وَالۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِيۡمِ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 39
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِيۡمِ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کی ہیں حتیٰ کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے
تفسیر:
چاند کی منازل
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کی ہیں حتیٰ کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے ( یٰس ٓ: 39)
چاند کی ٨٢ (اٹھائیس) منزلیں ہیں۔ یہ روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے ‘ پھر ایک یا دو راتوں تک اس کا ظہور نہیں ہوتا اور ٩٢ یا تیس دن کے بعد اس کا ظہور ہوجاتا ہے۔ چاند جب آخری منزل پر پہنچتا ہے تو وہ بالکل باریک اور چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو جو سوکھ کر ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔ چاند کی اس گردش کی وجہ سے زمین پر رہنے والے اپنے دنوں ‘ مہینوں اور سالوں کا حساب کرتے ہیں اور اپنی مخصوص عبادات کا تعین کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے :
ترجمہ : (البقرہ : ٩٨١)… لوگ آپ سے چاند کے (گھٹنے ‘ بڑھنے) متعلق سوال کرتے ہیں ‘ آپ کہئے یہ لوگوں (کی عبادات) کے اوقات اور حج کے (تعین) کے لئے ہے۔
اس آیت میں العرجون کا لفظ ہے ‘ عرجون کھجور کی اس ٹہنی کو کہتے ہیں جس میں خوشے لگتے ہیں۔ یہ ٹہنیاں خشک ہونے کے بعد ٹیڑھی ہو کر بالکل ایسی شکل اختیار کرلیتی ہیں جو ابتدائی اور آخری تاریخوں میں چاند کی شکل ہوتی ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت ہے جو چاند کی پرستش کرتے ہیں کہ تم چاند کو مستحق عبادت قرار دیتے ہو اور تم اس چاند کو سارے جہان کا موجد اور مربی سمجھتے ہو اور اس آمر اور مطاع کہتے ہو ‘ حالانکہ یہ آمر نہیں مامور ہے۔ مطاع نہیں مطیع ہے۔ اس کو جس طرح منزل بہ منزل سفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ‘ یہ اس حکم کی تعمیل میں محو سفر ہے۔
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ اور علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ نے لکھا ہے :
اس آیت میں منازل کا لفظ ہے۔ یہ منزل کی جمع ہے اور منزل کا معنی ہے نزول کی جگہ۔ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند دونوں کی رفتار کی خاص حدود مقرر فرمائی ہیں۔ سورج کی تین سو ساٹھ یا تین سو پینسٹھ منزلیں ہیں۔ وہ ایک سال میں ان منازل کو طے کرتا ہے اور پھر شروع سے اپنا دور شروع کردیتا ہے۔ سورج بھی اپنے محور میں گردش کرتا ہوا اپنی منازل کو طے کرتا ہے۔ چاند اپنا دورہ ہر ماہ میں مکمل کرلیتا ہے لیکن چاند ہر ماہ میں ایک یا دو دن نظر نہیں آتا۔ اس لئے چاند کی اٹھائیس منزلیں کہی جاتی ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عربوں نے ستاروں کے نام پر ان اٹھائیں منزلوں کے نام رکھ دیئے تھے اور ان کو بارہ برجوں پر تقسیم کردیا تھا۔ چاند کی اٹھائیس منزلوں کے عربوں نے حسب ذیل نام رکھے تھے :
(١) سرطان (٢) بطین (٣) ثریا (٤) دبران (٥) ھقعہ (٦) ہنعہ (٧) ذراع (٨) نژہ (٩) طرف (٠١) جبہہ (١١) خراتان (٢١) صرفہ (٣١) عواء (٤١) سماک (٥١) غفر (٦١) زبنیان (٧١) اکلیل (٨١) قلب (٩١) شولہ (٠٢) نعائم (١٢) بلدہ (٢٢) سعد الذابح (٣٢) سعد بلع (٤٢) سعد السعود (٥٢) سعود الاخبیہ (٦٢) الفرغ المقدم (٧٢) الفرغ المئوخر (٨٢) بطن الحوات۔
چاند ان منازل کو اٹھائیں راتوں میں طے کرتا ہے اور آخری منزل میں پہنچنے کے بعد وہ ایک یا دو دن نظر نہیں آتا ‘ پھر باریک سا ہلال کی شکل میں دکھائی دیتا ہے اور حسب سابق پہلی منزل سے سفر شروع کردیا ہے۔ یہ اٹھائیس منزلیں بارہ برجوں پر تقسیم کردی گئیں ہیں اور ہر برج کے لئے دو اور ایک تہائی منزل ہے ‘ مثلاً برج حمل کے لئے سرطان ‘ بطین اور ثریا کا ایک تہائی ہے اور برج ثور کے لئے دو تہائیثریا ‘ دبران اور دو تہائی ہقعہ ہے ‘ علی ہذا القیاس۔
(الجامع الاحکام القرآن جز ٥١ ص ٩٢‘ دارالفکر بیروت ‘ روح المعانی جز ٣٢ ص ٤٢۔ ٣٢‘ دارالفکر بیروت)
بروج کا لغوی اور اصلاحی معنی اور اس کی دیگر تفصیلات ہم نے الحجر : 16 میں لکھ دی ہیں۔ دیکھئے تبیان القرآن ج ٦ ص ٣٥٢۔ ٢٥٢۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 39