أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ اَضَلَّ مِنۡكُمۡ جِبِلًّا كَثِيۡرًا‌ ؕ اَفَلَمۡ تَكُوۡنُوۡا تَعۡقِلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور بیشک اس نے تم میں سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا پس کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے تھے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بیشک اس نے تم میں سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ‘ پس کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے تھے یہ ہے وہ جہنم جس کی تمہیں وعید سنائی گئی تھی اس میں داخل ہو جائو ‘ کیونکہ تم کفر کرتے تھے ہم آج ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پائوں ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے (یٰسٓ : 65۔ 62)

جبل اور عقل کے معانی

اس آیت میں ایک لفظ ہے جیلاً ‘ اس کا معنی ہے خلق ‘ بڑی جماعت ‘ جبل کا معنی ہے پہاڑ اور چونکہ پہاڑ میں بڑائی اور اعظمت کا معنی ہے ‘ اس لئے بڑی جماعت کو جبل کہنے لگے ‘ یعنی ایسی بڑی جماعت جو اپنے بڑے ہونے میں پہاڑ کی مثل ہو۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

ترجمہ (یٰسٓ : ٢٦ )… اور بیشک شیطان نے تمہاری بہت بڑی جماعت کو گمراہ کردیا۔

نیز فرمایا :

ترجمہ (الشعراء ٤٨١)… اور اس سے ڈرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے بڑے بڑے گروہوں کو پیدا کیا۔

(المفردات ج ١ ص ٣١١‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ٨١٤١ ھ)

نیز اس آیت میں فرمایا : افلم تکونو التعقلون ‘ اور تعقلون کا لفظ عقل سے بنا ہے۔ عقل کی تعریف یہ ہے کہ : وہ قوت جو علم کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور انسان جس علم کو اس قوت سے حاصل کرے اس کو بھی عقل کہا جاتا ہے ‘ اسی لئے حضرت علی (رض) نے فرمایا : عقل کی دو قسمیں ہیں ‘ ایک وہ عقل ہے جو دماغ میں مرکز ہے اور ایک وہ عقل ہے جو سن کر حاصل ہوتی ہے اور جب تک دماغ میں عقل مرکوز نہ ہو اس وقت تک سنی ہوئی باتوں سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا ‘ جس طرح جب تک آنکھ میں روشنی نہ ہو ‘ سورج کی روشنی سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا ‘ عقل کے پہلے معنی کی طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل سے افضل کسی چیز کو پیدا نہیں کیا اور عقل کے دوسرے معنی کی طرف سے اس حدیث میں اشارہ ہے : انسان نے اس عقل سے افضل کسی چیز کو حاصل نہیں کیا جو اس کو کسی نیکی کی طرف رہنمائی کرے یا کسی برائی سے روک دے ‘ قرآن مجید میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

ترجمہ (العنکبوت : ٣٤)… علماء کے سوا قرآن مجید کی مثالوں کو کوئی نہیں سمجھتا۔

اس آیت میں عقل کا یہی دوسرا معنی مراد ہے ‘ اسی طرح قرآن مجید میں جہاں بھی کفار کے پاس عقل نہ ہونے کی مذمت کی ہے اس سے بھی عقل کا یہی دوسرا معنی مراد ہے نہ پہلا ‘ جیسا کہ اس آیت میں ہے :

ترجمہ (البقرہ : ١٧١)… وہ بہرے ہیں ‘ گونگے ہیں ‘ اندھے ہیں ‘ پس وہ نہیں سمجھتے۔

اور ہر وہ مقام جہاں عقل نہ ہونے کی وجہ سے بندوں کو مکلف نہیں کیا گیا وہاں عقل سے پہلے معنی کا ارادہ کیا گیا ہے اور عقل کا لغوی معنی ہے روکنا اور منع کرنا ‘ عقل کو عقل اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ بری باتوں سے روکتی ہے ‘ رسی کو بھی عقل کہتے ہیں اور رسی سے باندھنے کو بھی عقل کہتے ہیں ‘ مقتول کو دیت ادا کرنے والوں کو عاقلہ کہتے ہیں۔

(المفردات ج ٢ ص ٥٤٤۔ ٤٤٤‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ٨١٤١ ھ)

عقل کی تریفات اور اس کی اقسام

علامہ میر سید شریف علی بن محمد الجرجانی المتوفی ٦١٨ ھ نے عقل کی حسب ذیل تعریفات کی ہیں :

(١) عقل ایسا جوہر ہے جو اپنی ذات میں مادہ سے مجرد ہے اور اپنے فعل میں مادہ سے مقارن ہے۔ (٢) عقل وہ نفس ناطقہ ہے جس کو ہر شخص ” میں “ سے تعبیر کرتا ہے (٣) عقل ایک جوہر روحانی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بدن سے متعلق کرکے پیدا کیا ہے (٤) عقل دل میں ایک نور ہے جو حق اور باطل کی معرفت رکھتا ہے (٥) عقل ایسا جوہر ہے جو مادہ سے مجرد ہے اور بدن کے ساتھ متعلق ہے اور اس کی تدبیر اور اس میں تصرف کرتا ہے (٦) عقل نفس ناطقہ کی قوت ہے اور اس میں تصریح ہے کہ قوت عاقلہ نفس ناطقہ کی مغائر ہے اور تحقیق یہ ہے کہ فاعل نفس ہے اور عقل اس کا آلہ ہے ‘ جیسے کاٹنے والے کے ہاتھ میں چھری آلہ ہوتی ہے (٧) عقل ‘ نفس ‘ ذہن تینوں ایک چیز کے مختلف نام ہیں ‘ جس حیثیت سے وہ ادراک کرتی ہے اس کو عقل کہتے ہیں اور جس حیثیت سے وہ تصرف کرتی ہے اس کو نفس کہتے ہیں اور جس حیثیت سے وہ ادراک کی صلاحیت رکھتی ہے اس کو ذہن کہتے ہیں۔ جس چیز سے حقائق اشیاء کا ادراک کیا جائے اس کا محل سر ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا محل دل ہے۔

عقل کی چار قسمیں ہیں (١) عقل مستفاد : جس کے سامنے تمام معلومات نظریہ حاضر ہوں اور کوئی چیز غائب نہ ہو (یہ انبیاء (علیہم السلام) کی عقل ہے) (٢) عقل بالفعل : قوت عاقلہ میں تمام نظریات مخزون ہوں اور اس میں ان کے حصول کا ملکہ اور مہارت ہو۔

(٣) عقل بالمل کہ : اس کو بدیہیات حاصل ہوں اور اس میں نظریات کو حاصل کرنے کی صلاحیت ہو۔

(٤) عقل ہیولانی : اس میں معقولات کو حاصل کرنے کی صرف استعداد اور صلاحیت ہو اور یہ محض ایک قوت ہے جو فعل سے خالی ہو ‘ جیسے بچوں کی عقل ہوتی ہے۔ (کتاب التعریفات ص ٩٠١۔ ٨٠١‘ دارالفکر بیروت ٨١٤١ ھ)

انبیاء (علیہم السلام) کا کام صرف تبلیغ اور شیطان کا کام صرف تزیین ہے ‘ پیدا ہر چیز کو صرف اللہ تعالیٰ کرتا ہے

اس سے پہلے یہ فرمایا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا ‘ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا قصور صرف یہی ہے کہ وہ شیطان کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ ان کا قصور صرف یہی نہیں ہے ‘ بلکہ پچھلی امتوں کے احوال سے عبرت نہ پکڑنا اور ان پر عذاب کے آثار دیکھ کر بھی نصیحت حاصل نہ کرنا یہ بھی ان کا قصور ہے۔ اس آیت میں فرمایا ہے اس نے تم میں سے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے ‘ کسی شخص کو گمراہ کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس کو اس کے مقصد سے منحرف کردیا جائے ‘ اور انسان کا مقصد یہ ہے کہ وہ نیک کام کرے اور برے کام نہ کرے اور جب شیطان انسان کو حکم دیتا ہے کہ وہ عبادت نہ کرے اور ناجائز اور حرام کام کرے اور انسان اس کے حکم پر عمل کرلیتا ہے تو وہ گمراہ ہوجاتا ہے۔

اس آیت میں گمراہ کرنے کا اسناد شیطان کی طرف فرمایا ہے ‘ اسی طرح بعض آیات میں ہدایت دینے کی نسبت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کی گئی ہے لیکن درحقیقت انبیاء (علیہم السلام) صرف اللہ کا راستہ دکھاتے ہیں اور نیکی کی دعوت دیتے ہیں۔ ہدایت کو پیدا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ‘ اسی طرح شیطان صرف برے کام کا وسوسہ ڈالتا ہے اور برے کاموں کی دعوت دیتا ہے اور گمراہی کو پیدا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ‘ حدیث میں ہے :

حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں صرف (نیکی کی) دعوت دینے اور تبلیغ کرنے کے لئے مبعوث ہوائوں اور کسی بھی ہدایت کو پیدا کرنا میری طرف مفوض نہیں ہے اور شیطان کو صرف (برائی کو) مزین کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور کسی بھی گمراہی کو پیدا کرنا اس کی طرف مفوض نہیں ہے۔

(الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٤٩٠٢‘ کتاب الضعفاء للعقیلی ج ٢ ص ٩‘ الکامل لا بن عدی ج ٣ ص ١٧٤‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٤٥٩٩‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٥١٣‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٦٤٥‘ حافظ سیوطی نے الجامع الصغیر میں اس حدیث کی سند کے ضعف کی طرف رمز کی ہے)

نیز حافظ سیوطی اس حدیث کی سند کے متعلق لکھتے ہیں :

امام عقیلی متوفی ٢٢٣ ھ نے کہا ہے ‘ اس حدیث کی سند میں خالد ہے وہ نقل میں غیر معروف ہے اور اس کی حدیث غیر محفوظ ہے اور اس کی اصل معروف نہیں ہے اور امام ابن عدی متوفی ٥٦٣ ھ نے کہا یہ خالد خراسانی ہے اور یہ حدیث اس کی سماک سے مرسل روایت ہے ‘ (الکامل ج ٣ ص ٢٧٤) ح افظ سیوطی فرماتے ہیں ‘ خالد خراسانی سے امام ابو دائود اور امام نسائی نے احادیث روایت کی ہیں اور امام ابن معین نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے اور امام ابو حاتم نے کہا ان کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے اور اب اس حدیث کی سند پر اس کے سوا اور کوئی اعتراض نہیں ہے کہ یہ سند مرسل ہے۔ (اللسئالی المصعوعہ ج ١ ص ٣٣٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

میں کہتا ہوں کہ حدیث مرسل امام حنیفہ اور امام مالک کے نزدیک مطلقاً مقبول ہوتی ہے ‘ سو اس حدیث کا مرسل ہونا بھی ہمارے نزدیک کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔

عقل کے اجزاء اور حصص

اس کے بعد فرمایا : کیا پس تم عقل سے کام نہیں لیتے تھے ! عقل سے مراد ایسا نور ہے جس سے معنوی روشنی حاصل کی جاتی ہے ‘ اور یہاں مراد یہ ہے کہ جب تم مکہ سے باہر سفر کرتے ہو تو کیا تم پچھلی امتوں کے کافروں پر عذاب کے آثار کا مشاہدہ نہیں کرتے تاکہ تم اپنے کفر اور اپنی سرکشی سے باز آجائو۔

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ عز و جل نے عقل کو تقسیم کرکے اس کے تین حصے کئے ہیں ‘ پس جس شخص میں یہ تینوں حصے ہوں اس کی عقل کامل ہے اور جس شخص میں ان میں سے کوئی حصہ نہ ہو اس میں بالکل عقل نہیں ہے۔ ایک حصہ یہ ہے کہ اس کو اللہ عز و جل کی اچھی معرفت ہو اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ وہ اللہ عز و جل کی اچھی طرح اطاعت کرے اور تیرا حصہ یہ ہے کہ اللہ عز و جل کے احکام بجا لانے میں اس کو جو مشقت اٹھانی پڑی اس پر صبر کرے۔

(حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ١٢‘ دارالکتب العربی بیروت ‘ ٧٠٤١ ھ ‘ اتحاف ج ١ ص ٣٧٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت)

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ١١٩ ھ لکھتے ہیں اس کی سند میں سلیمان بن عیسیٰ بن بجیح السجزی ہے ‘ امام ابو حاتم نے کہا یہ کذاب ہے ‘ امام ابن عدی نے کہا یہ حدیث وضع کرتا تھا ‘ حاکم نے کہا اس کی اکثر احادیث منکر اور موضوع ہیں ‘ حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ امام عقیلی نے کہا اس کا کوئی متابع نہیں ہے ‘ امام ابن حبان نے اس کا ثقات میں ذکر کیا ہے۔(اللسئالی المصنوعہ ج ١ ص ٧١١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ٧١٤١ ھ)

پس جو شخص عقل سے کام نہ لے وہ مطلقاً گمراہ ہوجاتا ہے ‘ اس کی لگام شیطان کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ جدھر چاہتا ہے اسے کھینچتا پھرتا ہے اور اگر وہ اپنی عقل سے کام لے اور یہ جان لے کہ اس کی عبادت کا مستحق صرف اللہ عزوجل ہے اور وہی اس کا اور ساری کائنات کا مالک اور خالق ہے تو اللہ اس کو اپنے سایہ رحمت میں لے لیتا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 62