اَلَمۡ اَعۡهَدۡ اِلَيۡكُمۡ يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوا الشَّيۡطٰنَۚ اِنَّهٗ لَـكُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 60
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَمۡ اَعۡهَدۡ اِلَيۡكُمۡ يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوا الشَّيۡطٰنَۚ اِنَّهٗ لَـكُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ ۞
ترجمہ:
اے اولاد آدم ! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا ‘ بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے
عہد کا معنی اور اس کی اقسام
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے اولاد آدم ! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا۔ بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے (یٰسٓ : ٠٦)
عہد کا معنی ہے کسی ایسے کام کی پیشگی وصیت کرنا جس میں خیر اور منفعت ہو اور اس کام کا وعدہ لینا ‘ یعنی کسی ایسے کام کا پختہ قول و اقرار لینا جس کی رعایت کرنا اور اس کو پورا کرنا لازم ہو۔ اللہ نے جو ہم سے عہد لیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہماری عقلوں میں یہ بات جاگزیں اور مرکوز کردی ہے کہ ہم اس کو واحد مستحق عبادت مانیں گے اور یا اس سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتابوں اور اپنے رسولوں کے ذریعہ ہمیں جو احکام دے گا ہم ان کی اطاعت کریں گے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ ہم شیطان کی عبادت نہیں کریں گے اور شیطان کی عبادت سے مراد ہے شیطان کے احکام پر عمل کرنا اور اس کے قدم بہ قدم چلنا اور ان آیات میں ہم سے یہ عہد لیا گیا ہے :
ترجمہ (الانعام ٢٤١ )… اور شیطان کے قدم بہ قدم مت چلو بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
ترجمہ (الاعراف ٧٢)… اے اولاد آدم ! شیطان تم کو آزمائش میں نہ ڈال دے ‘ جس طرح وہ تمہارے ماں باپ کے جنت سے نکلنے کا سبب بن گیا تھا۔
شیطان کی عبادت تو کوئی نہیں کرتا تو اس کی ممانعت کا محمل
اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ تم سے شیطان کی عبادت نہ کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ شیطان کی عبادت تو دنیا میں کوئی بھی نہیں کرتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کی عبادت سے کس لئے منع فرمایا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شیطان کے وسوسوں کو قبول کرنا ‘ اس کی موافقت کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے برخلاف اس کے احکام کی تصدیق کرنا اور اس کی اطاعت کرنا ہی اس کی عبادت کرنا ہے اور اس پر دلیل یہ آیت ہے :
ترجمہ (جاثیہ ٣٢)… کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کے برخلاف اپنے نفس کی خواہشات اور اس کے احکام پر عمل کرتا ہے وہ دراصل اپنے نفس کی عبادت کرتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں کسی اور کے احکام کی اطاعت کرنا دراصل اس کی عبادت کرنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں شیطان کے احکام کی اطاعت کرنا اس کی عبادت کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے شیطان کی عبادت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
واضح رہے کہ اللہ کے رسول کی اطاعت کرنا ‘ اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کرنا ہے کیونکہ اللہ کا رسول اسی چیز کا حکم دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا منشا اور اس کی مرضی ہوتی ہے ‘ اسی لئے فرمایا :
ترجمہ (النساء ٠٨)… جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کرلی۔
حکام کی اطاعت کا محمل
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اللہ اور رسول کی اطاعت کے علاوہ اولی الامر (علماء اور حکام) کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے ‘ جیسا کہ اس آیت میں ہے :
ترجمہ (النساء ٩٥)… اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے صاحبان امر ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہمیں علماء اور حکام کے احکام کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے پس اگر اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی اور کے احکام کی اطاعت کرنا اس کی عبادت کرنے کے مترادف ہے تو گویا اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں علماء اور حکام کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مطلقاً دوسروں کے احکام کی اطاعت کرنا ان کی عبادت نہیں ہے بلکہ جب اللہ تعالیٰ کے احکام کے برعکس دوسروں کی اطاعت کی جائے یا اللہ اور رسول کے احکام کی نافرمانی میں دوسروں کی اطاعت کی جائے تو یہ ان کی عبادت کرنا ہے ‘ جیسا کہ حسب ذیل احادیث میں ہے :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان شخص پر لازم ہے کہ وہ حکام کے احکام سنیں اور ان کی اطاعت کریں خواہ وہ احکام ان کی خواہش کے موافق ہوں یا خلاف ‘ ماسوا اس صورت کے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا حکم دیا جائے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٣٨١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٧٠٧١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٤٦٨٢‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٠٢٧٨‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤١٧‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٦٢٦٢ )
حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر روانہ کیا اور ان پر ایک انصاری کو امیر بنادیا اور مسلمانوں سے فرمایا ‘ تم اس کے حکم کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔ وہ لوگوں کی کسی بات سے غضب ناک ہوگیا۔ اس نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ لکڑیاں جمع کریں۔ سو لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں ‘ پھر حکم دیا کہ آگ جلائو سو لوگوں نے آگ جلائی ‘ پھر کہا کیا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تم میرا حکم سننا اور میری اطاعت کرنا۔ مسلمانوں نے کہا کیوں نہیں ! اس نے کہا سو اب تم سب اس آگ میں داخل ہو جائو ! پھر مسلمانوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا ہم آگ سے بھاگ کر ہی تو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین میں آئے ہیں۔ وہ اسی طرح کھڑے رہے حتقٰ کہ اس کا غضب ٹھنڈا ہوگیا اور آگ بجھ گئی۔ جب مسلمانوں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اگر وہ اس آگ میں داخل ہوجاتے تو پھر نکل نہیں سکتے تھے ‘ اطاعت صرف نیکی میں کی جاتی ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠٤٣٤‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥٢٦٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٦٠٢٤‘ السنن الکبریٰ للنسائی : ١٢٧٨)
صرف اعضاء ظاہرہ سے شیطان کی اطاعت اور دل سے شیطان کی اطاعت کرنے کا فرق
ان احادیث سے ہمیں یہ معیار معلوم ہوگیا کہ جو حکم قرآن اور حدیث کے موافق ہو وہ اللہ کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت ہے اور جو حکم قرآن اور حدیث کے مخالف اور منافی ہو وہ شیطان کا حکم اور اس پر عمل کرنا شیطان کی اطاعت اور اس کی عبادت ہے۔ خواہ ہمارا نفس ہمیں ایسا حکم دے یا کوئی اور شخص ہمیں ایسا حکم دے ‘ مثلاً ہمارا جی چاہیے کہ ہم نماز نہ پڑھیں اور اس وقت میں کاروبار کریں یا ہمارا کوئی دوست ہم کو شراب پینے ‘ جوا کھیلنے یا کسی اور برے کام کی دعوت دے اور اس پر اصرار کرے تو یہ شطان کا حکم ہے جو کبھی ہماری خواہش کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی ہمارے کسی دوست اور تعلق والے کے مشورے اور اس کی ترغیب کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور ایسے احکام پر عمل کرنا درحقیقت شیطان کی اطاعت ہے اور اس کی عبادت ہے اور ہم کو اللہ تعالیٰ نے اس کشی اطاعت اور عبادت سے منع فرمایا ہے۔
پھر شیطان کی اطاعت کی بھی دو قسمیں ہیں ‘ ایک قسم وہ ہے کہ انسان برے کام کو دل سے برا جانتا ہے لیکن شامت نفس سے ‘ غلبہ شہوت سے یا غلبہ غضب سے وہ برا کام کر بیٹھتا ہے ‘ مثلاً رقم کی وقتی ضرورت سے چوری کرلیتا ہے لیکن دل سے اس کو برا سمجھتا ہے یا کوئی شخص دوستوں کے کہنے میں آ کر شراب پی لیتا ہے یا جوا کھیلتا ہے یا خواہش نفس کے غلبہ سے بدکاری کرلیتا ہے ‘ لیکن دل سے ان سب کاموں کو برا جانتا ہے اس قسم کی برائیوں میں صرف اس کے اعضاء ظاہرہ ملوث ہوتے ہیں اور اس کا ضمیر اس کو ملامت کرتا رہتا ہے اور اس کا دل ان گناہوں سے پاک ‘ صاف اور بےغبار ہوتا ہے تو اس قسم کے گناہوں میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس پر جو مصائب آتے ہیں اور بیماریاں طاری ہوتی ہے ان سے ان گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ مسلمان کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے خواہ اس کے پیر میں کانٹا چبھے ‘ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو اس کے لئے کفارہ بنا دیتا ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث ٠٤٦٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٥٢‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٨٤٧ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ ہو یا کمزوری ہو ‘ یا بیماری ہو یا فکر ہو یا پریشانی ہو یا تکلیف ہو یا غم ہو حتیٰ کہ اس کو کوئی کانٹا بھی چبھا ہو تو اسے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٦٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٣٧٥٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٦٦٩ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اس کو اللہ کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٤٦٥ )
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کسی کو شدید درد میں نہیں دیکھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٦٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٠٧٥٦‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٨٠٧‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٦١ )
حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ کی بیماری میں گیا۔ اس وقت آپ کو بہت تیز بخار تھا۔ میں نے کہا آپ کو تو بہت تیز بخار ہو رہا ہے اور بیشک آپ کو اس سے دوہرا اجر ملے گا۔ آپ نے فرمایا : ہاں مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہ اس طرح ساقط کردیتا ہے جس طرح درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث ٧٤٦٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٥٢‘ السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ٣٨٤٧ )
سو ان احادیث کی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ جس شخص کے اعضاء ظاہرہ کسی گناہ میں ملوث ہوجائیں اور اس کا دل اور ضمیر اس کو اس گناہ پر ملامت کرتا ہو تو اس کا نفس لوامہ ہے اور یہ توقع کی جانی چاہیے کہ اس پر جو مصائب اور آلام آئیں گے اور جو بیماریاں آئیں گی ان سے اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور جس شخص کا دل کسی برے کام یا گناہ کرنے کے بعد خوش ہو اور وہ اس پر اظہار مسرت اور فخر کرے اس کا نفس امارہ ہے ‘ اس کے گناہوں کی معافی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر نادم ہو اور توبہ کرے اور اپنے رب سے رو رو کر اور گڑ گڑا کر معافی مانگے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پچھلے تمام گناہوں کو معاف فرما دے ‘ اور ہماری آئندہ کی زندگی کو گناہوں سے محفوظ اور مامون رکھے (آمین) اور ہمارے نفس کو نفس مطمئنہ بنا دے۔
ان احادیث کا ذکر جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گناہ بھی اللہ کا مطلوب ہیں
قرآن مجید کی زیر تفسیر آیت میں شیطان کی عبادت اور اس کی اطاعت سے منع فرمایا ہے اور بندہ جس قدر بھی گناہ کرتا ہے وہ تمام گناہ شیطان کی اطاعت اور اتباع کے نتیجہ میں وجود میں آتے ہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ گناہوں سے اجتناب کرنا لازم ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت بھی اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو گناہوں کے ارتکاب سے روکیں اور ڈرائیں۔ اس پر یہ خلجان ہوتا ہے کہ بعض احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے گناہوں کا کرنا بھی مطلوب ہوتا ہے وہ احادیث یہ ہیں :
حضرت ابو ایوب (رض) پر جب موت کا وقت آیا تو انہوں نے کہا میں نے تم سے ایک ایسی حیث چھپالی تھی جس کو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا ‘ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ ضرور ایسی مخلوق کو پیدا کرے گا جو گناہ کرے گی تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا
(صحیح مسلم رقم الحدیث بلا تکرار : ٨٤٧٢‘ الرقم المسلسل : ٠٣٨٦‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩٣٥٣‘ مسند احمد ج ٥ ص ٤١٤‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٩٩٣‘ مجمع الزوائد ج ٠١ ص ٥١٢‘ کنزلعمال رقم الحدیث : ٧٦٣‘ جامع المسانید و السنین رقم الحدیث : ٧٤٦٠١‘ ٢٠٦٠١)
حضرت ابو ایوب انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم لوگوں کے گناہ نہ ہوں جن کو اللہ تمہارے تلئے بخش دے تو اللہ ایسی قوم کو پیدا کرے گا جن کے گناہ ہوں گے اور اللہ ان کو بخش دے گا۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث بلا تکرار : ٨٤٧٢‘ الرقم المسلسل : ١٣٨٦‘ مسند احمد ج ١ ص ٠٨٢‘ الترغیب ج ٥ ص ٩٢٢‘ کتاب الزہد لابن المبارک رقم الحدیث : ٠٧٣‘ کنزل العمال رقم الحدیث : ٣٢٢٠١‘ تارخ بغد ١ ج ٤ ص ٧١٢‘ الکامل لابن عدی ج ٧ ص ٢٦٦٢‘ اتحاف السادۃ المتقین ج ٩ ص ٤١٢۔ ٣٨١)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں لے جائے گا اور ایسی قوم کو لے آئے گا جو گناہ کرے گی ‘ پھر اللہ سے استغفار کرے گی تو اللہ ان کو بخش دے گا۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٤٧٢‘ الرقم المسلسل ٢٣٨٦‘ مسند احمد ج ٢ ص ٩٠٣‘ الترغیب و الترہیب ج ٤ ص ٩٩)
شارحین حدیث کی طرف سے احادیث مذکورہ کی توجیہ
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٤٤٥ ھ اس حدیث عی شرح میں لکھتے ہیں :
یہ اللہ تعالیٰ کے عظیم فضل اور اس کے بےحد کرم کا تقاضا ہے ‘ حضرت ابو ایوب نے اپنی زندگی میں اس حدیث کو اس لئے بیان نہیں کیا کہ ان کو یہ اندیشہ تھا کہ لوگ اس کے ظاہر پر اعتقاد کجرلیں گے اور ان پر بخشش کی امیدیں غالب ہوجائیں گی اور وہ نیک عمل کرنے کو ترک کردیں گے اور گناہوں پر دلیر ہوجائیں گے ‘ پھر موت سے پہلے وہ علم کو چھپانے کی وعیدوں سے ڈرے اور مرنے سے پہلے انہوں نے اس حدیث کو بیان کردیا تاکہ ان پر علم کو چھپانے کی گرفت نہ ہو۔ علاوہ ازیں یہ کہ اب چونکہ ان کی اپنی موت کا وقت آگیا تھا ‘ اس لئے ان کے دل میں بھی اپنی مغفرت کی شدید خواہش اور آرزو تھی اس لئے اس موقع پر مغفرت کے حصول کی طمع میں انہوں نے یہ حدیث بیان کی۔
اسی طرح مقررین ‘ خطباء اور واعظینھ پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ مغفرت کی نوید اور بخشش کی بشارت سے متعلق زیادہ احادیث نہ بیان کیا کریں تاکہ عام لوگ ان احادیث پر تکیہ کرکے نیک اعمال کو ترک نہ کردیں اور گناہوں میں ڈوب نہ جائیں اور ان کو چاہیے کہ وہ خطبات اور مواعظ میں گناہوں پر گرفت اور عذاب کی وعیدوں پر مشتمل آیات اور احادیث کو زیادہ بیان کیا کریں لیکن اس قدر زیادہ نہیں کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے ناامید اور مایوس ہوجائیں اور جو شخص کسی قریب المرگ شخص کے پاس جائے تو اس کا کلمہ پڑھنے کی تلقین کرنا اور اس کو اللہ تعالیٰ کے عفو و کرم کی آیات اور احادیث سنانا مستحب ہے ‘ اسی طرح جس شخص پر مرض کا غلبہ ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کے انعام و اکرام کی آیات اور احادیث سنانا مستحب ہے تاکہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے کی خوشی محسوس کرے اور اس کو یہ حسن ظن ہو کہ اس کی آخرت اچھی ہے۔(اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٨ ص ٨٤٢۔ ٧٤٢‘ دارالوفاء بیروت ٩١٤١ ھ)
علامہ محمد بن خلیفہ الوشتانی الابی المالکی المتوفی ٨٢٨ ھ قاضی عیاض کی اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
ابو سلیمان الدارانی پر جب موت کا وقت آیا تو میں نے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عفو و کرم کی احادیث سنائیں اور ان سے کہا گیا کہ اب تم بخشنے والے مہربان کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لئے آگے بڑھو تو انہوں نے کہا تم یوں نہیں کہتے کہ اس کے پاس جانے کی تیاری کرو۔ جو سخت سزا دینے والا ہے اور گناہ کبیرہ پر عذاب دیتا ہے اور گناہ صغیرہ پر گرفت فرماتا ہے۔ یہ ان کا حال ہے جن پر خوف خدا کا غلبہ ہو۔(اکمال اکمال المعلم ج ٩ ص ٨٥١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ٥١٤١ ھ)
علامہ شرف الدین حسین بن محمد الطیبی المتوفی ٣٤٧ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
س حدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ جو لوگ گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ان کو ان کے حال پر برقرار رکھا گیا ہے اور ان کی تحسین کی گئی ‘ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کو صرف اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو گناہوں سے روکیں ‘ بلکہ اس حدیث کا یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے جب بنے اپنے گناہوں پر توبہ کرتے ہیں تو وہ ان کو معاف فرما دیتا ہے ‘ نیز اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اجر وثواب دینے کو پسند فرماتا ہے اسی طرح وہ بدکاروں سے درگزر کرنے کو بھی پسند فرماتا ہے کیونکہ وہ غفار ‘ حلیم ‘ تواب اور عفو کرنے والا ہے اور اس نے ایسا نہیں کیا کہ تمام بندوں کو فرشتوں کی طرح گناہوں سے معصوم بنا دیتا ‘ بلکہ اس نے اپنے بندوں میں ایسے لوگ بھی پیدا کئے جو اپنی طبیعت سے گناہوں کی طرف مائل ہونے والے ہیں اور فتنوں میں مبتلا ہونخے والے ہیں ‘ پھر اس نے ان کو گناہوں سے اجتناب کرنے کا مکلف کیا اور ان کو گناہوں کی سزا سے ڈرایا اور ان کو یہ بتایا کہ اگر ان سے گناہ ہوجائے تو وہ اس پر توبہ کرلیں ‘ اگر وہ گناہوں سے بچے تو وہ ان کو اجر عطا فرمائے گا اور اگر ان سے کوئی لغزش ہوگئی تو پھر ان کے سامنے توبہ کا راستہ ہے ‘ اور اس حدیث سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ ہے کہ اگر تم فرشتوں کی جبلت اور ان کی فطرت پر ہوتے اور تم سے گناہوں کا صدور ممتنع ہوتا تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کردیتا جن سے گناہوں کا صدور ہوسکتا کیونکہ وہ غفار ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کی مغفرت کی جائے جیسے اس کے رازق ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو رزق دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ترجمہ (البقرہ : ٢٢٢ )… اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاکیزہ رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کی اس محبت کا ظہور اس وقت ہوگا جب توبہ کرنے والے ہوں۔
الکاشف عن حقائق السنن ج ٩ ص ٨٩‘ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ٣١٤١ ھ)
حسب ذیل احادیث میں بھی علامہ طیبی کی تقریر کی تائید ہے :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤١٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٠٧٧٢)
حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کے گناہ کرنے والے کی توبہ قبول فرمائے اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے گناہ کرنے والے کی توبہ قبول فرمائے حتیٰ کہ سورج مغرب سے طلوع ہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٥٧٦‘ السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ٥٤١٩)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کو اپنے بندہ کی توبہ کرنے سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے ‘ جتنی تم میں سے کسی ایک کو اس وقت خوشی ہوتی ہے جب جنگل کی زمین میں تمہاری اونٹنی بھاگ جائے جس پر تمہارے کھانے پینے کا سامان لدا ہوا ہو۔ وہ اس کے ملنے سے مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے میں سر رکھ کر سو جائے۔ وہ اسی مایوسی کی حالت میں ہو کہ اچانک وہ اونٹنی اس کے سامنے کھڑی ہوئی ہو۔ وہ اس کی مہار پکڑ کر خوشی کی شدت سے کہے : اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں ‘ خوشی کی شدت کی وجہ سے اس کے منہ سے الٹ بات نکل جائے۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٤٧٢‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٩٠٣٦‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٥٢٣١)
حدیث مذکور کی مصنف کی طرف سے توجیہ
میرے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندو کو بےحساب اور بیشمار نعمتیں عطا کی ہیں اور اگر انسان تسلسل کے ساتھ ساری عمر اس کا شکر ادا کرتا رہے اور بغیر انقطاع کے اس کی عبادت کرتا رہے ‘ تب بھی اس کی کسی ایک نعمت کا بھی شکر ادا نہیں ہوسکتا اور شکر ادا نہ کرنا بھی گناہ ہے۔ سو بندوں پر لازم ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے سامنے نادم اور شرم سار رہیں کہ وہ اس کا شکر ادا نہیں کرسکے اور اپنے آپ کو خطا کار اور گناہ گار سمجھتے رہیں اور حدیث میں جو ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو وہ ایسے بندوں کو پیدا کرے گا جو گناہ کریں گے اور توبہ کریں گے۔ اس کا معنی ہے اگر خود کو گناہ گار نہ سمجھو تو وہ ایسے بندوں کو پیدا کرے گا جو خود کو گناہ گار سمجھیں گے اور توبہ کریں گے اور وہ ان کی توبہ قبول کرکے ان کو معاف کردے گا اور اس توجیہ کے اعتبار سے اس حدیث پر کوئی اشکال نہیں ہے۔
شیطان اللہ کے نیک بندوں سے گناہ کرا کر بھی ناکام اور نامراد رہتا ہے
بعض علماء نے کہا ہے کہ شیطان جب اللہ کے کسی بندہ کے دل میں کسی گناہ کی ترغیب پیدا کرکے اس کو کسی گناہ میں مبتلا کردیتا ہے تو وہ بہت خوش ہوتا ہے کہ میں نے اس بندہ کو اللہ کے قرب کے راستہ سے دور کردیا لیکن درحقیقت اس بندہ کی لغزش اس کے درجات کی بلندی اور اللہ کے مزید قرب کا سبب بن جاتی ہے کیونکہ اس گناہ کی وجہ سے وہ بندہ غمگین ہوتا ہے اور اگر اس سے پہلے وہ اپنی عبادتوں اور نیکیوں پر خوش تھا اور اپنی اطاعت اور ریاضت پر نازاں تھا تو اپنی نیکیوں پر ناز اس کے دل سے نکل جاتا ہے اور ندامت اور پچھتاوے سے اس کا خوشی سے اٹھا ہوا سر جھک جاتا ہے ‘ اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے وہ اشک ندامت بہاتا ہے اور بےاختیار صدق دل سے توبہ کرتا ہے اور اپنے آپ کو خطا کار اور مجرم قرار دیتا ہے ‘ سو جب وہ گناہ کرنے کے بعد نادم ہوتا ہے اور اپنے گناہ پر توبہ کرتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ترجمہ (البقرہ : ٢٢٢ )… بیشک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
اور یوں اللہ کے نیک بندوں سے شیطان گناہ کرانے کے بعد بھی ناکام اور ذلیل و خوار ہوتا ہے کیونکہ گناہ سرزد ہونے کے بعد وہ اس گناہ پر بہت زیادہ توبہ اور استغفار کرتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اپنی اس لغزش کی وجہ سے ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ٹوٹے ہوئے دلوں کے قریب ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے ‘ مالک بن دینار روایت کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا :
اے رب ! میں تجھے کہاں تلاش کروں ؟ فرمایا مجھے ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس تلاش کرو۔
(حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٣١٤‘ رقم الحدیث : ٧٧٧٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ٨١٤١ ھ ‘ احیاء العلوم ج ٢ ص ٧٨١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ٩١٤١ ھ ‘ علامہ زبیدی متوفی ٤٠٢١ ھ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کا مرفوع ہونا ائمہ حدیث کے نزدیک ثابت نہیں ہے اور شاید کہ یہ حدیث اسرائیلیات سے ہے ‘ اتحاف السادۃ المتقین ج ٦ ص ٠٩٢‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٤١٤١ ھ)
اور یوں اللہ کے نیک بندوں سے شیطان جب کسی گناہ کو صادر کرا لیتا ہے تو یہ سوچ کر ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے کہ لوگ ان کو کس قدر نیک گمان کرتے ہیں اور وہ یہ گناہ کر بیٹھے ہیں اور ان کی جلوت اور خلوت میں کس قدر تضاد ہے اور وہ بےاختیار یہ شعر پڑھتے ہیں :
واعضاں کیں جلوہ بر محراب و منبر مے کنند چوں بہ خلوت مے رسند آں کاریگر مے کنند
اور جن آیات اور احادیث میں گناہوں پر وعیدیں آئی ہیں ان کو یاد کرکے خوف خدا سے روتے ہیں اور اپنے معتقدین کے سامنے سر اٹھا کر چلنے سے گریز کرتے ہیں۔ سو ان کے دلوں کا ٹوٹنا اور ارتکاب معصیت پر ان کا رنج اور افسوس کرنا ان کے درجات میں اور زیادہ بلندی کا باعث ہوتا ہے اور شیطان ان سے گناہ کا صدور کرا کر بھی خائب و خاسر اور ناکام اور نامراد رہتا ہے اور ایسے لوگ ان آیات کے مصداق ہیں :
ترجمہ (الانفال : ٢)… ایمان والے ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوف زدہ ہوتے ہیں۔
ترجمہ (الانفال : ٤)… یہی سچے ایمان والے ہیں ‘ ان کے رب کے پاس ان کے بلند درجات ہیں اور مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔
انبیاء (علیہم السلام) کا ملائکہ سے افضل ہونا
اور غالباً اسی مرتبہ کو عطا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) سے بطریق نسیان یا بطرین اجتہادی خطاء کوئی ظاہری خطا صادر کرا دیتا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اشک ندامت بہائیں ‘ توبہ اور استغفار کریں اور تواضع و انکسار کے کلمات کہیں جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) نے بھولے سے شجر ممنوعہ سے کھالیا تو کہا :
ترجمہ (الاعراف : ٣٢) … اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک قبطی کو تادیباً گھونسا مارا اور وہ مرگیا تو کہا :
ترجمہ (القصص : ٦١ )… اے میرے رب ! بیشک میں نے اپنی جان پر زیادتی کی ‘ سو تو مجھے معاف فرما دے تو اللہ نے انہیں معاف فرما دیا ‘ بیشک وہی بہت معاف فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
حضرت یونس (علیہ السلام) اپنے اجتہاد سے بغیر اذن مخصوص کے اپنی قوم کے پاس چلے گئے تو کہا :
ترجمہ (الانبیا : ٧٨۔ ٨٨)… انہوں نے گمان کیا کہ ہم ان پر ہرگز تنگی نہیں کریں گے ‘ پھر انہوں نے تاریکیوں میں پکارا کہ (اے اللہ ! ) تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے تو پاک ہے بیشک میں زیادتی کرنے والوں میں سے تھا سو ہم نے ان کی فریاد سن لی اور انہیں غم سے نجات دے دی اور ہم اسی طرح ایمان والوں کو نجات دیں گے۔
انبیاء (علیہم السلام) نے اپنے زہد وتقویٰ اور عبادت و ریاضت پر اپنی تحسین اور خودستائی نہیں فرمائی اور نہ کبھی اللہ کے سامنے اپنے علم کا اظہار کیا بلکہ یہی کہا :
ترجمہ (المائدہ : ٩٠١)… ہمیں کسی چیز کا علم نہیں ‘ بیشک تو ہی تمام غیوب کا جاننے والا ہے۔
اس کے برخلاف فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے علم کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ سے کہا :
۔ ترجمہ (البقرہ : ٠٣) … کیا تو زمین میں اس کو پیدا کرے گا جو زمین میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا۔
نیز فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے تقویٰ اور طہارت کا ذکر کیا اور خود ستائی کی :
ترجمہ (البقرہ : ٠٣) اور ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔
اور انبیاء (علیہم السلام) نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے علم کا اظہار کیا نہ اپنی عبادت اور ریاضت کا ذکر کیا۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کا نسیان اور اجتہاد سے ظاہری خطائیں کرنا اس لئے تھا کہ وہ استغفار کریں ‘ تواضع اور انکسار کریں اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت کو حاصل کریں اور اپنی امتوں کو توبہ اور استغفار کی تعلیم دیں اور ان کی امتوں کو استغفار کرنے میں اسوہ اور نمونہ فراہم ہو اور ان کی اقتداء کا شرف حاصل ہو اور یہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ادب اور عجز کے باب میں انبیاء (علیہم السلام) کا مقام فرشتوں سے بہت اونچا ہے۔
شیطان کی انسانوں سے دشمنی کے اثرات اور ان سے محفوظ رہنے کا طریقہ
اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان کو شیطان کی عبادت اور اس کی اطاعت کرنے سے منع فرمایا ‘ اس کے بعد اس کی وجہ بیان فرمائی کہ بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
شیطان نے انسان سے جو دشمنی رکھی اس کی ابتداء اس وقت ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ حضرت آدم کو سجدہ کرے اور حضرت آدم کو فرشتوں سے زیادہ علم عطا فرمایا۔ ان کو مسجود ملائک بنایا اور اپنا نائب اور خلیفہ بنایا اور عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب باپ اپنے بیٹوں میں سے کسی ایک بیٹے کو یا جب استاد اپنے شاگردوں میں سے کسی ایک شاگرد کو زیادہ اہمیت اور خصوصیت عطا کرے تو باقی بیٹے اور شاگرد اس بیٹے اور شاگرد سے دشمنی رکھتے ہیں اور ایسے لوگ درحقیقت شیطان کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں۔
شیطان نے انسان کے ساتھ اپنی کھلی ہوئی دشمنی کا اظہار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے کہا :
ترجمہ (الاعراف : ٧١۔ ٦١) … چونکہ تو نے مجھے گمراہ کردیا ہے اس لئے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ضرور ان کے لئے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا پھر میں ضرور ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں جانب اور بائیں جانب سے ان پر حملہ کروں گا اور تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکرگزار نہیں پائے گا۔
ترجمہ (بنی اسرائیل : ٢٦ )… شیطان نے کہا اچھا دیکھ لیجو ! یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے اگر تو نے مجھ کو قیامت تک کی مہت دے دی تو میں اس کی اولاد میں سے چند لوگوں کے سوا سب کو (رشد و ہدایت کی) جڑ سے اکھاڑ دوں گا۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو خصوصاً مسلمانوں کو یہ بتادیا کہ شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے تو چاہیے تھا کہ انسان ایسے کام نہ کرتا جن سے شیطان راضی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان ناجائز قتل کرتے ہیں ‘ زنا کرتے ہیں ‘ شراب پیتے ہیں ‘ سود کھاتے ہیں اور بہ کثرت کاموں میں شیطان کی موافقت اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہیں ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں قوت غضبیہ رکھی ہے ‘ تاکہ اس قوت سے کفار کے خلاف جہاد کیا جائے اور قوت شہوانیہ رکھی ہے تاکہ انسان نکاح کرے اور اولاد صالحہ کے حصول کی کوشش کرے اور شیطان انسان کے دل و دماغ میں وسوسے ڈال کر انسان کو اس پر اکساتا ہے کہ وہ قوت غضبیہ سے کام لے کر اپنے دنیاوی مخالفوں سے انتقام لے اور خوبصورت عورتوں اور بےریش حسین لڑکوں کی محبت میں مبتلا کرکے انسان کو اس پر اکساتا ہے کہ وہ قوت شہوانیہ سے کام لے کر ان کے ساتھ اپنی ناجائز خواہش کو پورا کرے۔ اسی طرح انسان میں قوت ذائقہ رکھی ہے کہ وہ حلال اور جائز چیزیں کھا کر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے اور شیطان اس کو شراب اور دیگر حرام چیزوں کی لذت کی طرف راغب کرتا ہے اور انسان میں مال کی طرف میلان پیدا کیا ہے تاکہ وہ جائز ذرائع سے مال کما کر اپنی ضروریات کو پورا کرے اور شیطان اس کو اس پر اکساتا ہے کہ ناجائز ذرائع سے مال کمانے میں زیادہ سہولت اور آسانی ہے اور زیادہ مقدار میں مال حاصل ہوتا ہے اس لئے انسان سود کے ذریعہ اور نقلی اور جعلی اشیاء کی فروخت کے ذریعہ زیادہ مال حاصل کرتا ہے۔ سو جس انسان میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کا غلبہ نہ ہو یا اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خوف نہ ہو وہ شیطان کی ترغیبات اور اس کے بہانے کے دام میں بہت جلد پھنس جاتا ہے اور جس کا ایمان قوی ہو اس پر شیطان کے بہکانے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جو شخص زکام ‘ کھانسی اور نمونیہ میں مبتلا ہو۔ اس کو ڈاکٹر ٹھنڈی اور کھٹی چیزوں کے کھانے سے منع کرتا ہے اس کے سامنے ٹھنڈی اور کھٹی چیزیں کھائی جائیں تو اس کے نادان دوست اس کو ان چیزوں کے کھانے اور بد پرہیزی کرنے پر اکسائیں تو اگر اس کو ڈاکٹر پر کامل اعتماد ہو اور بد پرہیزی کے عواقب اور نتائج پر پوری بصیرت ہو تو وہ ان نادان دوستوں کے کہنے میں نہیں آئے گا اور اگر اس کو ڈاکٹر پر اعتماد نہ ہو اور زبان کے چٹخارے اور لذت کا حصول اس پر غالب آجائے تو وہ بد پرہیزی کرے گا اور اپنی صحت کو تباہ کرلے گا۔ اسی طرح شوگر کے مریض کو میٹھی اور نشاستہ والی چیزوں سے پرہیز کی تاکید کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اگر آپ نے بد پرہیزی کی تو آپ کی بینائی متاثر ہوجائے گی۔ آپ کے گردے فیل ہوجائیں گے۔ آپ کو انجائنا ہوجائے گا۔ جسم کے اندر ناسور ہوجائے گا اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض سے کہا جاتا ہے اگر آپ نے باقاعدگی سے دوا نہ لی اور نمکیات سے پرہیز نہ کیا تو آپ کو فالج ہوجائے گا یا آپ کے دماغ کی رگ پھٹ جائے گی لیکن جس کو ڈاکٹر کی نصیحت پر اعتماد نہ ہو یا اس کو منع کی ہوئی چیزوں کے کھانے کا غالب شوق ہو وہ باقاعدگی سے دوا نہیں لیتا اور بد پرہیزی کرتا ہے ‘ انجام کار اس کے گردے فیل ہوجاتے ہیں اس کی بینائی چلی جاتی ہے ‘ اس کے دل کی شریانیں بند ہوجاتی ہیں یا اس کو فالج ہوجاتا ہے یا اس کے دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے ‘ بس اسی طرح انسان کو نصیحت کی جاتیش ہے کہ وہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام پر عمل کرے اور شیطان کی ترغیبات پر عمل نہ کرے لیکن جس کا میان کمزور ہوتا ہے اور اس پر نفسانی خواہشوں کا غلبہ ہوتا ہے وہ اللہ اور رسول کی اطاعت نہیں کرتا اور شیطان کی ترغیبات پر عمل کرتا ہے اور اخروی عذاب کا مستحق بن جاتا ہے اور جس کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور وہ نفسانی خواہشوں پر ضبط کرسکتا ہے تو وہ اللہ اور رسول کے احکام پر عمل کرتا ہے اور شیطان کی موافقت نہیں کرتا۔
القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 60