أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَّاَنِ اعۡبُدُوۡنِىۡ ؔ‌ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اور یہ کہ تم میری (ہی) عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے

اللہ تعالیٰ کی عبادت اور سیدھے راستہ کے معانی اور مطالب

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور یہ کہ تم میری (ہی) عبادت کرنا ‘ یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یٰسٓ: ١٦)

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کی عبادت سے منع فرمایا تھا اور اس آیت میں اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے اور جب کوئی ماہر ڈاکٹر کسی مریض کو پرہیز کرنے کا حکم دیتا ہے تو پھر پرہیز کے ساتھ اس کو باقاعدگی سے دوا استعمال کرنے کا حکم دیتا ہے۔ سو اسی طرح پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو شیطان کی عبادت کرنے سے پرہیز کرنے کا حکم دیا اور پھر اس کے ساتھ اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا اور پہلے شیطان کی عبادت سے منع فرمایا اور پھر اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا کیونکہ پہلے رزائل سے خیالی ہونا چاہیے پھر فضائل سے آراستہ ہونا چاہیے ‘ پھر شیطان کی عبادت سے متنفر کرنے کے لئے فرمایا تھا کہ وہ تمہارا دشمن ہے تو بظاہر رحمٰن کی اطاعت پر راغب کرنے کے لئے کہنا چاہیے تھا کہ وہ تمہارا دوست ہے یا تمہارا محب ہے ‘ لیکن اس طرح نہیں فرمایا کیونکہ عام طور پر انسان اپنے دوستوں اور محبین کی اطاعت یا عبادت نہیں کرتا ‘ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ یہی سیدھا راستہ ہے یعنی اگر اس راستہ پر چلو گے تو ہدایت پالو گے اور اگر اس راستہ کو چھوڑ کر کسی اور راستہ پر چلو گے تو گمراہ ہو جائو گے اور گمراہی کے راستہ پر چلنا حرام ہے تو سیدھے راستے پر چلنا واجب قرار پایا۔

سیدھا راستہ فرمانے میں یہ بھی اشارہ ہے کہ انسان اس دنیا میں مسافر ہے ‘ اس نے یہاں ہمیشہ نہیں رہنا ‘ یہ دنیا منزل نہیں ہے راستہ ہے ‘ یہاں سے گزر کر آخرت کی طرف جانا ہے ‘ سو اس دنیا کے ساتھ دل نہ لگایا جائے اور یہاں رہتے ہوئے ایسے انتظامات نہ کئے جائیں جیسے یہی منزل مقصود ہو اور منزل تک پہنچنے کے لئے اس راستہ کو اختیار کرٓا چاہیے جو راستہ سیدھا ہو ‘ پرخطر اور ٹیڑھا نہ ہو اور وہ راستہ یہی ہے کہ اللہ عز و جل کے احکام کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔

اللہ تعالیٰ نے شیطان کی عبادت کرنے سے منع فرمایا اور اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا اور عبادت کا معنی ہے کہ کسی کے سامنے غایت تذلل کرنا اور اس کے سامنے تکبر نہ کرنا اور بڑا نہ بننا۔ پس شیطان کی عبادت سے منع کرنے کا معنی یہ ہے کہ انسان شیطان کے سامنے تذلل نہ کرے بلکہ اس کے سامنے تکبر کرے اور اللہ کی عبادت کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے سامنے ذلت اور انکسار کے ساتھ رہے اور اللہ کے ماسوا سے تکبر کرے اور اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کے ماسوا سے بہتر جانے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے ماسوا میں سے کسی کی اطاعت نہ کرے اور چونکہ اس کا نفس بھی اللہ کے ماسوا میں داخل ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں اپنے نفس کا بھی حکم نہ مانے اور اس کی خواہش کے آگے بھی سر نہ جھکائے۔ اسی طرح امرائ ‘ حکام اور دیگر لوگوں کے احکام جب اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہوں تو ان کی اطاعت بھی نہ کرے ‘ تب ہی یہ معنی صادق ہوگا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے اور اس کے حکم کے خلاف اور کسی کی اطاعت نہیں کرتا۔

اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے محبت کرے۔ اس سے جو عہد کئے ہیں ان کو پورا کرے اور اس کی حدود کی حفاظت کرے۔ جب اللہ کسی آزمائش میں ڈالے تو اس کی شکایت نہ کرے۔ عبادت کرنے سے غافل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ جو نعمت عطا فرمائے اس کی ناشکری نہ کرے اور کسی حال میں بھی اس کی معصیت نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کتنے لوگوں کو نصیحت کرتا ہے اور ان کو حکم دیتا ہے لیکن وہ اللہ کی نصیحت کو قبول نہیں کرتے اور اس کے حکم پر عمل نہیں کرتے بلکہ

القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 61