أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَوۡ نَشَآءُ لَـطَمَسۡنَا عَلٰٓى اَعۡيُنِهِمۡ فَاسۡتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى يُبۡصِرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اگر ہم چاہتے تو ان کی بصارت زائل کردیتے ‘ پھر وہ راستے کی طرف دوڑتے تو وہ کہاں دیکھ سکتے تھے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر ہم چاہتے تو ان کی بصارت کو زائل کردیتے پھر وہ راستہ کی طرف دوڑتے تو کہاں دیکھ سکتے تھے اور اگر ہم چاہتے تو ان کی جگہ پر ان کی صورتوں کو مسخ کردیتے تو پھر وہ نہ جاسکتے تھے نہ لوٹ سکتے تھے (یٰسٓ : ٧٦۔ ٦٦ )

طمس اور مسخ کا معنی

اس آیت میں لطمینا کا لفظ ہے ‘ اس کا مادہ طمس ہے ‘ طمس کا معنی ہے کسی چیز کو مٹا کر اس کا اثر زائل کردینا ‘ قرآن مجید میں ہے :

ترجمہ (المرسلات : ٨)… اور جب ستارے بےنور کردیئے جائیں گے۔

اور اس آیت میں فرمایا ہے :

ترجمہ (یٰسٓ : ٦٦ )… اس کا معنی ہے اور اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھوں کی صورت کو مٹا دیتے اور ان کی روشنی کو زائل کردیتے۔

(المفردات ج ٢ ص ٠٠٤‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ٨١٤١ ھ)

اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اگر ہم مشرکین مکہ کو دنیا میں سزا دینا چاہتے تو ہم ان کی آنکھوں کی جگہ کو سپاٹ اور ہموار بنا دیتے اور اس میں آنکھوں کے ڈھیلوں کے رکھنے کی جگہ ختم کردیتے یا ان کی بصارت کو بالکل سلب کرلیتے پھر وہ کسی جگہ جانے کے لئے ادھر ادھر جاتے ‘ دوڑتے اور بھاگتے اور انہیں کچھ نظر نہ آتا اور جس طرح ان کے دل بےنور اور بےبصیرت ہیں اسی طرح ہم ان کی آنکھوں کو بھی بےنور اور بےبصارت بنا دیتے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 66