اَوَلَمۡ يَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰهُ مِنۡ نُّطۡفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيۡمٌ مُّبِيۡنٌ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 77
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَوَلَمۡ يَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰهُ مِنۡ نُّطۡفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيۡمٌ مُّبِيۡنٌ ۞
ترجمہ:
کیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو ایک نطفہ سے پیدا کیا تھا پھر یکایک وہ کھلا ہوا جھگڑالو بن گیا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو ایک نطفہ سے پیدا کیا تھا پھر یکایک وہ کھلا ہوا جھگڑالو بن گیا۔ وہ ہمارے لئے مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا اور کہنے لگا جب یہ ہڈیاں بوسیدہ ہو کر گل جائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا ؟۔ آپ کہئے ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر طرح کی پیدائش کو خوب جاننے والا ہے۔ جس نے سرسبز درخت سے تمہارے لئے آگ پیدا کی پھر تم اس سے یکایک آگ سلگا لیتے ہو۔ (یٰسٓ: ٨٠۔ ٧٧)
انسان کے مرنے کے بعد اس کو دوبارہ زندہ کئے جانے پر کفار کا اعتراض
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ عاص بن وائل ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک ہڈی لے کر آیا۔ پس کہنے لگے : اے محمد ! کیا اللہ اس ہڈی کو بوسیدہ ہونے کے بعد پھر اٹھائے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں اللہ تعالیٰ اس ہڈی کو اٹھائے گا۔ تجھ کو موت دے گا ‘ پھر تجھ کو زندہ کرے گا۔ پھر تجھ کو جہنم کی آگ میں داخل کردے گا۔ حضرت ابن عباس نے کہا پھر یٰسٓ: ٨٠۔ ٧٧ آیات نازل ہوئیں۔ (المستدرک ج ٢ ص ٤٢٩‘ قدیم المستدرک رقم الحدیث : ٣٦٠٦ جدید ‘ حاکم نے کہا امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق اس حدیث کی سند صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو روایت نہیں کیا ‘ ذہبی نے حاکم کی موافقت کی ہے۔ )
حافظ سیوطی متوفی ٩١١ ھ نے اس حدیث کو امام ابن مردویہ ‘ امام سعید بن منصور ‘ امام ابن المنذر ‘ امام بیہقی ‘ امام عبدبن حمید ‘ امام ابن جریر ‘ امام ابن ابی حاتم ‘ امام عبدالرزاق وغیرہ کے حوالوں سے متعدد اسانید اور متعدد الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ امام ابن مردویہ کی سند کے ساتھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابی بن خلف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک پرانی اور بوسیدہ ہڈی لے کر آیا اور کہنے لگا یا محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ ہمیں اس سے ڈراتے ہیں کہ جب یہ ہڈیاں بوسیدہ ہو کر گل سڑ جائیں گی تو خدا ہم کو نئی زندگی دے کر دوبارہ پیدا کرے گا ! پھر اس نے اس ہڈی کو چورا چورا کرکے اس کا برادہ ہوا میں اڑا دیا اور کہنے لگا : اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو کون زندہ کرے گا ! تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں اللہ تعالیٰ تجھ کو موت دے گا پھر تجھ کو زندہ کرے گا اور تجھ کو جہنم میں ڈال دے گا۔ اس موقع پر یٰسٓ کی یہ آیات نازل ہوئیں۔
(جامع البیان جز ٢٣ ص ٣٩۔ ٣٨‘ تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٣٢٠٣۔ ٣٢٠٢‘ الدر المشور ج ٧ ص ٦٧۔ ٦٦ )
مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ کئے جانے پر دلائل
ان آیات میں اور ان سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر متنبہ کیا ہے اور حیات بعد الموت پر دلائل قائم کئے ہیں۔ اس سے پہلے فرمایا تھا : کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے مویشی بنائے جن کے یہ مالک ہیں۔ کیا یہ مویشیوں کی خلقت پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے ان کو کیسی حکمت اور مصلحت سے پیدا کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ان اشیاء کو پیدا کرنا ‘ اس کے اختیار اور اس کی قدرت پر دلالت کرتا ہے اور جب وہ ان مختلف الحقائق مویشیوں کے پیدا کرنے پر قادر ہے تو قیامت کے بعد تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر کیوں قادر نہیں ہے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار اور قدرت کو ایک اور طریقہ سے واضح فرمایا ہے۔ اس نے فرمایا : ہم نے انسان کو نطفہ سے پیدا فرمایا اور نطفہ انسان کی منی کی ایک بوند ہے جس کے اگر اجزاء فرض کئے جائیں تو وہ سب مساوی اور متشابہ ہیں۔ پھر اس سے انسان کو بنایا جس میں خون بھی ہے ‘ گوشت بھی ہے ‘ بال بھی ہیں اور رگیں اور پٹھے بھی ہیں اور ہڈیاں بھی ہیں۔ اگر نطفہ میں مختلف اجزاء ہوتے تو کہا جاسکتا تھا کہ فلاں جز سے خون بن گیا اور فلاح جز سے گوشت بن گیا اور فلاں جز سے رگیں اور پٹھے بن گئے اور فلاں جز سے بال بن گئے اور فلاں جز سے ہڈیاں بن گئیں لیکن یہاں پر تو اس پانی کی بوند کے اجزاء ایک جیسے ہیں۔ ان سے یہ مختلف چیزیں کیسے وجود میں آگئیں۔ پھر زبان بھی گوشت کا ٹکڑا ہے اور ناک بھی گوشت کا ٹکڑا ہے۔ زبان میں لمس اور ذائقہ کی حس ہے اور ناک میں سونگھنے کی حس ہے ‘ نیز زبان میں بولنے کی قوت ہے ‘ کان میں سننے کی قوت ہے اور یہ سب اعضاء گوشت کے ہیں۔ پھر ایک ہی گوشت کے ٹکڑے میں ایک جگہ ایک اثر ہے اور دوسری جگہ اس سے مختلف اثر ہے۔ آنکھ میں بھی چربی ہے اور ان کے جسم میں اور بھی چربی ہے۔ ایک چربی سے دکھائی دیتا ہے تو دوسری چربی سے کیوں دکھائی نہیں دیتا ‘ تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس قادر وقیوم کی قدرت اور اس کی حکمت ہے اور گوشت کے جس ٹکڑے سے چاہے سنوا دے ‘ جس سے چاہے گویائی کرا دے ‘ جس سے چاہے سونگھنے کے اثرات پیدا کردے۔ جب انسان اپنے اعضاء میں غور کرے تو ہر عضو کے خواص اور اس کے اثرات اللہ تعالیٰ کی قدرت کو ظاہر کرتے ہیں تو دوبارہ ایسے ہی انسان کو پیدا کرنے کو تم کیوں اس کی قدرت سے بعید سمجھتے ہو۔ کیا اس نے تم کو پانی کی ایک بےجان بوند سے نہیں بنایا۔ پھر جب تم بےجان ہو جائو گے تو وہ تم کو کیوں نہیں بنا سکے گا۔ کیا اس نے تم کو مٹی سے نہیں بنایا تو جب تم مر کر مٹی ہو جائوگے تو وہ تم کو کیوں نہیں بنا سکے گا۔
منکرین حشر کے شبہات اور ان کے جوابات
منکرین حشر کے دو گروہ تھے ‘ ایک وہ تھے جو بغیر کسی دلیل کے محض انسان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو بعید سمجھتے تھے اور دوسرے وہ تھے جو یہ شبہ پیش کرتے تھے کہ جب انسان مرجائے گا اور اس کا گوشت گل سڑ جائے گا اور اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہو کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گی اور انسان کا جسم مٹی کے ذرات سے تبدیل ہوجائے گا اور جب بہت سے اجسام مٹی کے ذرات بن کر بکھر جائیں گے اور ایک دوسرے سے مختلط ہوجائیں گے تو ان مختلف اور مختلط اجزاء کو کیسے الگ الگ کیا جائے گا۔ پھر ان کو کس طرح جوڑ کر وہی پہلے والا جسم بنایا جائے گا۔
منکرین حشر کا پہلا گروہ جو مرنے کے بعد انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کو بغیر کسی دلیل کے بعید جانتا تھا ان کا ذکر حسب ذیل آیات میں ہے :
ترجمہ (السجدہ : ١٠)… اور کفار نے کہا جب ہم مٹی میں مل جائیں گے تو کیا ہم ضرور ازسر نو پیدا کئے جائیں گے ؟
ترجمہ (الصفت : ٥٣ )… کیا جب ہم مرجائیں گے اور ہم مٹی ہو جائیں گے اور ہماری ہڈیاں رہ جائیں گی تو کیا ضرور ہم کو ہمارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔
اور منکرین حشر کا دوسرا گروہ جس کو وقوع حشر میں شبہات تھے ان کا ذکر سورة یٰسٓ کی : ٧٨۔ ٧٧ آیات میں کیا گیا ہے ‘ اللہ تعالیٰ ان کے شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : آپ کہئے کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا ! اور وہ ہر طرح کی پیدائش کو خوب جاننے والا ہے۔ رہا ان کا یہ شبہ کہ جب یہ ذرات ایک دوسرے سے مختلط ہوجائیں گے تو ان کو کون باہم ممتاز کرے گا تو یہ اشکال اس پر ہوسکتا ہے جس کا علم ناقص ہو اور جو علیم ہو اور اس کا علم کامل ہو جو ہر غیب اور شہادت کا جاننے والا ہو اس کے لئے ان مخلوط ذرات کی الگ الگ پہچان اور شناخت کیا مشکل ہے اور رہا یہ کہ ان ذرات کو کس طرح جمع کیا جائے گا تو یہ اشکال بھی اس پر ہوسکتا ہے جس کی قدرت ناقص ہو اور جس نے اس عظیم الشان کائنات کو ایک لفظ کن سے بنادیا اس کے لئے اس جیسی کائنات کو دوبارہ بنادینا کیا مشکل ہے !
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 77