وَالشَّمۡسُ تَجۡرِىۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّهَا ؕ ذٰلِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِؕ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 38
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالشَّمۡسُ تَجۡرِىۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّهَا ؕ ذٰلِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِؕ ۞
ترجمہ:
اور سورج اپنی مقرر شدہ منزل تک چلتا رہتا ہے۔ یہ بہت غالب ‘ بےحد علم والے کا بنایا ہوا نظام ہے
تفسیر:
سورج کے مستقر (منازل) کے متعدد محامل
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور سورج اپنی مقرر شدہ منزل تک چلتا رہتا ہے۔ یہ بہت غالب ‘ بےحد علم والے کا بنایا ہوا نظام ہے (یٰس ٓ :38)
اس آیت میں فرمایا ہے کہ سورج اپنے مستقر (مقرر شدہ منزل) تک چلتا رہتا ہے ‘ اس آیت میں مستقر کی حسب ذیل تفسیریں کی گئیں ہیں :
(١)… اس مستقر سے مراد ظرف زمان ہے اور وہ قیامت تک کا وقت ہے ‘ یعنی قیامت آنے تک سورج مسلسل چلتا رہے گا اور قیامت آنے کے بعد سورج کی حرکت منقطع ہوجائے گی۔
(٢)… کسی ایک خطہ زمین میں رات آنے تک سورج چلتا رہتا ہے اور جب رات آجاتی ہے تو وہ اس خطہ زمین میں غروب ہوچکا ہوتا ہے اور کسی خطہ زمین میں اس کی حرکت شروع ہوجاتی ہے اور یہ صرف ظاہری اعتبار سے ہے ورنہ حقیقت میں سورج کی حرکت قیامت تک منقطع نہیں ہوگی۔
(٣)… سورج ایک سال تک اپنے مستقر پر سفر کرتا رہتا ہے اور دوسرے سال اس کا پھر نیا سفر شروع ہوجاتا ہے۔
(٤)… اس مستقر سے مراد ظرف زمان نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ظرف مکان ہے اور اس کی حسب ذیل صورتیں ہیں :
(ا)… گرمیوں میں سورج انتہائی بلندی پر ہوتا ہے اور سردیوں میں اس کی بہ نسبت پستی پر ہوتا ہے۔ پس سورج گرمیوں کے موسم میں موسم گرما کے مستقر تک سفر کرتا رہتا ہے اور سردیوں کے موسم میں موسم سرما کے مستقر تک سفر کرتا رہتا ہے۔
(ب)… سورج کے طلوع کی جگہ ہر روز الگ ہوتی ہے اور وہ سال کے چھ ماہ تک ہر روز درجہ بہ درجہ نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے اور چھ ماہ بعد پھر ہر روز پرانے مطالع کی طرف درجہ بہ درجہ سفر شروع کردیتا ہے۔
(ج)… سورج اپنے محور میں گردش کررہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انتہائی حکمت اور بندوں کی مصلحت کے ساتھ اس کی گردش کا دورانیہ مقرر کیا ہے۔
(د)… سال کے پہلے چھ ماہ تک سورج ہر روز کسی چیز کی سمت سے گزرتا ہے اور اگر وہ ہر روز ایک ہی چیز کی سمت سے گزرتا تو ایک ہی جگہ مسلسل حرارت اور تمازت جذب کرنے کی وجہ سے جل جاتی اور اس زمین کے باطن میں جو رطوبتیں ہیں وہ خشک ہوجاتیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے زمین کے ہر حصہ کے لئے سورج کے الگ الگ طلوع کی جگہ مقرر کی تاکہ زمین کے باطن میں رطوبتیں جمع ہوتی رہیں اور سبزہ اور درخت برقرار رہیں ‘ پھر بہ تدریج سورج کی سمت کو ہر روز زمین کے قریب کرتا رہا تاکہ کھیتوں میں غلہ اور باغوں میں پھل پک سکیں ‘ پھر سورج کی اس سمت سے بہ تدریج دور کرتا رہا تاکہ زمین کی پیداوار اور نباتات جل نہ جائیں اور ظاہر ہے کہ یہ بےحد غالب اور بہت علم والے کا بنایا ہوا نظام ہے۔
(ہ)… اللہ تعالیٰ نے ہر روز سورج کے لئے ایک طلوع اور ایک غروب رکھا تاکہ دن بھی ہو اور رات بھی ہو کیونکہ اگر مسلسل دن ہوتا اور لوگ ہمیشہ بیدار رہتے تو ان کے اعصاب تھک جاتے اور وہ مضمحل ہوجاتے اور اگر مسلسل رات رہتی اور مستقل اندھیرا رہتا تو کاروبار حیات معطل ہوجاتا اور سورج کے طلوع اور غروب سے دن اور رات کا یہ توراد بہت غالب اور بےحد علم والے کا بنایا ہوا نظام ہے۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص ٧٧٢۔ ٦٧٢‘ ملخصا وموضحا ‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ٥١٤١ ھ)
غروب کے وقت سورج کا عرش کے نیچے سجدہ کرنا پھر اللہ سے اجازت لے کر طلوع ہونا
سورج اپنے مستقر (اپنی مقرر شدہ منزل) تک چلتا رہتا ہے ‘ اس سلسلہ میں حسب ذیل حدیث ہے :
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ کیا تمہیں معلوم ہے کہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو خوب علم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورج چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے مستقر پر پہنچ کر عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے ‘ پھر اسی حالت میں اس وقت تک رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے کہ بلند ہو اور جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا۔ پس وہ لوٹ کر اپنے نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے اور پھر چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے مستقر پر پہنچ کر عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے ‘ پھر اسی حالت میں اس وقت تک رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے کہ بلند ہو اور جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا ‘ سو وہ لوٹ کر اپنے نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے۔ یہ معمول یونہی جاری رہے گا اور لوگ اس میں کچھ فرق نہیں محسوس کریں گے۔ یہاں تک کہ ایک دن جب سورج عرش کے نیچے سجدہ کرے گزا تو اس سے کہا جائے گا ‘ بلند ہو اور اپنے مغرب سے طلوع ہو ‘ پھر صبح کو سورج مغرب سے طلوع ہوگا ‘ پھر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ وہ کونسا دن ہوگا ؟ یہ وہ دن ہوگا جس دن کسی ایسے شخص کا ایمان قبول نہیں ہوگا جو اس سے پہلے مسلمان نہ ہوچکا ہو یا جس نے اس سے پہلے ایمان لا کر کوئی نیکی نہ کی ہو۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث ٣٠٨٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٩٥١‘ سنن ابودائود رقم الحدیث ٢٠٠٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ٦٨١٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٢٥١ )
حدیث مذکور کی تشریح شارحین حدیث سے
علامہ یحییٰ بن شرف نودی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ‘ سورج کا مستقر عرش کے نیچے ہے اور وہ عرش کے نیچے سجدہ میں گرجائے گا۔ اس کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ایک جماعت کا قول ظاہر حدیث کے مطابق ہے۔
الواحدی نے کہا ‘ اس قول کی بناء پر سورج ہر روز عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور مشرق سے طلوع ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔
قتادہ اور مقاتل نے کہا وہ اپنے مقرر وقت اور میعاد مقرر تک چلتا رہے گا اور اس سے تجاوز نہیں کرے گا۔
زجاج نے کہا ‘ اس کے چلنے کی انتہا اس وقت ہوگی جب دنیا ختم ہوجائے گی۔
الکلبی نے کہا ‘ سورج اپنی منازل میں چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ اپنے مستقر کے آخر تک پہنچ جاتا ہے اور اس سے تجاوز نہیں کرتا اور پھر اپنی اول منازل کی طرف لوٹ آتا ہے
اور رہا سورج کا سجدہ کرنا تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمییز اور ادراک کو پیدا کردیا ہے۔
(صحیح مسلم بشرح النوادی ج ١ ص ٩٠٩۔ ٨٠٩‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ٧١٤١ ھ) ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس حدیث کی شرح میں متعدد اقوال نقل کئے ہیں لیکن کوئی ایسی بات نہیں لکھی جذس سے یہ عقدہ حل ہو سکے کہ سورج تو کبھی غروب نہیں ہوتا اور ایک افق سے غائب ہونا اس کا بعینہ دوسرے افق پر طلوع ہونا ہے اور سورج مسلسل حرکت کررہا ہے اور اس کی حرکت کبھی منقطع نہیں ہوتی اور اس حدیث کا نقاضا یہ ہے کہ اس کی حرکت منقطع ہوجاتا ہے اور وہ عرش کے نیچے سجدہ میں پڑا رہتا ہے ‘ حتیٰ کہ اس کو دوبارہ طلوع کا حکم دیا جاتا ہے۔ حافظ بدر الدین عینی نے بھی اس حدیث کا شرح میں اس اشکال اور اس کے حل کا ذکر نہیں کیا ‘ البتہ ان دونوں بزرگوں نے اس اشکال کا ذکر کیا ہے کہ قرآن مجید میں ہے :
ترجمہ (الکہف : ٦٨ )… اور اس نے سورج کو دلدل کے چشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا۔
اس آیت میں بتایا ہے کہ سورج دلدل کے چشمہ میں غروب ہو رہا تھا اور اس حدیث میں سورج کے غروب ہونے کا معنی یہ بتایا ہے کہ وہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور پھر وہیں پڑا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کو دوبارہ پھر پہلی جگہ سے طلوع ہونے کا حکم دیا جاتا ہے اور ان دونوں شارحین نے اس تعارض کا یہ جواب دیا ہے کہ قرآن مجید میں جو سورج کے غروب ہونے کا ذکر ہے اس سے مراد حقیقتاً غروب ہونا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد آنکھوں سے اوجھل ہونا ہے اور منتہائے بصر مراد ہے۔
(فتح الباری ج ٩ ص ٢٠٥‘ دارالفکر بیروت ٠٢٤١ ھ ‘ عمدۃ القاری ج ٩١ ص ١٩١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٢٤١ ھ)
حدیث مذکور پر یہ اشکال کہ یہ ہمارے مشاہدے اور قرآن و حدیث کی دیگر نصوص کے خلاف ہے
علامہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٠١٣ ھ ‘ علامہ الحسین بن مسعود بغوی ٦١٥ ھ ‘ علامہ عبدالرحمٰن بن علی بن محمد الجوزی المتوفی ٧٩٥ ھ ‘ علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ ‘ علامہ عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٥٨٦ ھ ‘ حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٤٧٧ ھ ‘ علامہ جلال الدین سیوطی متوفی ١١٩ ھ ‘ علامہ اسماعیل حقی متوفی ٧٣٩ ھ ‘ علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفا جی متوفی ٩٦٠١ ھ ‘ سید ابو الا علی مودودی متوفی ٩٩٣١ ھ ‘ پیر محمد کرم شاہ الازہری متوفی ٩١٤١ ھ ‘ شیخ امین احسن اصلاحی اور دیگر متعدد مفسرین نے یٰس ٓ: ٨٣‘ کی تفسیر میں صحیح مسلم کی اس حدیث کا ذکر کیا ہے کہ سورج ہر روز غروب کے وقت عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور پھر اسی طرح سجدہ میں پڑا رہتا ہے حتیٰ کہ اس سے کہا جاتا ہے کہ بلند ہو اور جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا۔ سو وہ لوٹ کر اپنے نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے۔ یہ معمول یونہی جاری رہے گا حتیٰ کہ ایک دن اس سے کہا جائے گا کہ بلند ہو اور اپنے مغرب سے طلوع ہو۔ الحدیث اور تقریباً سب مفسرین نے اس حدیث کو اپنے ظاہر پر محمول کیا ہے اور اس حدیث پر جو اشکال وارد ہوتا ہے ‘ اس کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی اور اس حدیث پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ مشاہدہ یہ ہے کہ سورج مسلسل حرکت کرتا رہتا ہے اور اس کا دورانہ ٠٦٣ مشرق اور مغرب ہیں۔ وہ ہر روز ایک مطلع سے طلوع ہوتا ہے اور ایک مغرب میں غروب ہوتا ہے اور اس کا ایک افق میں غروب ہونا ‘ بعینہ دوسرے افق میں طلوع ہونا ہے اور اسی سے تمام دنیا میں دن اور رات کا تواتر اور تسلسل قائم ہے۔ اگر سورج عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور تاحکم ثانی اسی طرح سجدہ میں پڑا رہتا ہے تو پھر گردش لیل و نہار میں تعطل ہوجائے گا اور یہ چیز نہ صرف مشاہدہ کے خلاف ہے بلکہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی دیگر تصریحات کے بھی خلاف ہے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بغیر کسی انقطاع اور وقفہ کے تسلسل کے ساتھ دن اور رات ایک دوسرے کے بعد پیہم اور لگاتار آرہے ہیں۔ میرے مطالعہ کے مطابق صرف علامہ سید محمود آلوسی حنفی بغدادی متوفی ٠٧٢١ ھ نے اس اشکال کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیگر مفسرین نے اس اشکال کا ذکر کیا اور نہ اس کے حل کی کوئی کوشش کی۔ پہلے ہم علامہ آلوسی کے جواب کا ذکر کریں گے ‘ پھر اس جواب پر اپنا تبصرہ کریں گے ‘ پھر اس کے بعد ہم ان جوابات کا ذکر کریں گے ‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے ہم پر القاء کیا ہے۔
فنقول وباللہ التوفیق و بہ الاستعانۃ یلیق۔
عرش کے نیچے سورج کے سجدے کرنے اور وہیں پڑے رہنے پر اشکال کا جواب علامہ آلوسی کی طرف سے
علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابو ذر (رض) کی اس روایت کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے ‘ البتہ سورج کے ہر رات سجدہ کرنے اور بغیر طلوع کے عرش کے نیچے پڑے رہنے میں اشکال ہے کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سورج ایک قوم کے پاس غروب ہوتا ہے اور دوسری قوم کے پاس طلوع ہوتا ہے اور ایک قوم کے ہاں رات طویل ہوتی ہے اور دوسری قوم کے ہاں رات قصیر ہوتی ہے اور دن اور رات میں طول اور قصر کا اختلاف خط استواء کے پاس ظاہر ہوتا ہے اور بلغار کے شہروں میں شفق کے غائب ہوتے ہی فجر طلوع ہوجاتی ہے اور اس پر دلائل قائم ہیں کہ غروب کے وقت سورج ساکن نہیں ہوتا۔ ورنہ وہ طلوع کے وقت بھی ساکن ہوگا ‘ کیونکہ اس کا ایک افق میں غروب بعینہ دوسرے افق میں طلوع ہونا ہے ‘ نیز سورج اپنے محور پر قائم رہتا ہے اور اس سے بالکل جدا نہیں ہوتا۔ پس کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک آسمان سے گزر کر دوسرے آسمان تک پہنچ جائے ‘ حتیٰ کہ عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرے اور یہ بات بالکل بدیہی ہے۔ اس پر کوئی دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اپنے زمانہ کے بڑے بڑے علماء سے یہ سوال کیا کہ یہ احادیث صحیحہ مشاہدہ اور بداہت عقل کے خلاف ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی مجھے مطمئن نہیں کرسکا ‘ پھر علامہ آلوسی نے خود اس اشکال کا جواب دیا ہے۔ اس کی تقریر یہ ہے :
جس طرح انسان کے لئے نفس ناطقہ ہے۔ اسی طرح افلاک اور کواکب کے لئے بھی نفوس ناطقہ ہیں اور جب نفوس ناطقہ قوت قدسیہ کے حامل ہوں تو بعض اوقات وہ اپنے ابدان معروفہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور دوسرے ابدان کی صورتوں میں متمثل ہوجاتے ہیں ‘ جیسے حضرت جبریل (علیہ السلام) ‘ حضرت وحیہ کلبی کی صورت میں متمثل ہوجاتے تھے یا اعرابی کی صورت میں متمثل ہوجاتے تھے۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں مذکور ہے ‘ اس کے باوجود ان کا اپنے اصل ابدان کے سالتھ تعلق بھی برقرار رہتا ہے اور ان سے افعال بھی صادر ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ بعض اولیاء کرام سے منقول ہے کہ وہ ایک وقت میں متعدد جگہوں پر دکھائی دیتے تھے اور اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ قوت قدسیہ کے حامل تھے۔ ایک جگہ وہ اپنے اصلی بدن میں دکھائی دیتے تھے اور دوسری جگہ وہ اپنے مثالی بدن میں دکھائی دیتے تھے۔
اور یہ چیز صوفیاء کرام کے نزدیک ثابت ہے اور اس کا انکار کرنا عناد اور ہٹ دھرمی ہے ‘ جو صرف جاہل اور معاند ہی کرسکتا ہے۔ حیرت ہے کہ علامہ تفتازانی نے بعض فقہاء سے یہ نقل کیا ہے کہ جو شخص اس کا اعتقاد رکھے کہ لوگوں نے ابراہیم بن ادھم کو آٹھ ذی الحجہ کو بصرہ میں دیکھا اور اسی دن ان کو مکہ میں دیکھا وہ کافر ہے۔ (علامہ زین الدین ابن نجیم نے لکھا ہے کہ اس قول کے کفر ہونے میں اختلاف ہے۔ البحرالرائق ج ٥ ص ٤٢١‘ طبع مصر) اس تکفیر کی یہ وجہ ہے کہ ان فقہاء کا یہ گمان ہے کہ ایک شخص کا ایک وقت میں متعدد جگہ ہونا ان بڑے معجزات کی جنس سے ہے جو ولی کے لئے بطور کرامت ثابت نہیں ہیں اور تم کو معلوم ہوگا کہ ہمارے نزدیک جو چیز نبی کے لئے بطور معجزہ ثابت ہو وہ مطلقاً ولی کے لئے بطریق کرامت ثابت ہے۔
اور متعدد علماء نے ثابت کیا ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات کے بعد کئی مرتبہ اجسام مثالیہ سے ظاہر ہوئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی ایک وقت میں متعدد جگہ زیارت ہوئی حالانکہ اس وقت آپ اپنی قبر انور میں نماز پڑھ رہے تھے اور اس پر مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے۔ (دیکھئے الاحزاب : ٠٤‘ روح المعانی ج ٢١ ص ٢٥) اور یہ صحیح ہے کہ آپ نے حضرت موسیٰ علیہ الاسلام کو کثیب احمر کے پاس اپنی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور آپ نے ان کو اسی وقت چھٹے آسمان پر بھی دیکھا اور نمازوں کی تخفیف کے متعلق آپ کی ان سے طویل گفتگو ہوئی اور یہ کسی نے نہیں کہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جس جسم کے ساتھ قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ‘ اسی جسم کے ساتھ چھٹے آسمان پر تھے اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت موسیٰ کے علاوہ اور بھی متعدد انبیاء (علیہم السلام) کو شب معراج دیکھا ‘ حالانکہ وہ اس وقت اپنی قبروں میں بھی موجود تھے۔
پس اس قیاس پر کہا جاسکتا ہے کہ ان نفوس قدسیہ کی طرح سورج کا بھی نفس ہے اور سورج کا وہ نفس اپنے اس معروف جسم کو اپنے حال پر چھوڑ کر عرش کی طرف چڑھتا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ کرکے وہاں پڑا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے طلوع کی اجازت طلب کرتا ہے اور سورج کے اس نفس کا اس کے معروف جسم کے ساتھ اس حال میں بھی تعلق قائم رہتا ہے اور سورج کے نفس کا عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرنا اس کے خلاف نہیں ہے کہ وہ اسی وقت بغیر کسی وقفہ اور انقطاع کے دوسری جگہ طلوع ہو رہا ہے کیونکہ طلوع اور غروب سورج کا جسم کررہا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ اس کا نفس کررہا ہے اور اسی قیاس پر یہ کہا جائے گا کہ کعبہ اولیاء اللہ کی زیارت کے لئے جاتا ہے۔ اس کا بھی یہ معنی ہے کہ کعبہ کا جسم تو مسجد حرام میں برقرار رہتا ہے اور کعبہ کی حقیقت اور اس کا نفس اولیاء اللہ کی زیارت کے لئے چلا جاتا ہے اور میں نے سورج کے سجدہ کرنے کے لئے عرش کے نیچے جانے اور مشاہدہ کے اس کے برخلاف ہونے میں کسی کی توجیہ اور تطبیق نہیں دیکھی۔ (روح المعانی جز ٣٢ ص ٢٢۔ ٩ ۃ ‘ ملخصاومضحا ‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ٧١٤١ ھ)
علامہ آلوسی کے جواب پر مصنف کا تبصرہ
میں کہتا ہوں کہ انبیاء (علیہم السلام) کا ایک وقت میں متعدد جگہوں پر جلوہ گر ہونا احادیث سے ثابت ہے لیکن اس بنا پر یہ کہنا کہ سورج کا بھی ایک نفس ہے اور ایک جسم ہے اور اس کا نفس عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور اس کا جسم مسلسل طلوع اور غروب کرتا رہتا ہے۔ محض ایک مفروضہ اور تک بندی ہے ‘ اس کی تائید میں کوئی حدیث نہیں ہے ‘ خواہ وہ سند ضعیف سے ثابت ہو۔
نیز اس حدیث پر صرف یہ اشکال نہیں ہے کہ غروب کے وقت سورج کا عرش کے نیچے سجدہ کرنے کے لئے جانا اور وہاں پڑے رہنا سورج کی حرکت کے تسلسل کے خلاف ہے بلکہ اشکال یہ ہے کہ سورج تو ہر وقت کسی نہ کسی جگہ دائما غروب ہو رہا ہے تو پھر سورج کو تو مستقلاً عرش کے نیچے ہی رہنا چاہیے خواہ سورج کا جسم عرش کے نیچے رہے یا سورج کا نفس عرش کے نیچے رہے۔ ہم نے بھی شرح صحیح مسلم میں اس اشکال کا حل پیش کیا ہے۔ اب ہم اس کو پیش کررہے ہیں۔
سورج کے سجدہ کرنے اور سجدہ میں پڑے رہنے کی مصنف کی طرف سے توجیہ
سورج کے سجدہ کرنے کے متعلق حضرت ابوذر (رض) کی جس قدر روایات بیان کی گئی ہیں ‘ ان سب میں یہ مذکور ہے کہ غروب کے وقت سورج عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرتا ہے اور پھر اسی حالت میں پڑا رہتا ہے ‘ حتیٰ کہ اجازت لینے کے بعد پھر واپس لوٹتا ہے اور بلند ہو کر صبح کے وقت طلوع ہوتا ہے جبکہ مشاہدہ اور عقل صریح اس کے سراسر خلاف ہے کیونکہ سورج نہ کسی جگہ ٹھہرتا ہے نہ الٹے پائوں واپس لوٹتا ہے بلکہ ہر آن اور ہر ساعت اس کا طلوع اور غروب دونوں عمل میں آرہے ہیں اور اس کا ایک افق میں غروب بعینہ دوسرے افق پر طلوع ہوتا ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث سے کیا مراد ہے ؟ اس کا حقیقی علم تو اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے۔ ان احادیث سے ہم جو کچھ سمجھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غروب آفتاب کو آفتاب کے سجدہ سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ ہر چیز کی عبادت اس کے حال کے مطابق ہوتی ہے لہٰذا سورج جب نصف النہار کے وقت حالت استواء پر ہوتا ہے تو اس کا یہ استواء قیام سے زوال کے بعد جب سورج غروب ہوتا ہے وہ چونکہ عرش کے نیچے واقع ہے اس لئے اس کو عرش کے نیچے سجدہ کرنے سے تعبیر فرمایا۔ رہا یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورج کے سجدہ کرنے کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا فلا نزال کذالک اس کا یہ مطلب نہیں کہ رات بھر سورج سجدہ میں پڑا رہے گا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حالت سجدہ (یعنی غروب) ہی میں اس سے کہا جائے گا ‘ ” ارجعی من حیث جنت “ جہاں سے آئے ہو وہیں لوٹ جائو اور لوٹنے کا مطلب الٹے پائوں واپس جانا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے نظام طبعی کے تحت لوٹنا ہے ‘ یعنی معروف طریقہ کے مطابق جس افق سے غروب ہوا ہے اس کے مقابل دوسرے افق پر طلوع ہو پھر اپنی منازل طے کرتا ہوا اس افق پر غروب ہو کر سابق افق پر طلوع ہوجائے۔ اس طرح اپنا دورہ مکمل کرنے کے بعد سورج اس افق سے پھر طلوع ہوتا ہے جس سے غروب ہوا تھا۔ قیامت تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا لیکن جب قیامت قائم ہوگی تو سورج جس افق سے غروب ہوا تھا اس افق پر جانب غروب سے ہی طلوع ہوجائے گا۔ للہ الحمد علی ما الھمن من حل اشکال ھذا الحدیث۔ (شرح صحیح مسلم ج ١ ص ٩٤٦‘ فرید بک اسٹال ‘ لاہور)
اشکال مذکور کا مصنف کی طرف سے دوسرا جواب
اس اشکال کا ایک اور جواب میں اب پیش کررہا ہوں۔ اس کی تقریر یہ ہے کہ اس سے پہلی آیتوں میں وجود باری تعالیٰ اور توحید باری پر دلائل قائم کئے گئے ہیں اور زمین کی روئیدگی اور اس کی پیداوار اور دن اور رات کے توارد سے یہ بتایا گیا ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ہر چیز اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان ہے اور اس کے احکام کے مطابق اس کائنات کا نظام چل رہا ہے اور اب اسی سلسلہ میں یہ دلیل قائم فرمائی ہے کہ اور سورج اپنی مقرر شدہ منزل تک چلتا رہتا ہے۔ یہ بہت غالب ‘ بےحد علم والے کا بنایا ہوا نظام ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی یہ وضاحت فرمائی کہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے اذن سے اپنے نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے ‘ اس ارشاد میں آپ نے ان لوگوں کا رد فرمایا ہے جو سورج کی پرستش کرتے ہیں۔ اس کو خدا مانتے ہیں اور اس کو عبادت کا مستحق قرار دیتے ہیں۔ آپ نے یہ بتایا کہ خدا تو وہ ہے جس کے احکام کی اطاعت کی جائے۔ سورج کہاں سے حاکم ہوگیا وہ تو خود اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کررہا ہے اور وہ عبادت کا مستحق کیسے ہوگیا وہ تو خود اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہے اور سورج کے عرش کے نیچے سجدہ کرنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنا سر عرش کے نیچے رکھ کر ہماری طرح سجدہ کرتا ہے کیونکہ ہر چیز کی عبادت اس کے حسب حال ہوتی ہے۔ درختوں کی ساخت حالت قیام کے مشابہ ہے۔ وہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے لئے حالت قیام میں عبادت کررہے ہیں۔ چوپایوں اور مویشیوں کی جسمانی بناوٹ حالت رکوع کے مماثل ہے ‘ وہ اس طرح حالت رکوع میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں اور پہاڑوں کی ساخت قعود کے مشابہ ہے تو وہ اس طرح حالت قعود میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں اور حشرات الارض کی جسمانی بناوٹ حالت سجدہ کے مماثل ہے سو وہ اس طرح سجدہ کے کیفیت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں۔ غرض جو چیز جس حال میں ہے وہ اسی حال میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہی ہے۔ جو چیزیں متحرک ہیں وہ حالت حرکت میں اس کی عبادت کررہی ہیں اور جو چیزیں ساکن ہیں وہ حالت سکون میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہی ہیں۔ جو حقائق ناطق ہیں وہ حالت نطق میں اور جو حقائق ساکت ہیں وہ حالت سکوت میں اس کی عبادت کررہے ہیں اور ہر چیز نے اپنی عبادت کے طریقہ کو پہچان لیا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے :
ترجمہ (النور : ١٤)… کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمینوں کی کل مخلوق اور صف باندھے ہوئے اڑنے والے پرندے ‘ سب اللہ کی تسبیح کررہے ہیں اور ہر چیز کو اس کی نماز اور اس کی تسبیح کا علم ہے۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر چیز ہماری طرح نماز پڑھتی ہے اور ہماری طرح تسبیح کرتی ہے بلکہ ہر چیز اپنے حسب حال نماز پڑھ رہی ہے اور تسبیح کررہی ہے ‘ اسی طرح سورج جو ہر روز عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور سجدہ میں پڑا رہتا ہے تاوقتیکہ اس کو دوبارہ اپنے طلوع کی جگہ سے طلوع ہونے کا حک دیا جائے اور قیامت تک یونہی ہوتا رہے گا حتیٰ کہ اس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ مغرب سے طلوع ہو ‘ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سورج حقیقتاً عرش کے نیچے پڑا رہتا ہے اور نظام ثب و روز معطل ہوجاتا ہے حتیٰ کہ یہ کہا جائے کہ یہ چیز مشاہدہ کے خلاف ہے اور سورج کا مسلسل ہر افق سے طلوع اور غروب اس کے تعطل کے منافی ہے بلکہ اس حدیث کا معنی یہی ہے کہ سورج اپنے معمول کے مطابق طلوع اور غروب کررہا ہے اور اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہے ‘ وہ اسی کی اطاعت میں سر بسجود ہے ‘ وہ اس طلوع اور غروب میں خود مختار نہیں ہے وہ جو کچھ کررہا ہے اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق کررہا ہے اور سورج کے عرش کے نیچے سجدہ کرنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ سورج خود یا اس کا نفس چل کر عرش کے نیچے جاتا ہے بلکہ اس کا محمل یہ ہے کہ عرش الٰہی تمام کائنات کو محیط ہے اور تمام افلاک ‘ کواکب اور عناصر عرش کے نیچے ہیں۔ سو سورج بھی عرش کے نیچے ہے خواہ سورج کا طلوع ہو یا غروب ہو اور حدیث میں غروب کے وقت کی تخصیص اس لئے کی گئی ہے کہ غروب کا وقت ہیئت سجدہ کے زیادہ مشابہ ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ہر وقت کہیں نہ کہیں سورج غروب ہو رہا ہے لیکن ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ سورج کے تین سو ساتھ (٠٦٣) مطالع ہیں اور ہر روز سورج کا ایک نا مطلع ہوتا ہے۔ کسی بھی افق پر غروب کے بعد اس کو طلوع کا حکم دیا جاتا ہے۔ سو کسی مخصوص افق (مثلاً کراچی کے افق) پر اس کو ہر روز طلوع کا حکم دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر روز سورج کا اس افق پر نئے مطلع سے طلوع ہونا یہی سورج کی عبادت ہے اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ہر چیز اپنے جس حال میں ہے ‘ خواہ وہ حالت حرکت میں ہے یا حالت سکون میں ‘ اسی حال میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہی ہے۔ سو سورج حالت حرکت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہا ہے اور سورج کا اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام پر عمل کرنا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا ہی اس کی عبادت ہے اور سورل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عبادت کو سجدہ سے اس لئے تعبیر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا زیادہ اظہار سجدہ میں ہوتا ہے کیونکہ عبادت معبود کے سامنے اظہار تذلل کو کہتے ہیں اور اقصیٰ غایت تذلل سجدہ میں ہوتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منشاء یہ ہے کہ ہمیں اپنی آنکھوں سے اس کائنات میں جو سب سے عظیم اور قوی چیز دکھائی دیتی ہے وہ سورج ہے اور یہ عظیم ترین چیز بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے سجدہ ریز ہے تو عام انسانوں کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہے۔ انہیں اس کی کس قدر اطاعت اور عبادت کرنی چاہیے۔ والحمد للہ رب العٰلمین !
قرآن مجید کی زیر تفسیر آیت (یٰس ٓ: ٨٣) اور حدیث مذکور پر میں نے بہت مطالعہ کیا۔ بےحد غور کیا اور میں نے ان کا مطلب اسی طرح سمجھا ہے جس طرح ذکر کیا ہے اور اشکال مذکورر کو دور کرنے کی اپنی بساط کے مطابق کوشش کی ہے۔ اگر یہ حق و صواب ہے تو اللہ عزوجل اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے ہے اور اگر اس میں نقص اور قصور ہے تو دراصل یہ میری عقل کا نقص اور میری فہم کا قصور ہے ‘ اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں ! !
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 38
[…] کی زیادہ تفصیل یٰسین 38 میں ملاحظہ […]