أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَوَلَيۡسَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓى اَنۡ يَّخۡلُقَ مِثۡلَهُمۡؔؕ بَلٰی وَهُوَ الۡخَـلّٰقُ الۡعَلِيۡمُ ۞

ترجمہ:

اور کیا جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسے لوگوں کو (دوبارہ) پیدا کردے ! کیوں نہیں ! وہ عظیم الشان پیدا کرنے والا ‘ سب سے زیادہ جاننے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور کیا جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسے لوگوں کو (دوبارہ) پیدا کردے ! کیوں نہیں ! وہ عظیم الشان پیدا کرنے والا سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کا اس چیز سے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ” بن جا “ سو وہ بن جاتی ہے۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کے دست قدرت میں ہر چیز کی حکمت ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے۔ (یٰسٓ: ٨٣۔ ٨١)

اللہ تعالیٰ کی صفات میں مبالغہ کا معنی

یٰسٓ : ٨١ کا معنی یہ ہے کہ جس ذات نے انسان کو ابتداء پیدا کیا اور جس نے سرسبز درخت کو آگ بنادیا اور جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا جس نے اس قدر عظیم الشان ‘ وسیع و عریض اور قوی ہیکل چیزوں کو ابتداء پیدا کیا ‘ کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ وہ دوبارہ انسانوں کو پیدا کردے۔ جبکہ آسمانوں ‘ زمینوں اور اس پر نصب پہاڑوں کے مقابلہ میں جسمانی طور پر انسان بہت چھوٹی مخلوق ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

ترجمہ (المومن : ٥٧ )… آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنا ضرور انسانوں کو (دوبارہ) پیدا کرنے سے بڑا کام ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

پھر خود ہی فرمایا کیوں نہیں ! وہ ضرور انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے ‘ وہ ہر چیز کی جسامت اور مقدار اور اس کی صفات کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے اور وہ ہر چیز کو بار بار پیدا کرنے والا ہے تو وہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خالق کا صیغہ استعمال فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی جو صفات مبالغہ کے صیغہ کے ساتھ ہوں وہ سب مجاز ہیں کیونکہ مبالغہ کا معنی ہے نفس صفت پر زیادتی ‘ مثلاً جب کسی شخص کو علامہ کہا جائے تو اس کا معنی ہے جتنا اس کا علم ہے اس سے زیادہ اس کا علم بیان کیا جارہا ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہیں۔ ان پر زیادتی ممکن ہی نہیں ہے نیز اس شخص کی صفات میں مبالغہ ممکن ہے جس کی صفت میں زیادتی اور کمی ہو سکے اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں زیادتی اور کمی ممکن ہی نہیں ہے اس لئے جب اللہ تعالیٰ کی صفات پر مبالغہ کے صیغہ کا اطلاق کیا جائے گا تو وہ مجاز ہوگا۔

علامہ زرکشی نے البرہان فی علوم القرآن میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مبالغہ کے صیغہ کا معنی ہے کہ اس کا فعل زیادہ ہو یا اس کا معنی ہے جن پر اس کا فعل واقع ہو رہا ہے۔ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مثلاً خالق کا معنی ہے وہ بہت زیادہ تخلیق فرماتا ہے یا اس کا معنی ہے اس کی مخلوق کی تعداد بہت زیادہ ہے اسی طرز پر علامہ زمحشری نے الکشاف میں لکھا ہے کہ تواب کا معنی ہے جن کی وہ توبہ قبول فرماتا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ‘ یا اس کا معنی ہے وہ بندہ کی اس قدر زیادہ توبہ قبول فرماتا ہے کہ اس پر گناہ کا بالکل اثر نہیں رہتا اور وہ بالکل پاک اور صاف ہوجاتا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 81