زکوٰۃ کا بیان
{زکوٰۃ کا بیان }
حدیث شریف : سرکارِ اعظم ﷺنے فرمایا جو مال برباد ہوتاہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے برباد ہوتاہے اورفرمایا کہ زکوٰۃ دے کر اپنے مالوں کو قلعوں میں بند کرلو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو۔ اور بَلا نازل ہونے پر دُعا اورتَضَرُّعْ سے استعانت کرو اورفرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے چار چیزیں فرض کی ہیں جوان میں سے تین ادا کرے وہ اُسے کچھ کام نہ دیں گے ۔ جب تک پوری چاروں کو نہ بجا لائے وہ چار چیزیں یہ ہیں (1) زکوٰۃ (2) نماز (3)روزہ (4) حج اورفرمایا جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز قبول نہیں۔(بحوالہ : طبرانی اوسط، ابو داؤد ، امام احمد ، طبرانی کبیر)
مسئلہ : زکوٰۃ فرض ہے اس کا منکر کافر اور نہ دینے والا فاسق اورقتل کا مستحق اورادا کرنے میں دیر کرنے والا گنہگار و مَردُودُ الشَّہادَۃ۔ (عالمگیری)
مسئلہ : زکوٰۃ ہر عاقل وبالغ مسلمان پر فرض ہے نابالغ بچے پر زکوٰۃ فرض نہیں مثلاً کسی کے والد کا انتقال ہوگیا نابالغ بچے کے حصّے میںوالد کے ترکے سے کوئی چیز آئے اوراسے کسی نے محفوظ کرلیا نابالغ بچے کے اس مال پر زکوٰۃ فرض نہیںہے ۔
مسئلہ : عاقل اس لئے کہا گیا کیونکہ کوئی شخص ارب پتی ہے اس کا بینک بیلنس بھی ہے مگر وہ پاگل ہے مجنون ہے ایسے شخص پر بھی زکوٰۃ فرض نہیں ۔
مسئلہ : جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا ہو یا اتنی ہی رقم ہواور ایک سال بیت گیا ہو اور مقروض بھی نہ ہو ایسے شخص پر زکوٰۃ کا دینا فرض ہے ۔
مسئلہ : کل مال کا تخمینہ لگا کر اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ دی جائے یعنی ایک لاکھ روپے یا اس کی مالیت پر ڈھائی ہزار روپے زکوٰ ۃ دی جائے ۔
مسئلہ : زکوٰۃ دیتے وقت نیت (دل کا ارادہ ) شرط ہے جِسے زکوٰۃ دی جارہی ہے اس کو یہ کہنا ضروری نہیںکہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ اِسے تحفہ ، نذرانہ یا ہدیہ کہہ کر بھی دی جاسکتی ہے اوردل میں زکوٰۃ کی نیت کرلی جائے بلکہ اگر کوئی شخص سخت ضرورت مند ہے زکوٰۃ کا مستحق بھی ہے لیکن وہ زکوٰۃ لینا نہیں چاہتا اوراسے زکوٰۃ کہہ کر دیں تووہ نہیں لے گا تواسے ادھار اورقرض کہہ کر دے دی جائے اورنیت زکوٰۃ کی ہو تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ۔
مسئلہ : ایسا شخص جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی رقم اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو اس کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ۔
مسئلہ : بد مذہب بے دین کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی ۔
مسئلہ : سید اور ہاشمی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ۔
مسئلہ : والد اوروالدہ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ۔
مسئلہ : دادا ،دادی اوران کے والدین چاہے کتنے ہی درجے اُوپر ہوں ان کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ۔
مسئلہ : نانا، نانی اوران کے والدین چاہے کتنے ہی درجے اُوپر ہوں اُن کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتے ۔
مسئلہ : بیٹا ، بیٹی اوران کی اولاد چاہے کتنی ہی درجے نیچے ہوں کسی کو بھی زکوٰۃ نہیںدے سکتے ۔
مسئلہ : مسلمان ،عاقل اوربالغ کو جو زکوٰۃ کا مستحق ہو یعنی اس کے پاس اپنی حاجتِ اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی رقم نہ ہو اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔
مسئلہ : چچا ، چچی اوراُن کی اُولاد کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ : خالو، خالہ اوراُن کی اُولاد کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ : پھوپھا ، پھوپھی اوراُن کی اولاد کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ : ماموں ، ممانی اوراُن کی اولاد کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ : قرآن وحدیث کاعلم حاصل کرنے والے طالب ِ علم کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ : مسافر اگرچہ مالدار ہو لیکن سفر میں اس کے پاس پیسے نہیں ہیں توایسے شخص کو بقدرِ ضرورت زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ : ایسا شخص جو مالکِ نصاب ہو لیکن اس نے اپنا مال کسی کو قرض دیا ہے اورخود مُفلس ہوگیا توایسے شخص کو بقدر ضرورت زکوٰۃ دے سکتے ہیں ۔
مسئلہ : داماد اوربہو کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ : وہ اشیاء جن کی انسان کو زندگی بسر کرنے کے لئے ضرورت ہو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ وہ چیزیں یہ ہیں ۔
(1) رہنے کا مکان (2) پہننے کے کپڑے
(3) گھر کے برتن (4) بستر ، مسہری (لحاف ، کمبل ، گدے وغیرہ)
(5) گھر کا فرنیچر (6) قالین ، دریاں وغیرہ
(7) فریج، ریفر یجریٹر (8) ایئر کنڈیشن
(9) کار ۔ ایک سے زائد گاڑیاں بھی ہوں جیسے ایک بیٹے کی ایک بیوی کی ان پر بھی زکوٰۃ نہیں کہ آج کے دور میں یہ حاجتِ اصلیہ ہیں ۔
(10) سائیکل ، موٹر سائیکل (11) تجارت کے لئے دُکان
(12) مل ، فیکٹری (البتہ ان سے جو آمدنی حاصل ہوگی اس پر زکوٰۃ ہے )
(13) کارخانہ کی مشینری
(14) ہیرے، قیمتی پتھر(اگر مالِ تجارت نہ ہوں )
(15) کارخانہ میں استعمال ہونے والے تمام اوزار
(16) کسی بھی شعبے کے کاریگر اورمستری کے ہُنر اورکام کے اوزار
(17) بڑھئی ، کارپینٹر کے اوزار (18) پلمبر کے اوزار
(19) الیکٹریشن کے اوزار (20) موٹر مکینک کے اوزار
(21) مستری ، راج کاکام کرنے والے اوزار (22) رنگ کرنے کے بُرش وغیرہ
(23) سُنا ر کاکام کرنے والے کے اوزار (24) کاتب کے قلم روشنائی وغیرہ
(25) استری ، پنکھا اوردیگر مشنری کی مرمت کرنے والے کے اوزار
(26) چھپائی کے پریس کی مشینیں (27) کمپوزنگ والے کے تمام کمپیوٹر ، پرنٹر ، ا سکینر وغیرہ
(28) فوٹو اسٹیٹ والے کی فوٹو کاپی کی مشینیں (29) ہوٹل والے کے برتن اورٹیبل کرسیاں وغیرہ
(30) اہلِ علم کی کتابیں جنہیں پڑھا ہو یا پڑھ سکتاہو یا حوالے وغیرہ کے لئے رکھی ہوں
(31) اپنی حفاظت کے لئے رکھے ہتھیار ، پستول وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں ۔
ان تمام اشیاء پر زکوٰۃ فرض نہیں جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے ۔
مسئلہ : جیسے ہی آپ زکوٰۃ نکالیں اُسے مستحقین میں تقسیم کردیں اور دیتے وقت نیت شرط ہے زکوٰۃ دیں تو مالک بنادیں ورنہ مثال کے طور پر کسی شخص نے زکوٰۃ نکالی اورمستحق تک نہیں پہنچائی اور مال چوری ہوگیا توزکوٰۃ اد انہیں ہوگی ادا اس وقت ہوگی جب کسی کو اس کا مالک بنادیں۔
مسئلہ : آپ جارہے ہیں زکوٰۃ کے چار ہزار روپے آپ کے جیب میں ہیں خدانخواستہ جیب کٹ گئی یا چار ہزار روپے گر گئے آپ نے سوچا کہ چلو زکوٰۃ کے نکال دیں گے ایسی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ۔
مسئلہ : آپ نے غریب کو دیکھ کر مال دے دیا کل آپ کو خیال آیا کہ زکوٰۃ مجھ پر واجب ہے اب نیت کرلیتا ہوں یہ نیت نہیںہوگی۔
نیت اس وقت دُرست ہوگی کہ آپ نے بغیر زکوٰۃ کی نیت کے غریب کومال دے دیا ابھی وہ آپ کے سامنے سے نہیں گیا اوراسے خرچ نہ کیا تواس کے جیب میں رقم ہونے پر بھی اگر آپ نیت کرلیں یہ نیت درست ہے۔
مسئلہ : ایک آدمی سالہا سال سے زکوٰۃ دیتاہے اُسے یقین ہے کہ مالکِ نصاب ہوں ظاہر ہے کہ جب سال ہوگا وہ اس اعتبار سے زکوٰۃ دے گا یہاں لوگوں کے ذہنوں میںایک بہت بڑا ابہام یہ ہے کہ ایک شخص کو یکم رمضان کو سال پورا ہورہا ہے تووہ یکم رمضان کو زکوٰۃ نکالے گا تویکم رمضان تک جتنی بھی رقم کسی سے آئے اس پر زکوٰۃ نکالنی ہوگی ۔
ایسا نہیں ہے کہ زکوٰۃ نکالنے سے ایک دن پہلے ہمارے پاس مال آیا توہم اس کا شمار آئندہ سال کریں گے یا یہ رقم آئی ہے اس پر سال بیتے گا توہم زکوٰۃ نکالیں گے ایسا نہیں بلکہ سال پورا ہونے کے ایک دن پہلے سے صاحبِ نصاب چلے آرہے ہیں مثلا ً آپ پہلے سے صاحب ِ نصاب ہیںآج شام میں آپ کا زکوٰۃ کا سال پورا ہوگیا سال پورا ہونے سے دویا تین گھنٹے پہلے یا سال ہونے سے ایک یا دودن پہلے آپ نے مکان فروخت کردیا اورارادہ یہ ہے کہ دوسرا ایک اچھا مکان لیں گے اس کی رقم دس لاکھ روپے آپ کے پاس ہے تواب آپ کو اس دس لاکھ روپے پر بھی زکوٰۃ دینی ہوگی ایسا نہیں ہوگا کہ آپ اس رقم کی آئندہ سال زکوٰۃ دیں مطلب یہ کہ زکوٰۃ کا سال مکمل ہونے سے دو گھنٹہ یاایک دن پہلے بھی جو رقم آئیگی اُس کی بھی اِسی سال کی مد میں زکوٰۃ دیں گے ۔
مسئلہ: ایک شخص سالہا سال سے صاحبِ نصاب چلا آرہا ہے اورزکوٰۃ ادا کرتاہے اسی سال اس کا خدانخواستہ بڑا نقصان ہوگیا یامال چوری ہوگیا اب وہ چھے مہینے گزرنے کے بعد صاحبِ نصاب نہیں رہا اب قدرتی ایک دوروز کے بعد اس کو بڑا فائدہ ہوا جس سے وہ دوبارہ صاحبِ نصاب ہوگیا فتاویٰ عالمگیری ، فتاویٰ شامی وغیرہم تمام کتب میںیہ مسئلہ موجود ہے کہ ایسا شخص نیاسال شمار نہیں کرے گا بلکہ پچھلے سال کے مطابق زکوٰۃ دے گا۔
مسئلہ : ایک شخص کو دس ہزار روپے ایک ساتھ کسی نے زکوٰۃ کے دئیے اوروہ مستحق بھی تھا اب اس کو دوبارہ زکوٰۃ نہیں دے سکتے کیونکہ اب وہ زکوٰۃ کا مستحق نہیں رہا۔ بشرطیکہ اس نے اس رقم میں سے اتنا خرچ نہ کردیا ہو کہ نصاب بھی باقی نہ رہا ہو۔
مسئلہ : کسی غریب لڑکی کی شادی ہے اس کی شادی کا خرچہ ایک یا دولاکھ ہے ایسی صورت میںبعض لوگ دس ہزار ،پانچ ہزار کرکے لڑکی کو زکوٰۃ دیتے ہیں اُوپر مسئلے میں آپ کو سمجھایا کہ اگر دس ہزار اس کو مل گئے تواب وہ زکوٰۃ کی مستحق نہ رہی لہٰذا اب زکوٰۃ اس کو نہیں دے سکتے ۔
اس کا شرعی علاج یہ ہے کہ جس لڑکی کی شادی ہے اوراس کا والد مستحق ہے توجو اُسے زکوٰۃ دے اس زکوٰۃ کا مالک اس کی لڑکی کو بنادے زکوٰۃ والد کو دے مالک لڑکی کو بنا دے لہٰذا جب رقم پوری جمع ہوجائے توایک ساتھ لڑکی کی شادی پر خرچ کردی جائے یہ زکوٰۃ کا صحیح طریقہ ہے ۔
مسئلہ : ایک شخص کو آپ نے زکوٰۃ دی زکوٰۃ دینے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ شخص مستحق نہیں ہے ایسی صورت میں زکوٰۃ ادا ہو جائے گی کیونکہ اس کے گھر پر جاکر یہ کہنا کہ ہماری رقم واپس کرو یہ ممکن نہیںلہٰذا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی گناہ اورعذاب زکوٰۃ لینے والے پر ہوگا ایسا شخص آگ کے انگارے کھارہا ہے ۔
بینک اور زکوٰۃ کی کٹوتی }
بینک میں شرعی حدود و قیود کا لحاظ نہیں رکھا جاتاہے اورنہ ہی زَراور سود میں تفریق کی جاتی ہے یہاں تک کہ اخبارات میں بھی آتاہے کہ حکومت زکوٰۃ کی رقم میں خُردبُرد بھی کرتی ہے لہٰذا بینک سے زکوٰۃ نہ کٹوائیں رمضان سے پہلے زکوٰۃ کٹوتی سے آپ اپنے آپ کو مستثنیٰ قرار دینے والا فارم پُر کرلیں سپریم کورٹ نے یہ سہولت اب حنفیوں کو بھی دے دی ہے ۔(تفہیم المسائل)
مسئلہ : زکوٰۃ وغیرہ صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے بھائیوں ،بہنوں کو دے پھر ان کی اولاد کو پھر چچا اورپھوپھیوں کو پھر ان کی اولاد کو پھر ماموں اورخالہ کو ، پھر ان کی اولاد کو پھر اپنے گاؤں یا شہر کے رہنے والوں کو(جوہر ہ، عالمگیری وغیرہ)