یہ ظلم آخر کب تک؟
یہ ظلم آخر کب تک؟
۔
قرآنِ کریم کی تفاسیر ، احادیثِ طیبہ، سیرت وتواریخ کی کتب میں جب مَیں نے اللہ پاک کے معصوم وگناہوں سے پاک انبیائے کرام علیھم السلام کے بارے میں پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں نمرود نے لوگوں کی کاروبارِ معیشت پر قبضہ کررکھا تھا جو شخص اُسے سجدہ کرتا، اُسے اپنا رب مانتا وہ اُسے گھر کا راشن دیتا اور جو شخص اُس کو رب نہ مانتا، سجدہ نہ کرتا وہ اُسے بھوکا مرنے پر مجبور کردیتا ۔
۔
جب میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کے فرعون کے بارے میں پڑھا تو مجھے معلوم ہوا وہ بھی بنی اسرائیلیوں کو اپنا غلام بنا کر رکھتا تھا، بنی اسرائیلیوں کی معیشت پر فرعون اور قبطی قابض تھا ۔
بنی اسرائیلی معاش اور زندگی کے متعلق فرعون کے محتاج تھے ۔
۔
جب میں نے سرورِ عالَمْ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی کے بارے میں پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ حق کی طرف دعوت دینے کے جُرم میں کفارِ مکہ نے آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں اور قریبی رشتہ داروں کو تین سال تک شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور رکھا ۔
اِن تین سالوں میں کفّارِ مکہ نے حق کے داعی کا سوشل بائیکاٹ کیا۔
کفّارِ مکہ نے بیرونِ مکہ تاجروں پر بھی یہ پابندی لگا دی تھی کہ اِن کے ساتھ کسی بھی قسم کی خریداری مت کرنا ورنہ مکہ میں تمھارا آنا بند کردیں گے ۔
۔
کفار مکہ کی طرف سے تین سالوں پر مُحیط ظالمانہ سوشل بائیکاٹ کے متعلق صحابہ کرام علیھم الرضوان فرماتے ہیں کہ بھوک مٹانے کے لئے ہم درختوں کے پتے کھاتے تھے ۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شعب ابی طالب کی گھاٹی میں بھوک کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہوگئی تھی کہ اگر رات کے وقت ہمیں کوئی چیز زمین پر پڑی ہوئی ملتی تو ہم اسے دھوکر کھاتے اور اپنی بھوک مٹاتے تھے۔
۔
#کرنٹ سیچوئیشن ۔
۔
جب میں نے یہ حدیث پڑھی “اَلْعَلَمَآءُ وَرَثَۃُ الْانْبِیَآءِ ” علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔
میں نے اِس حدیث میں غور کیا تو مجھ پر یہ عُقْدَہ کھلا کہ بابِ نبوت بند ہوجانے کے بعد اب لوگ انبیاء کرام کے وارثین یعنی علمائے دین کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو سلوک نمرود وفرعون وابوجھل نے انبیائے کرام علیھم السلام کے ساتھ کیا تھا ۔
۔
فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگ کافر و اعتقاداً منافق بن کر انبیائے کرام علیھم السلام اور دینِ حق کے ساتھ دشمنی رکھتے تھے۔ اب لوگ کلمہ گو، نمازی، حاجی، سخی، ٹرسٹی ،جعلی پیروں کے مرید ،ومذھبی اصلاحی جماعتوں کے نمائندگان بن کر علمائے حق کا دشمن بنتے ہیں ۔
۔
جھلستان کے ماحول میں تبلیغِ دین کو محدود عبادات وفضائل میں منحصر کرکے جھل وظلم کو پروان چڑھایا گیا اور چڑھایا جارہا ہے ۔فَاِلی اللّہِ المُشْتَکٰی
۔
آج کوئی بھی عالمِ حقیقی منبرِ رسول پر بیٹھ کر ظلم کے خلاف بیان کرتے ہوئے موجودہ ظالم حکمرانوں کے بارے میں عوام کو یہ کہنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے کہ اِن ظالموں کا ساتھ مت دو کیونکہ قرآنِ کریم نے ظلم وزیادتی کے کاموں میں تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے” ارشادِ باری تعالیٰ ہے ” وَلاتعاونوا علی الاثْمِ والْعُدْوانِ “
۔
غتل وغارت گری لوٹ مار کے خلاف جمعہ کے واعظ میں کوئی بھی مفتی کوئ بھی عالم ترمذی شریف کی صحیح حدیث بیان کرتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ قتل وغارت کے جرم میں حکمرانوں کے ساتھ ہم بھی برابر کے شریک ہیں کیونکہ ہم نے ووٹ انہی ظالموں کو دیا تھا ۔
ترمذی شریف کی حدیث ہے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “اگر ساری دنیا کسی ایک انسان کے قتلِ ناحق میں شریک ہوجائے تو اللہ اُن سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دےگا “
۔
قارئینِ کرام غور فرمائیے! قتلِ ناحق پر قاتل کو پکڑنا اور عدالتوں سے جرم کی سزا دلوانا سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری،،،،،، سیکورٹی اداروں کو چَوْکُنا رکھنا وفاقی وصوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔۔
اگر سیکورٹی ادارے اپنا فرض نہیں نبھاتے اور حکومتیں بھی اُنہیں ڈھیل دیتی ہیں تو دونوں مجرم ۔
حکومتوں کو بذریعہ ووٹ منتخب کرنا عوام کی ذمہ داری ۔۔۔۔۔حکومتیں اپنے فرائض درست طریقے سے انجام نہیں دے رہی ہیں اور عوام پھر بھی انہی حکومتوں اور جماعتوں کو سپورٹ کرے تو عوام بھی اِن جرائم میں برابر کی شریک ۔
اداروں، حکومتوں اور عوام کو شرعی احکامات بتانے کی ذمہ داری علمائے کرام کی ۔۔۔۔۔
۔
ظلم وزیادتیوں کو دیکھتے ہوئے پھر بھی تبلیغ کا حق ادا نہ کرنا تو گویا علمائے کرام بھی مجرم ۔
سچ فرمایا سیدنا عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے
فَھَلْ افْسَدَ الدّیْنَ الّا الملوکُ
واحبارُ سوءٍ ورُھْبَانَھا
لوگوں کا دین اُن کے بادشاہوں (حکومتوں) برے علماء وپیٹ پرست پِیْرُوں نے بگاڑا ۔
۔
اگر کوئی عالم دین منبر ومحراب کے ذریعے اپنے منصب کا حق ادا کرکے قرآن وحدیث کی تعلیمات اور دورِ حاضر میں لوگوں کا قرآنی تعلیمات سے روگردانی کو بیان کرتا ہے تو بعض لوگ اسے مسجد کی امامت سے ہی فارغ کرا دیتے ہیں کیونکہ قرآن وحدیث آئینہ ہیں اور آئینے میں ہر ایک کو اُس کا چہرہ نظر آتا ہے ۔۔
۔
ہمارے چہرے اتنے بھیانک ہوچکے ہیں کہ قرآن وحدیث کے آئینہ میں ہمیں اپنا چہرہ دیکھنا گوارہ ہی نہیں ہے ۔
۔
محدود تبلیغ نے قوم کو یہ پسند کروا دیا کہ اُنہیں سنایا جائے سورۃ الملک عذابِ قبر سے بچاتی ہے لیکن قوم کو یہ پسند نہیں ہے کہ اِسی سورۃ الملک کی آیت ” قالوا لَوْ کُنّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَاکُنّا فِیْ اَصْحٰبِ السّعیرِ”جہنمی کہیں گے کہ حالات واقعات اور احکامات الٰہیہ میں اگر ہم غوروفکر کرتے، عقل رکھتے تو ہم جہنم میں نہ ہوتے ۔کی تفسیر جدیدوقدیم تفاسیر کی روشنی میں حالاتِ حاضرہ کے مطابق اُنہیں بتایا جائے ۔
۔
تنبیہ ۔
میں فضائل کا انکاری نہیں ہوں لیکن فضائل ہی فضائل میں رہنا اور مبادیاتِ اسلام سے ناواقف رہنا یہ یقیناً غلط ہے ۔
۔
سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا اسلام میں اصلی قانون کیا ہے فرمایا !قرآنِ کریم ۔۔۔۔۔۔
مزید ارشاد فرمایا حدیث، اجماع، اور اقوالِ آئمہ سب اِس اصلی قانون یعنی قرآنِ کریم کی تشریحات ہیں ۔
ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ حدیث، اجماع، اقوالِ آئمہ مِنْ وَجْہٍ یعنی ایک اعتبار سے اصل ہیں اور منْ وجْہٍ تابع ۔۔۔۔۔اصل اس لئے ہیں کہ قرآنِ کریم نے انہیں اصل قرار دیا ۔
۔
جب اسلام میں اصلی قانون قرآن وحدیث ہوئے اور اِسی قرآن وحدیث نے عبادات، معاملات، معاش ومعیشت، طرزِ زندگی، گھریلو ومعاشرتی زندگی الغرض ہر ہر چیز کے اصول بیان کئے تو پھر منبرومحراب کے ذریعے آدھی آدھی تبلیغیں کیوں کی جارہی ہیں؟
۔
ہم خواب دیکھتے ہیں کہ کشمیر فتح کریں گے، اسرائیل کو نیست ونابود کردیں گے ،دہلی کے لال قلعہ ، حیدرآباد کے قطب مینار پر اسلامی جھنڈا لہرائیں گے، غزوہ ہند لڑیں گے ،ہند کے حکمرانوں کو بیڑیاں پہنائیں گے ،فرانس ویورپ سے گستاخیوں کا بدلہ لیں گے اور ہماری اخلاقی جرأت اتنی بھی نہیں ہے کہ مسجد میں کسی بدبودار پسینہ والے گندے شخص کو منع کریں حالانکہ شریعت نے گندے بدبودار بو والے شخص کا مسجد میں داخلہ منع کردیا ہے اور بدبودار شخص اگر مسجد انتظامیہ کا منبر ہو پھر تو مجال ہے کہ ہماری پیشانی پر اس خلافِ شرع عمل بَلْ بھی آئے ۔
۔
نعرے ہم لگاتے ہیں کہ گستاخِ نبی تیری اب خیر نہیں لیکن ہمت اتنی بھی نہیں ہے کہ اپنے نمازیوں کو اُن کی جھالتوں پر مطلع کرسکیں ۔
۔
قومیں تعلیم وشعور سے بنتی ہیں ہم نے تعلیم وشعور کی بجائے عقیدت کو پروان چڑھایا اب حالت یہ ہے کہ قوم مفتیانِ کرام واہلِ علم حضرات کی بجائے جاھل پیروں ،گدی نشینوں و اجھل ترین واعظین کی باتوں کو ترجیح دےکر مساجد سے علماء ومفتیان کرام کی چھٹیاں کروا رہے ہیں ۔
۔
اِن سب واقعات ،ظلم وجھل ،، بدعات وخرافات کو دیکھ کر زبان پر بےساختہ قرآنِ کریم کی آیت جاری ہوجاتی ہے
“وَقالَ الرّسُوْلُ یارَبّ اِنّ قَوْمِیْ اِتّخَذُوْا ھذالقرآنَ مھجورا “
۔
اگر منبر ومحراب کے ذریعے قرآن وحدیث کی تعلیمات لاشرقی لاغربی اسلامی فقط اسلامی تعلیمات عام ہوتیں تو معاشرہ بگاڑ کا شکار نہ ہوتا ۔
اب اگر کوئی عالم دین منبرومحراب کے ذریعے اسلامی فقط اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کےلئے اقدامات کرتا ہے تو جھالت سے بھرے ہوئے لوگ اسے قبول ہی نہیں کرتے بلکہ الٹا اس سے امامت ہی چھین لیتے ہیں ۔
✍️ ابوحاتم
03/02/2021