امت مسلمہ کی ترجیحات
“امت مسلمہ کی ترجیحات”
لاشک اسلام میں مجسمہ سازی حرام ہے ۔ ذرا اس بات کو پس پشت ڈالیں اور دوسرے پہلو پر غور کریں ۔
کسی باغ میں ایک مجسمہ بنایا گیا ۔ مجسمہ خوبصورت بنتا تو سب ہی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ، اس میں نقص تھا تو ساری قوم کی غیرت جاگ گئ ، کوئ جرح کر رہا تھا اور کوئ اقبال کی محبت میں سرخ ہوا بیٹھا تھا
ایک ہی دن میں اہل اقتدار کی بھی غیرت جاگ گئ ۔ شام سے قبل وہ مجسمہ ہٹا دیا گیا۔۔۔۔۔۔
اقبال کو اللہ نے بڑی عزت بخشی ، بخدا ہم تو ان کے قدموں سے لگی خاک کو اپنے سروں پر فخر سے رکھ لیں کہ انہوں نے ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبردست شان بیان کی ہے
اے کلمہ گو! کبھی سوچنا کہ اقبال کا مجسمہ خراب ہونے پر تو سیخ پا ہے ، تیری غیرت جاگ اٹھی ہے
وہ اہل کفر تیرے نبی ﷺ کے اس سے زیادہ توہین آمیز خاکے و مجسمے بناتے ہیں ، انہیں اپنی عمارتوں پر آویزاں کرتے ہیں ، آپس میں مقابلہ کرتے ہیں اور جس کا خاکہ سب سے برا ہو وہ انعام کا حقدار ٹھہرتا ہے ، کیا تیری غیرت وہاں نہیں جاگتی؟؟؟؟؟
اے اہلیان اقتدار ! تم اقبال پر جھوٹی غیرت کھاتے ہو اور جب اہل کفر سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی بات آتی ہے تم گونگے شیاطین بن جاتے ہوو۔۔۔۔۔
مجھے یاد ہے ایک بار حلقہ یاراں میں کہ دیا :
“میں قدرت پاؤں تو ہا ل ی ن ڈ پر (ا ی ٹ م ی قوت) کا استعمال کر دوں کم از کم سرکار علیہ السلام کے سامنے شرمندہ تو نہ ہوں کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا تھا”
انہیں میری بات شدید ناگوار گزری اور پاکستان کے حالات پر رونا شروع کر دیا ، پس مجھے احساس ہوا کہ امت مرحومہ کے دلوں پر اہل یورپ کا رعب کس قدر موجود ہے ، میں نے چپ تو سادھ لی تاہم اس وقت اقبال شدت سے یاد آئے ، بار بار لبوں پر ان کے یہ اشعار آتے تھے:
بہتر ہے کہ شیروں کو سِکھا دیں رمِ آہُو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ،
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
سنان علی
4 فروری 2020ء