وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 48
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو تو بتادو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ اگر تم سچے ہو تو بتادو اور وہ صرف ایک ہولناک چیخ کا انتظار کررہے ہیں جو ان کو اس وقت پکڑے گی جب وہ جھگڑ رہے ہوں گے پس وہ اس وقت نہ وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ سکیں گے
کفار قیامت کی خبر کو وعد کیوں کہتے تھے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین نے اہل مکہ سے فرمایا تھا کہ قیامت قائم کی جائے گی اور اس کے بعد نیکوں اور بروں اور مومنوں اور کافروں کا حساب لیا جائے گا اور نیک لوگوں کو جزاء اور برے لوگوں کو سزا دی جائے گی تو مکہ کے کفار اور مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے ‘ یہ وعدہ کب پورا ہوگا۔ اگر تم سچے ہو تو بتادو !
اس آیت میں وعد کا لفظ ہے ‘ وعد کا لفظ خیر اور شر اور نفع و نقصان دونوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور وعید کا لفظ صرف شر اور نقصان کی خبر سنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس آیت میں وعد کا لفظ ثواب اور عذاب دونوں خبروں کے لئے ہے کیونکہ قیامت کے بعد نیک لوگوں کو ثواب عطا کیا جائے گا اور برے لوگوں کو عذاب دیا جائے گا۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ قیامت کے دن کفار کو صرف عذاب کی خبر دی گئی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ سوال کیا کہ ان سے کیا ہوا ‘ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا زعم یہ تھا کہ انہوں نے نیک کام کئے ہیں۔ اگر واقعی قیامت قائم ہوگی تو پھر ان کو ان نیک کاموں کی جزا ملے گی۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 48