أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اتَّقُوۡا مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡكُمۡ وَمَا خَلۡفَكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جب ان سے کہا جاتا ہے تم اس (عذاب) سے ڈرو جو تمہارے سامنے اور تمہارے بعد ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے (تو وہ اس پر غور نہیں کرتے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب ان سے کہا جاتا ہے تم اس (عذاب) سے ڈرو جو تمہارے سامنے اور تمہارے بعد ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘ (تو وہ اس پر غور نہیں کرتے) اور جب بھی ان کے پاس ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی آتی ہے تو وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ان چیزوں میں سے بعض کو خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دی ہیں تو کفار ایمان والوں سے کہتے ہیں ‘ کیا ہم اس کو کھلائیں جس کو اگر اللہ کھلانا چاہتا تو کھلا دیتا تم تو صرف کھلی گمراہی میں ہو(یٰسٓ: 47۔ 45 )

سامنے اور بعد کے عذاب کے متعدد محامل

(یٰسٓ: 45) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) ‘ جبیر اور مجاہد نے کہا ‘ تم اپنی گزشتہ زندگی کے گناہوں پر اللہ کے عذاب سے ڈرو اور آئندہ زندگی میں گناہوں سے بچوں اور نیکی کے کام کرو ‘ تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور قتادہ نے کہا اس کا معنی ہے تم اس عذاب سے ڈرو جو تم سے پہلی قوموں پر ان کی نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے آیا تھا اور آخری کے عذاب سے ڈرو اور ایمان لے آئو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور جب ان کو یہ نصیحت سے اعراض کرتے ‘ اس جملہ کو ذکر نہیں کیا گیا اور اس پر دلیل آیت : ٦٤ ہے اور جب بھی ان کے پاس ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی آتی ہے تو وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں

اس آیت میں نشانیوں کے لئے آیات کا لفظ ہے ‘ اس آیت میں آیات سے مراد قرآن مجید کی آیات بھی ہوسکتی ہیں اور آیات سے مراد وہ معجزات اور دلائل بھی ہوسکتے ہیں جس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی توحید پر اور اپنی نبوت پر بطور دلیل پیش کرتے تھے ‘ یعنی وہ عقلی دلائل سے نصیحت حاصل کرتے تھے اور نہ حواس سے کوئی بات سمجھتے تھے۔

اللہ کی تعظیم اور مخلوق پر شفقت کی تفصیل

یٰسٓ: 45 میں مشرکین سے یہ کہا گیا تم اس عذاب سے ڈرو جو تمہارے سامنے اور تمہارے بعد ہے ‘ یعنی موت کے وقت جس عذاب کا خطرہ ہے ‘ اس سے ڈرو اور موت کے بعد آخرت میں جس عذاب کا خطرہ ہے اس سے ڈرو اور اس عذاب سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی توحید پر اور اس کی ذات اور صفات پر ایمان لائو اور شرک اور کفر کو اور اللہ تعالیٰ کی تکذیب کو ترک کردو ‘ تاکہ تمہارے سامنے اور تمہارے آگے جس عذاب کا خطرہ ہے تم اس عذاب سے محفوظ ہو جائو۔ سو اس آیت میں ان کو اللہ ت عالیٰ کی تعظیم بجا لانے کا حکم دیا گیا اور یٰسٓ: ٦٤ میں ان سے کہا گیا کہ ان چیزوں میں سے بعض کو خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دی ہیں ‘ سو اس آیت میں ان کو مخلوق پر شفقت کرنے کا حکم دیا گیا اور تمام احکام شرعیہ کا رجوع ان ہی دو چیزوں کی طرف ہوتا ہے ‘ خالق کی تعظیم کرنا اور مخلوق پر شفقت کرنا۔ یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنا اور اللہ تعالیٰ کے نیک اور مخلص بندے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور دن رات اس کی عبدات کرکے اس کی تعظیم اور تکریم کرتے ہیں اور اس کی مخلوق پر اس کے حکم کے مطابق شفقت اور مہربانی کرتے ہیں۔ زکٰوۃ ‘ صدقات واجبہ اور نفلی صدقات ادا کرتے ہیں اور بعض بندگان راہ خدا تو اپنی ضرورت سے زائد ہر چیز دوسرے ضرورت مندوں کو دے دیتے ہیں اور ان کفار اور مشرکین نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی عبادت کے لئے کفر اور شرک کو ترک کیا اور تقویٰ کو اختیار کرکے اپنی موت کے وقت اور آخرت کے عذاب کو ٹالنے کی کوشش کی اور نہ غریبوں اور ناداروں کی ضروریات پر خرچ کرکے ان پر شفقت کے اظہار کے لئے کوئی اقدام کیا حالانکہ یہ خالق کی تعظیم کرتے یا مخلوق پر شفقت کرتے تو اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہ تھا بلکہ ان ہی کا فائدہ تھا کہ وہ اس عمل سے موت کے وقت اور آخرت کے عذاب سے بچ جاتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی تعظیم کرنے سے مستغنی ہے۔ اس کی تعظیم کرنے کے لئے ملائکہ ‘ انبیاء اور اولیاء بہت ہیں ‘ اسی طرح اگر وہ مخلوق پر شفقت نہ کریں اور مسکینوں اور ناداروں کی ضروریات پوری نہ کریں تو اس سے ان کو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان کے رزق اور ان کی ضروریات کا اللہ تعالیٰ کفیل اور ضامن ہے۔ پتھر کے نیچے جو کیڑا ہے وہ اس کو بھی روزی فراہم کرتا ہے۔ اگر تونگر اور خوشحال کسی مفلس اور بدحال کی امداد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کسی اور شخص کے دل میں اس کی امداد کی تحریک پیدا کردیتا ہے اور کوئی اور شخص اس کی مدد کے لئے اپنا ہاتھ بڑھا دیتا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 45