حدیث نمبر 595

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں عرض کیا گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ کس وجہ سے اس دن کا نام جمعہ رکھا گیا فرمایا اس لیئے کہ اس میں تمہارے والد حضرت آدم کی مٹی جمع کی گئی ۱؎ اسی میں بے ہوشی اور اٹھنا ہے اسی میں پکڑ ہے ۲؎ اور اس کی آخری تین گھڑیوں میں ایسی گھڑی ہے جو اس میں اﷲ سے دعا مانگے اس کی قبول ہو۳؎(احمد)

شرح

۱؎ اس طرح کہ حضرت ملک الموت نے ہرقسم کی مٹی میں سے ایک ایک مٹھی لی اور اسے ہرقسم کے پانی سے گوندھا،جس دن اس گوندھنے اور خمیر کرنے سے آپ فارغ ہوئے وہ دن جمعہ تھا اسی لیئے بعض شارحین نے طُبِعَتْ کے معنی خُمِّرَتْ کیئے ہیں اور بعض نے جُمِعَتْ،دونوں درست ہیں۔خیال رہے کہ یہ سارے واقعات بعد میں ہونے والے تھے مگر رب تعالٰی نے اول ہی سے اس کا نام جمعہ رکھا۔چنانچہ قرآن کریم نے فرمایا:”لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ”جیسے کہ ہمارے حضورکی تعریفیں آیندہ ہونے والی تھیں تو رب تعالٰی نے اول ہی سے آپ کا نام محمد اور احمد رکھا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت آدم کی پیدائش کے بعد اس کا نام جمعہ ہوا۔لہذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں جن میں فرمایا گیا کہ اس دن میں تمام چیزیں خلقت میں جمع ہوئیں۔

۲؎ یعنی قیامت کا پہلا نفخہ بھی جمعہ کو ہوگاجس پر سب فنا یا بے ہوش ہوں گے اور دوسرا نفخہ بھی جمعہ کو ہوگاجس میں سب اٹھیں گے اور رب تعالٰی کا غضب والا فیصلہ کفار کے جہنم میں جانے کا بھی جمعہ کو ہی ہوگا۔پکڑ سے یہ مراد ہے یا جنگ بدر جمعہ کو ہوئی جو کفار کی پکڑ تھی۔خیال رہے کہ قیامت مںک نہ سورج ہوگا نہ دن رات لیکن اگر یہ ہوتا اور دن رات ہوتے رہتے تو یہ اٹھنا اور پکڑوغیرہ جمعہ کو ہوتی،لہذا حدیث پر چکڑالوی اعتراض نہیں کرسکتے۔

۳؎ یہاں صاف فرمادیا گیا کہ قبولیت کی گھڑی مغرب سے کچھ پہلے ہے۔تین گھڑیاں فرمانے کا منشا یہ ہے کہ انسان پہلے سے دعا کی تیاری کرے۔