالم ﷺ کا ارادہ یہ تھا کہ خیبر پر ہم اچانک جا پڑیں۔ لوگوں کو اس حملہ کی خبر بھی نہ ہوسکے تاکہ دشمنان اسلام تیاری نہ کرسکیں اور بہت کم خون خرابہ ہو اور خیبر فتح ہوجائے اس نعرے سے یہ مقصد فوت ہوجاتاورنہ بہت مواقع پر جہاں ذکر بالجہر کے موانع نہ ہوتے صحا بۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بلکہ خود حضورﷺ بلند آواز سے ذکر الٰہی کیاکرتے۔ چنانچہ با جماعت نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرتے تھے۔ وہ موانع مثلاوہاں کوئی نماز پڑھ رہا ہو یاکوئی معتکف سورہاہو۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دل میں’’لَاحَوْلَ وَ لاَ قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ پڑھ رہے تھے تو غیب کی خبر بتانے والے آقاﷺ ان کی کیفیت دل سے باخبر ہوکر ارشاد فرماتے ہیں ’’لَاحَوْلَ‘‘شریف جنت کا خزانہ ہے اس لئے کہ اس میں انسان انتہائی بے کسی بے بسی کا اقرار اور اللہ عزوجل کی قدرت کا اعتراف کرتاہے یہی بندگی کا مدار ہے ’’حول‘‘کے معنٰی ہیں ظاہری طاقت و قوّت کے معنٰی ہے باطنی قدرت یعنی بندے میں بغیر رب تعالیٰ کی مدد کے نہ ظاہری طاقت ہے نہ باطنی قوت۔ اللہ عزوجل کے کرم کے بغیر بندہ نہ گناہوں سے بچ سکتاہے نہ نیکیاں کرسکتا ہے۔ حضور ا نے ان کلموں کو خزانہ اس لئے فرمایا کہ یہ کلمے جنتی نعمتوں کے خزانے ملنے کے سبب ہیں۔
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو!رحمت عالم ﷺ کے صدقہ میں ہمیں جنت کا خزانہ مل گیا ہے اس لئے اس خزانے کی قدر کرو اور قدر یہ ہے کہ کثرت سے اس کو پڑھا کرو۔ اللہ عزوجل ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو!ہر جائز کام کی ابتدامیں اللہ عزوجل سے اس کے مکمل اور اچھے ہونے کی التجا کرلینا چاہئے انشاء اللہ کام مکمل اور اچھا ہوگا اس لئے کہ جو کام کی ابتداء میں اپنے مولیٰ عزوجل کو نہ بھولے گا اللہ عزوجل اس کے جائز کام کو احسن طریقے پر پائے تکمیل تک پہونچائے گا اور مذکورہ حدیث شریف میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا کہ ہر مصیبت پر خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اعلیٰ ہو یا ادنیٰ’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘پڑھ لینا چاہئے۔ یہ بھی سنت رحمت عالم ﷺ ہے اور یہ بھی فرمایا گیا کہ ہر نعمت پر ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ پڑھ لینا چاہئے۔ یہ اظہار تشکر کے لئے ہے کہ نعمت دینے والا اللہ عزوجل اس سے خوش ہوکر اور زیادہ نعمتیں عطا فرمائے گا اور یہ بھی فرمایا گیا کہ گناہ پر ’’اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ‘‘ پڑھ لینا چاہئے۔ گویا اس فرمان میں بندو کو تسلی دی جارہی ہے کہ اگر گناہ سرزد ہو جائے تو ارحم الراحمین کی شان رحمت ومغفرت پر نظر رکھو وہ بندوں کو معاف کرنے والا غفور رحیم ہے سچے دل سے توبہ کرلوگے وہ تمہارے گناہوں کومعاف فرما دیگا لہٰذا گناہ سرزد ہونے پر’’ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ‘‘ضرور پڑھ لیا کرو۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ!مذکورہ حدیث شریف پر عمل کرنے کے بدلے میں اللہ عزوجل جنت میں گھر عطا فرمائے گا ان شاء اللہ اللہ عزوجل سرکارﷺ کے صدقہ وطفیل ہم کو توفیق رفیق نصیب فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ