أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَـنَّةِ الۡيَوۡمَ فِىۡ شُغُلٍ فٰكِهُوۡنَ‌ۚ ۞

ترجمہ:

بیشک اہل جنت آج دلچسپ مشغلوں میں خوش و خرم ہوں گے

شغل اور فاکھون کے معانی اور ان کی تفسیریں

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیشک اہل جنت آج دلچسپ مشغلوں میں خوش و خرم ہوں گے (یٰسٓ: ٨٥۔ ٥٥ )

اس سے پہلے یٰسٓ: 52 میں کفار کی حسرت اور افسوس کا ذکر فرمایا تھا اور اس آیت میں مسلمانوں کے جنت میں خوش و خرم ہونے کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ مسلمانوں کا جنب میں ہونا اور ان کا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہونا کفار کے لئے مزید رنج و غم اور حسرت اور افسوس کا باعث ہے کیونکہ جب کسی شخص کو اپنے دشمنوں کی ان راحتوں اور مسرتوں کا علم ہو جن سے وہ خود محروم ہو تو یہ چیز اس کے لئے زیادہ افسوس اور مایوسی کا موجب ہوتی ہے۔

اس آیت میں شغل کا لفظ ہے۔ شغل کی تعریف یہ ہے کہ کوئی ایسا اہم کام جس میں غیر معمولی مصروفیت کی وجہ سے آدمی دوسری چیزوں سے غافل ہوجائے ‘ خواہ وہ اہم کام پر مسرت ہو یا رنج اور غم والا ہو یا از قبیل عبادت ہو ‘ مثلاً کسی شخص کے ماں باپ مرجائیں تو وہ ان کی تجہیز و تکفین اور ان کے رنج اور غم میں اس قدر منہمک ہوتا ہے کہ دوسری چیزوں سے غافل ہوجاتا ہے یا کسی شخص کی شادی ہو رہی ہو تو وہ شادی کی تیاری میں اس قدر مصروف ہوتا ہے کہ باقی کاموں کی طرف اس کی توجہ نہیں رہتی یا جس طرح جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے مشاہدہ اور مطالعہ میں مستغرق اور منہمک ہوتے یا اس کی عبادت میں اور یاد میں مشغول ہوتے تو کسی چیز کی طرف آپ کی توجہ نہیں ہوتی تھی جیسا کہ اس حدیث میں ہے :

ترجمہ… میرا اللہ کے ساتھ ایک ایسا خاص وقت ہوتا ہے جس میں کسی مغرب فرشتے کی گنجائش ہوتی ہے نہ کسی نبی مرسل کی۔

(الاسرار المرفوعۃ رقم الحدیث : ٤٦٧‘ کشف الخفاء رقم الحدیث : ٩٥١٢)

نیز اس آیت میں فاکھون کا فلظ ہے۔ علامہ راغب اصفہانی متوفی ٢٠٥ ھ فاکھون کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہر قسم کے میوے اور پھل کو فاکھۃ کہتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ انگور اور انار کے ماسوا کو فاکھۃ کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے :

ترجمہ (الواقعہ ٥٦ )… اگر ہم چاہیں تو اس (کھیت) کو ریزہ ریزہ کر ڈالیں پھر تم باتیں بناتے ہی رہ جائو۔

عیش و آرام اور نعمتوں سے بہرہ اندوز ہونے والے کو بھی فاکہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

ترجمہ : (الطور : ٨١)… وہ ان نعمتوں اور اس عیش و آرام پر خوش ہیں جو ان کو ان کے رب نے عطا فرمایا ہے۔

زیر تفسیر آیت میں بھی فاکھون اسی معنی میں ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٧٩٤‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ٧١٤١ ھ)

علامہ ابوالحسن علی بن محمد المادردی المتوفی ٠٥٤ ھ نے لکھا ہے شغل کی تفسیر میں چار قول ہیں :

(١)… حسن ‘ سعید بن جبیر ‘ حضرت ابن مسعود اور قتادہ نے کہا ‘ اس سے مراد ہے پاکیزہ حوروں سے لذت مباشرت حاصل کرنا۔

(٢)…حضرت ابن عباس (رض) اور مسافع بن ابی شریح نے کہا اس سے مراد ہے الات موسیقی بجانا۔

(٣)… مجاہد نے کہا اس سے مراد ہے وہ نعمتوں سے محظوظ ہو رہے ہوں گے۔

(٤ ا)… اسماعیل بن ابی خالد اور ابان بن تغلب نے کہا وہ کفار کو دوزخ میں ڈالنے سے خوش ہو رہے ہوں گے۔

علامہ الماوردی نے کہا کہ فاکھون کی تفسیر میں بھی چار قول ہیں :

(١) حضرت ابن عباس نے فرمایا ‘ اس سے مراد ہے وہ خوص ہوں گے۔ (٣) قتادہ نے کہا اس سے مراد ہے وہ نعمتوں میں ہوں گے (٢) مجاہد نے کہا وہ متعجب ہوں گے۔ (٤) ایک قول یہ ہے کہ وہ کھانے پینے کی لذتوں میں ہوں گے۔

(النکت والعیون ج ٤ ص ٥٢۔ ٤٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)

جنت کی نعمتوں سے اہل جنت کے محظوظ ہونے کے متعلق احادیث

اہل جنت کی نعمتوں کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل جنت میں سے ایک مرد کو کھانے ‘ پینے ‘ جماع اور شہوت میں سو مردوں کی قوت دی جائے گی۔ ایک یہودی نے کہا جو شخص کھائے گا اور پئے گا اس کو رفع حاجت کی ضرورت بھی ہوگی۔ آپ نے فرمایا ‘ اس کی کھال سے پسینہ بہے گا جس سے اس کا پیٹ سکڑ جائے گا۔(سنن داری رقم الحدیث : ٧٢٨٢‘ مسند احمد ج ٤ ص ١٨٣۔ ٧٦٣‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣١ ص ٩٠١۔ ٨٠١‘ السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ٨٧٤١١‘ مسند البزار رقم الحدیث : ٣٢٥٣۔ ٢٢٥٣‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٤٠٠٥‘ حلیۃ الاولیاء ج ٨ ص ٦١١‘ کتاب البعث و النشور للہیقی رقم الحدیث : ٧١٣)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل جنت جو ان بےریش اور سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے ‘ اس کے کپڑے میلے ہوں گے اور نہ ان کی جوانی فنا ہوگی۔(سنن داری رقم الحدیث ٨٢٨٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ٩٣٥٢‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣٤٣‘ ٥٩٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣١ ص ٤١١‘ کتاب البعث و النشور رقم الحدیث : ٠٢٤‘ الکامل لابن عدی ج ٥ ص ٢٤٨١ قدیم ‘ انجم الکبیر ج ٠٢ ص ٤٦‘ رقم الحدیث : ٨١١)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل جنت نہ پیشاب کریں گے نہ ان کی ناک سے رینٹ نکلے گی ‘ نہ وہ پاخانہ کریں گے ‘ ان کو صرف ایک ڈکار آئے گی اور جس طرح ان میں سان ڈالا جاتا ہے اس طرح ان کو تسبیح اور حمد کا الہام کیا جائے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث ٥٣٨٢‘ مسند احمد ج ٣ ص ٤٨٣۔ ٩٤٣‘ سنن داری رقم الحدیث ٩٢٨٢‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٦٠٩١‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث ٥٣٤٧‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٥٧٣٤‘ کتاب البعث و النشور رقم الحدیث : ٦١٣)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کی ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کا خیال آیا ہے اور اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو :

ترجمہ (السجدۃ : ٧١)…سو کئی شخص نہیں جانتا کہ ہم نے ان کی گزآنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا نعمتیں چھپا کر رکھی ہیں جو ان کے نیک اعمال کی جزاء ہیں۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠٨٧٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٢٨٢‘ سنن داری رقم الحدیث : ٠٣٨٢)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک ایک (جنتی) شخص ستر (٠٧) کنواری حوروں سے ایک دن میں لذت مباشرت حاصل کرے گا اور اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ کنواری حوریں بنا دے گا۔(مسند البزار رقم الحدیث : ٧٢٤٣‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٩٤٢‘ کنزالعمال ج ٤١ ص ٣٨٤‘ رقم الحدیث ٧٤٣٩٣)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! جس طرح ہم اپنی ازواج کے ساتھ دنیا میں مباشرت کرتے ہیں آیا ہم جنت میں بھی اپنی ازواج کے ساتھ اس طرح مباشرت کریں گے ؟ آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے۔ ایک شخص ایک دن میں سو کنواری حوروں کے ساتھ جماع کرے گا۔ (مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٦٣٤٢‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ٦٤٧٨١)

حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا ‘ آیا اہل جنت مباشرت کریں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! وہ بغیر شہوت میں کمی یا ڈھیلے پن کے یہ عمل کریں گے اور ایک روایت میں ہے اور بغیر انزال کے۔

(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٢٧٧‘ ٤٧٦٧‘ ٩٧٤٧ )

جنت میں حوروں اور نیک خواتین کی صفات کے متعلق احادیث

حضرت سعید بن عامر بن حدیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ‘ اگر جنت کی حوروں میں سے کوئی حور زمین والوں کی طرف جھانک کر دیکھے تو تمام روئے زمین مشک کی خوشبو سے بھر جائے اور سورج اور چاند کی روشنی ماند پڑجائے۔

(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢١٥٥‘ مسند البزار رقم الحدیث ٨٢٥٣‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ٤٥٧٨١)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متعلق بتایئے و حور عین (الواقعہ : ٢٢) اور ” بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ گورے رنگ کی بڑی آنکھوں والی فربہ حوریں ہیں جن کی پلکیں کرگس کے پروں کی طرح ہیں۔ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متعلق بتایئے ‘ کا نھن الیا قوت والمرجان (رحمن : ٨٥) ” وہ حوریں یاقوت اور مونگے کی طرح ہوں گی۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس طرح اس سیپ میں صاف اور چمکدار موتی ہوتا ہے جس کو کسی نے ہاتھ نہ لگایا ہو ‘ وہ اسی طرح صاف اور شفاف ہوں گی۔ میں نے عرض کیا : یام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متعلق بتایئے : فیھن خیرت حسان (رحمٰن ٠٧) ” ان جنتوں میں نیک ‘ حسین حوریں ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کے عمدہ اخلاق اور حسین چہرے ہوں گے۔ “ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متعلق بتایئے کا نھن بیض تکنون (الصفت : ٩٤) ” وہ حوریں ایسی ہیں جیسے چھپائے ہوئے انڈے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس طرح نرم اور رقیق ہوں گی جس طرح انڈے کی اندرونی جھلی رقیق اور باریک ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متعلق بتایئے عربا اترابا (الواقعہ : ٧٣) ” وہ حوریں محبت کرنے والی ہم عمر ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اس حال میں دنیا سے اٹھائے گا کہ وہ بوڑھی ہوچکی ہوں گی۔ ان کی آنکھیں چیپڑ زدہ ہوں گی اور ان کے بال کھچڑی ہوچکے ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو کنواری بنا دے گا۔ عربا کے معنی ہے محبت کرنے والیاں اور اتربا کے معنی ہیں ہم عمر۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا کی عورتیں افضل ہیں یا بڑی آنکھوں والی حوریں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ دنیا کی عورتیں بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس طرح افضل ہیں جس طرح جسم کا ظاہر جسم کے باطن سے افضل ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے لئے نمازیں پڑھیں اور اللہ کے لئے روزے رکھے۔ اللہ عز و جل ان کے چہروں پر نور پہنا دے گا اور ان کے اجسام ریشم کی طرح ہوں گے۔ ان کا رنگ گورا ہوگا ان کے کپڑے سبز رنگ کے ہوں گے ان کے زیورات سونے کے ہوں گے۔ ان کی خوشبو کی انگیٹھیاں موتیوں کی ہوں گی اور ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ وہ کہیں گی سنو ! ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں اور ہم کبھی نہیں مریں گی۔ سنو ! ہم ہمیشہ نعمتوں سے مالا مال رہیں گی اور ہم کبھی غم زدہ یا خوف زدہ نہیں ہوں گی۔ سنو ! ہم ہمیشہ یہاں پر قیام کریں گی اور کبھی یہاں سے سفر نہیں کریں گی۔ سنو ! ہم ہمیشہ راضی رہیں گی اور کبھی ناراض نہیں ہوں گی۔ اس کو خوشی اور مبارک ہو ‘ جس کے حصہ میں ہم آئیں گی اور وہ ہمارے لئے ہوگا ! (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٥٦١٣‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ٥٥٧٨١)

جنت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار اور اس کی رضا کے متعلق احادیث

جنت اور اس کی تمام نعمتیں بہت عظیم ہیں حتیٰ کہ حدیث میں ہے :

حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنل میں ایک چابک کی جگہ بھی دنیا میں مافیہا سے بہتر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠٥٢٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ١٨٨١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٨١١٣)

تاہم جنت میں سب سے بڑی نعمت جو حاصل ہوگی وہ اللہ عز و جل کا دیدار اور اس کی رضا کا حصول ہوگا۔

حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا :

ترجمہ (یونس : ٦٢ )… جن لوگوں نے نیک کام کئے ہیں ان کے لئے نیک انجام اور زیادہ انعام ہے۔

آپ نے فرمایا ‘ جب اہل جنت ‘ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی ندا کرے گا۔ بیشک اللہ کے پاس تمہارے لئے ایک وعدہ ہے۔ وہ کہیں گے کیا ؟ ہمارا چہرہ سفید نہیں کیا گیا اور ہم کو دوزخ سے نجات نہیں دی گئی اور ہم کو جنت میں داخل نہیں کیا گیا ! وہ کہیں گے کیوں نہیں ! پھر (ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان) حجاب کو کھول دیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا : پس اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار سے زیادہ محبوب ان کو کوئی چیز عطا نہیں فرمائی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٥٢‘ مسند احمد ج ٤ ص ٢٣٣‘ ج ٦ ص ٥١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٧٨١‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث ٨٦٩٤‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث ١٤٤٧‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث ٥١٣٧۔ ٤١٣٧‘ کتاب البعث و النشور رقم الحدیث ٦٤٤‘ کتاب الاسماء و الصفات ص ٧٠٣‘ شرح السنہ رقم الحدیث ٣٩٣٤)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اہل جنت میں سے ادنیٰ درجہ اس شخص کا ہے جو ایک ہزار سال کی مسافت سے اپنے باغات کی طرف دیکھ رہا ہوگا اور اپنی ازواج کی طرف اور اپنی نعمت کی طرف اور اپنے خادموں کی طرف اور اپنی مسہریوں کی طرف اور اہل جنت میں سے جو اللہ کے نزدیک مکرم ہوگا وہ ہر صبح اور شام کو اللہ عز و جل کے چہرے کی طرف دیکھے گا ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو پڑھا :

ترجمہ (القیامۃ : ٣٢۔ ٢٢ )… اس دن بہت سے چہرے ترو تازہ ہوں گے وہ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث ٣٥٥٦‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣١۔ ٤٦‘ مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث ٢١٧٥‘ ٩٢٧٥‘ المستدرک ج ٢ ص ٩٠٥‘ حلیۃ الاولیاء ج ٥ ص ٧٨‘ کتاب البعث و النشور رقم الحدیث ٣٣٤۔ ٢٣٤‘ شرح السنہ رقم الحدیث ٦٩٣٤۔ ٥٩٣٤)

حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک رات ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے بدر (ماہ تمام ‘ چودھریں رات کا چاند) کی طرف دیکھا ‘ پھر آپ نے فرمایا بیشک تم اپنے رب کو عنقریب اس طرح دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ تم کو اس کو دیکھنے میں کوئی تنگی نہیں ہوگی۔ پس اگر تم طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے تماز پڑھنے کی طاقت رکھو تو ضرور ان نمازوں کو پڑھو ‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی :

ترجمہ (ق ٩٣)… طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث ٤٥٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٣٣٦‘ سنن ابودائود رقم الحدیث ٩٢٧٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ٢٩٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٧٧١‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث ٠٦٤‘ مسند احمد ج ٤ ص ٠٦٣‘ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث ٧١٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث ٢٤٤٧‘ المعجم الکربیر رقم الحدیث ٤٢٢٢‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث ٣٥٠٨‘ شرح السنہ رقم الحدیث ٨٧٣)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا : اے اہل جنت ! وہ کہیں گے ہم تیرے پاس حاضر ہیں اور تیری اطاعت پر کمر بستہ ہیں اور تمام خیر تیرے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ‘ کیا تم راضی ہوگئے ؟ وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہمارے راضی نہ ہونے کی کیا وجہ ہوگی تو نے ہمیں وہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں عطا کیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ‘ کیا میں تم کو اس سے بھی افضل نعمت عطا نہ کروں ! وہ کہیں گے ‘ اے ہمارے رب ! اس سے افضل اور کون سی نعمت ہوگی ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تم پر اپنی رضا کو حلال کردیتا ہوں۔ اس کے بعد میں تم پر کبھی بھی ناراض نہیں ہوں گا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث ٩٤٥٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٩٢٨٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ٥٥٥٢‘ مسند احمد ج ٣ ص ٨٨‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث ٩٤٧٧‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث ٠٤٤٧‘ حلیۃ الاولیاء ج ٦ ص ٢٤٣‘ کتاب البعث و النشور رقم الحدیث ٥٤٤‘ شرح السنہ رقم الحدیث ٤٩٣٤)

حضرت انس رضی الہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ میرے پاس حضرت جبریل (علیہ السلام) آئے اور ان کے ہاتھ میں ایک شفیف آئینہ تھا ‘ جس میں ایک سیاہ نشان تھا۔ میں نے پوچھا اے جبریل یہ کیا آئینہ ہے ؟ انہوں نے کہا یہ جمعہ ہے ‘ جس کو آپ کا رب آپ پر پیش فرمائے گا تاکہ یہ دن آپ کے لئے عید ہوجائے اور آپ کے بعد آپ کی امت کے لئے اور آپ (اس دن کے ملنے میں) اول ہیں اور یہود اور نصاریٰ کے لئے اس کے بعد کا دن ہے۔ آپ نے پوچھا ہمارے لئے اس دن میں کیا ہے ؟ حضرت جبریل نے کہا آپ کے لئے اس دن میں خیر ہے۔ اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس ساعت میں جو شخص بھی اپنے رب سے کسی خیر کی دعا کرے جو اس کا مقسوم ہو تو اس کا رب اس کو وہ عطا فرما دے گا اور اگر وہ چیز اس کے مقسوم میں نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ عظیم چیز کو اس کے لئے مقدر فرما دے گا اور اگر اس نے کسی چیز سے پناہ طلب کی اور وہ اس کے مقدر میں ہو تو اللہ اس کو اس چیز سے پنا میں رکھے گا اور اگر اس سے پناہ اس کے مقدر میں نہ ہو تو اس سے زیادہ مضر چیز سے اس کو پناہ میں رکھے گا۔ میں نے ان سے پوچھا ‘ اس آئینہ میں یہ سیاہ نشان کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ قیامت ہے ‘ جو جمعہ کے دن قائم ہوگی اور ہمارے نزدیک جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے اور ہم آخرت میں اس کو یوم المزید کہتے ہیں (اس سے مراد ہے زیادہ انعام کا دن اور زیادہ انعام اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے) میں نے پوچھا آپ اس کو یوم المزید کیوں کہتے ہیں ! انہوں نے کہا کیونکہ آپ کے رب نے جنت میں ایک سفید وادی بنائی ہے جو مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ پس جب جمعہ کا دن ہوگا تو اللہ تبارک و تعالیٰ علیین سے اپنی کرسی پر نازل ہوگا حتیٰ کہ نور کے منبر کرسی کا احاطہ کرلیں گے اور انبیاء آ کر ان منبروں پر بیٹھ جائیں گے۔ پھر سونے کی کرسیاں ان منبروں کا احاطہ کرلیں گی۔ پھر صدیقین اور شہداء آ کر ان کرسیوں پر بیٹھ جائیں گے ‘ پھر اہل جنت آ کر ٹیلوں پر بیٹھ جائیں گے ‘ پھر ان کے سامنے ان کا رب تبارک و تعالیٰ جلوہ فرما ہوگا حتیٰ کہ وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھیں گے اور وہ فرمائے گا : میں وہ ہوں جس نے اپنے وعدہ کو سچا کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو مکمل کردیا اور یہ میری کرامت کی جگہ ہے۔ سو تم مجھ سے سوال کرو ‘ تو وہ اس سے اس کی رضا کا سوال کریں گے۔ پس اللہ عزوجل فرمائے گا ‘ میں نے تم پر اپنی رضا کو حلال کردیا اور میری کرامت تمہارے ہی لئے ہے۔ سو تم مجھ سے سوال کرو ‘ پھر وہ اس سے سوال کر تنے رہیں گے حتیٰ کہ ان کی رغبت ختم ہوجائے گی ‘ پھر ان کے لئے ایسی نعمتیں کھول دی جائیں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کا خیال آیا ہوگا۔ یہ مجلس اتنی دیر رہے گی جتنی دیر میں لوگ نماز جمعہ سے فارغ ہوتے ہیں ‘ پھر رب تبارک و تعالیٰ اپنی کرسی پر چڑھ جائے گا اور اس کے ساتھ شہداء اور صدیقین بھی چڑھ جائیں گے اور بالا خانے والے بالا خانوں میں چلے جائیں گے۔ (جنت میں) ایک سفید موتی ہے جس میں کوئی شگاف نہیں ہوگا ‘ یا سرخ یاقوت ہے یا سبز زمرد ہے ‘ اس میں بالا خانے اور ان کے دروازے ہوں گے۔ اس میں دریا ہوں گے۔ اس میں پھل لٹکے ہوئے ہوں گے اور اس میں ان کی بیویاں اور ان کے خادم ہوں گے تاہم جمعہ کے دن سے زیادہ کسی چیز کی احتیاج نہیں ہوگی تاکہ اس دن ان کو زیادہ کرامت حاصل ہو اور اس دن میں اللہ تعالیٰ کے چہرے کی طرف زیادہ نظر بھر کر دیکھیں اسی وجہ سے اس دن کا نام یوم المزید ہے۔ (مسند البزار رقم الحدیث ٣٥٥٣‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث ٣١٧٦‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث ٨٢٢٤‘ المطالب العالیہ رقم الحدیث ٩٧٥‘ حافظ الہیشمی نے کہا امام ابو یعلیٰ اور امام طبرانی کی سند صحیح ہے اور امام بزار کی سند میں اختلاف ہے ‘ مجمع الزوائد ج ٠١ ص ١٢٤ )

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب جنت والے ‘ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ عز و جل فرمائے گا : اے میرے بندو ! کیا تم مجھ سے کسی چیز کا سوال کرو گے تاکہ میں تم کو وہ چیز زیادہ دوں۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! تو نے ہم کو جو چیزیں عطا فرمائی ہیں ‘ ان میں سے کس چیز میں زیادہ خیر ہے ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری رضا بہت بڑی چیز ہے۔

(المعجم الاوسط ج ٠١ ص ١٢٠٩‘ دارالمعارف ریاض ‘ اس کی سند میں ایک راوی متروک ہے ‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث ٣٧٧٨١)

القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 55