وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳)

اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں (ف۵۹) تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا (ف۶۰)اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا (ف۶۱)

(ف59)

ضعف کا غلبہ ہو ، اعضا میں قوّت نہ رہے اور جیسا تو بچپن میں ان کے پاس بے طاقت تھا ایسے ہی وہ آخرِ عمر میں تیرے پاس ناتواں رہ جائیں ۔

(ف60)

یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ ان کی طرف سے طبیعت پرکچھ گرانی ہے ۔

(ف61)

اور حسنِ ادب کے ساتھ ان سے خِطاب کرنا ۔

مسئلہ : ماں باپ کو ان کا نام لے کر نہ پکارے یہ خلافِ ادب ہے اور اس میں ان کی دل آزاری ہے لیکن وہ سامنے نہ ہوں تو ان کا ذکر نام لے کر کرنا جائز ہے ۔

مسئلہ : ماں باپ سے اس طرح کلام کرے جیسے غلام و خادم آقا سے کرتا ہے ۔

وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴)

اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا (ف۶۲) نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا (ف۶۳)

(ف62)

یعنی بہ نرمی و تواضع پیش آ اور ان کے ساتھ تھکے وقت میں شفقت و مَحبت کا برتاؤ کر کہ انہوں نے تیری مجبوری کے وقت تجھے مَحبت سے پرورش کیا تھا اور جو چیز انہیں درکار ہو وہ ان پر خرچ کرنے میں دریغ نہ کر ۔

(ف63)

مدعا یہ ہے کہ دنیا میں بہتر سلوک اور خدمت میں کتنا بھی مبالغہ کیا جائے لیکن والدین کے احسان کا حق ادا نہیں ہوتا ، اسلئے بندے کو چاہئے کہ بارگاہِ الٰہی میں ان پر فضل و رحمت فرمانے کی دعا کرے اور عرض کرے کہ یاربّ میری خدمتیں ان کے احسان کی جزا نہیں ہو سکتیں تو ان پر کرم کرکہ ان کے احسان کا بدلہ ہو ۔

مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا جائز اور اسے فائدہ پہنچانے والی ہے ، مُردوں کے ایصالِ ثواب میں بھی ان کے لئےدعا ئے رحمت ہوتی ہے لہٰذا اس کے لئے یہ آیت اصل ہے ۔

مسئلہ : والدین کافِر ہوں تو ان کے لئے ہدایت و ایمان کی دعا کرے کہ یہی ان کے حق میں رحمت ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ والدین کی رضا میں اللہ تعالٰی کی رضا اور ان کی ناراضی میں اللہ تعالٰی کی ناراضی ہے ، دوسری حدیث میں ہے والدین کا فرمانبردار جہنّمی نہ ہوگا اور ان کا نافرمان کچھ بھی عمل کرے گرفتارِ عذاب ہوگا ، ایک اور حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا والدین کی نافرمانی سے بچو اس لئے کہ جنّت کی خوشبو ہزار برس کی راہ تک آتی ہے اور نافرمان وہ خوشبو نہ پائے گا ، نہ قاطعِ رحم ، نہ بوڑھا زنا کار ، نہ تکبُّر سے اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا ۔

رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِكُمْؕ-اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا(۲۵)

تمہارا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے (ف۶۴) اگر تم لائق ہوئے (ف۶۵)تو بےشک وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے

(ف64)

والدین کی اطاعت کا ارادہ اور ان کی خدمت کا ذوق ۔

(ف65)

اور تم سے والدین کی خدمت میں تقصیر واقع ہوئی تو تم نے توبہ کی ۔

وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)

اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے (ف۶۶)اور مسکین اور مسافر کو (ف۶۷)اور فضول نہ اڑا(ف۶۸)

(ف66)

ان کے ساتھ صلہ رحمی کر اور محبت اور میل جول اور خبر گیری اور موقع پر مدد اور حسنِ معاشرت ۔

مسئلہ : اور اگر وہ محارم میں سے ہوں اور محتاج ہو جائیں تو ان کا خرچ اٹھانا یہ بھی ان کا حق ہے اور صاحبِ استطاعت رشتہ دار پر لازم ہے ۔ بعض مفسِّرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا ہے کہ رشتہ داروں سے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ قرابت رکھنے والے مراد ہیں اور ان کا حق خُمس دینا اور ان کی تعظیم و توقیر بجا لانا ہے ۔

(ف67)

ان کا حق دو یعنی زکوٰۃ ۔

(ف68)

یعنی ناجائز کام میں خرچ نہ کر ۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ تبذیر مال کا ناحق میں خرچ کرنا ہے ۔

اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷)

بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں(ف۶۹)اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے(ف۷۰)

(ف69)

کہ ان کی راہ چلتے ہیں ۔

(ف70)

تو اس کی راہ اختیار کرنا نہ چاہئے ۔

وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا(۲۸)

اور اگر تو ان سے (ف۷۱) منہ پھیرے اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کی تجھے امید ہے تو ان سے آسان بات کہہ (ف۷۲)

(ف71)

یعنی رشتہ داروں اور مسکینوں اور مسافروں سے ۔

شانِ نُزول : یہ آیت مہجع و بلال و صہیب و سالم و خبّاب اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان میں نازِل ہوئی جو وقتاً فوقتاً سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اپنے حوائج و ضروریات کے لئے سوال کرتے رہتے تھے ، اگر کسی وقت حضور کے پاس کچھ نہ ہوتا تو آپ حیاءً ان سے اعراض کرتے اور خاموش ہو جاتے بایں انتظار کہ اللہ تعالٰی کچھ بھیجے تو انہیں عطا فرمائیں ۔

(ف72)

یعنی ان کی خوش دلی کے لئے ان سے وعدہ کیجئے یا ان کے حق میں دعا فرمائیے ۔

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۲۹)

اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا (ف۷۳)

(ف73)

یہ تمثیل ہے جس سے انفاق یعنی خرچ کرنے میں اعتدال ملحوظ رکھنے کی ہدایت منظور ہے اوریہ بتایا جاتا ہے کہ نہ تو اس طرح ہاتھ روکو کہ بالکل خرچ ہی نہ کرو اور یہ معلو م ہو گویا کہ ہاتھ گلے سے باندھ دیا گیا ہے ، دینے کے لئے ہل ہی نہیں سکتا ایسا کرنا تو سببِ ملامت ہوتا ہے کہ بخیل کنجوس کو سب بُرا کہتے ہیں اور نہ ایسا ہاتھ کھولو کہ اپنی ضروریات کے لئے بھی کچھ باقی نہ رہے ۔

شانِ نُزول : ایک مسلمان بی بی کے سامنے ایک یہود یہ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی سخاوت کا بیان کیا اور اس میں اس حد تک مبالغہ کیا کہ حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ترجیح دے دی اور کہا کہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ و التسلیمات کی سخاوت اس انتہا پر پہنچی ہوئی تھی کہ اپنے ضروریات کے علاوہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا سائل کو دے دینے سے دریغ نہ فرماتے ، یہ بات مسلمان بی بی کو ناگوار گزری اور انہوں نے کہا کہ انبیاء علیہم السلام سب صاحبِ فضل و کمال ہیں ، حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ و التسلیمات کے جود و نوال میں کچھ شبہہ نہیں لیکن سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مرتبہ سب سے اعلٰی ہے اور یہ کہہ کر انہوں نے چاہا کہ یہودیہ کو حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جودو کرم کی آزمائش کرا دی جائے چنانچہ انہوں نے اپنی چھوٹی بچّی کو حضور علیہ الصلٰوۃ و التسلیمات کی خدمت میں بھیجا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے قمیص مانگ لائے ، اس وقت حضورکے پاس ایک ہی قمیص تھی جو زیبِ تن تھی وہی اتار کر عطا فرما دی اور اپنے آپ دولت سرائے اقدس میں تشریف رکھی شرم سے باہر تشریف نہ لائے یہاں تک کہ اذان کا وقت آیا ، اذان ہوئی ، صحابہ نے انتطار کیا ، حضور تشریف نہ لائے تو سب کو فکر ہوئی ، حال معلوم کرنے کے لئے دولت سرائے اقدس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ جسمِ مبارک پر قمیص نہیں ہے ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی ۔

اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُؕ-اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۠(۳۰)

بےشک تمہارا رب جسے چاہے رزق کشادہ دیتا اور (ف۷۴) کستا ہے (تنگی دیتا ہے)بےشک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا (ف۷۵)دیکھتا ہے

(ف74)

جسے چاہے اس کے لئے تنگی کرتا اور اس کو ۔

(ف75)

اور ان کے احوال و مصالح کو ۔