أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اۨلَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنَ الشَّجَرِ الۡاَخۡضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنۡـتُمۡ مِّنۡهُ تُوۡقِدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

جس نے سرسبز درخت سے تمہارے لئے آگ پیدا کی پھر تم اس سے یکایک آگ سلگا لیتے ہو

پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت پر متنبہ کرنے کے لئے فرمایا : جس نے سرسبز درخت سے تمہارے لئے آگ پیدا کی پھر تم اس سے یکایک آگ سلگا لیتے ہو۔ (یٰسٓ: ٨٠)

پان آگ کو بجھا دیتا ہے اور آگ کی حرارت پانی کو بخارات بنا کر اڑا دیتی ہے ‘ سرسبز درخت میں پانی کی نمی ہوتی ہے اور آگ اس کو جلا دیتی ہے ‘ انسان کے جسم میں حیات اسی طرح جاری ہے جس طرح سرسبز درخت میں پانی کی نمی جاری ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں اس کی ضد آگ کو قبول کرنے کی تاثیر رکھی ہے اور یہ بھی اس کی قدرت کا ثمرہ ہے تو ایسے قادر وقیوم اور خالق علیم سے تم اس کائنات کا دوبارہ بنانا کیوں مستعد قرار دیتے ہو۔

ہڈیوں کے پاک ہونے پر دلائل

یٰسٓ: 78 میں بوسیدہ ہڈیوں کا ذکر ہے اور ایک کافر کے اس قول کا ذکر فرمایا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ‘ گویا اس آیت میں یہ مقرر رکھا ہے کہ ہڈیوں میں موت نفوذ کرجاتی ہے اور اس میں بظاہر امام شافعی کے قول کی تائید ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جس طرح جسم کے گوشت اور پوست میں موت حلول کرجاتی ہے اسی طرح ہڈیوں میں بھی موت حلول کرجاتی ہے اور جس طرح مردہ نجس ہوتا ہے اس طرح اس کی ہڈیاں بھی نجس ہوتی ہیں۔

امام ابوحنیفہ اور دوسرے آئمہ اور فقہاء جو کہتے ہیں کہ ہڈیاں پاک ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ہڈیوں میں موت نفوذ نہیں کرتی کیونکہ موت کا نفوذ کرنا اس پر موقوف ہے کہ پہلے ہڈیوں میں حیات ہو اور حیات احساس کو مستلزم ہے اور ہڈیوں میں کوئی احساس نہیں ہوتا کیونکہ ہڈی کو کاٹنے سے کوئی درد نہیں ہوتا جیسا کہ جانوروں کے سینگھ اور ان کے کھروں میں مشاہدہ کیا جاتا ہے اور انسان کی ہڈی کو کاٹنے سے جو درد ہوتا ہے وہ درد ہڈی میں نہیں ہوتا بلکہ ہڈی سے متصل جو گوشت ہے دراصل اس میں درد ہوتا ہے اور اس آیت میں کافر کا جو قول مذکور ہے کہ ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کے بعد ان کو کون زندہ کرے گا اس کا جواب یہ ہے کہ ہڈیوں سے مراد ہڈیوں والا انسان ہے۔

ہڈیوں کے پا ہونے کی یہ دلیل بھی ہے کہ مردہ اپنی ذات میں نجس نہیں ہوتا بلکہ وہ اس لئے نجس ہوتا ہے کہ اس میں بہنے والا خون ہوتا ہے اور وہ نجس ہے اور اس میں دیگر رطوبتیں ہوتی ہے جو نجس ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ اتصال کی وجہ سے مردہ بھی نجس ہوجاتا ہے جب کہ ہڈیوں میں نہ خون ہوتا ہے اور نہ دیگر رطوبتیں ہوتی ہیں۔ اس لئے ہڈیاں پاک ہیں۔

(روح المعانی جز ٢٣ ص ٨١‘ دارالفکر بیروت ١٤١٧ ھ)

میں کہتا ہوں کہ امام اعظم ابوحنیفہ کے اس موقف پر کہ ہڈیاں پاک ہیں حسب ذیل آثار میں صراحت ہے :

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ فرماتے ہیں :

زہری نے مردار کی ہڈیوں مثلاً ہاتھی وغیرہ کی ہڈیوں کے متعلق کہا میں نے بکثرت متقدم علماء کو دیکھا ‘ وہ ہاتھی دانت کی بنی ہوئی کنگھیوں سے گنگھی کرتے تھے اور ہڈیوں کے بنے ہوئے برتنوں میں تیل رکھتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اور ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ ہاتھی دانت کی تجارت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (صحیح البخاری ص ٦٧‘ دارارقم بیروت)

انسان کے جسم سے الگ ہونے کے بعد بال کے پاک ہونے کے متعلق احادیث

اسی طرح امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ انسان کے جسم سے جو بال الگ ہوجاتا ہے وہ بھی نجس اور ناپاک ہے اگر وہ بال پانی میں گرجائے گا تو وہ پانی بھی ناپاک ہوجائے گا اور اس سے وضو کرنا جائز نہیں ہے۔ امام بخاری نے اس قول کے رد میں اس حدیث کو روایت کیا ہے :

ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبیدہ سے کہا ‘ ہمارے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک مبارک بال ہے جو ہم کو حضرت انس (رض) یا ان کے گھر والوں کی جانب سے ملا تھا۔ عبیدہ نے کہا اگر میرے پاس آپ کا کوئی بال ہوتا تو وہ مجھے دنیا اور مافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٧٠‘ دارارقم بیروت)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر منڈوایا تو حضرت ابو طلحہ (رض) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ کا بال حاصل کیا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٧١‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٩٨٢۔ ١٩٨١‘ سنن الترماذی رقم الحدیث : ٩١٢‘ السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ٤١١٦)

علامہ ابو الحسن علی بن خلف بن عبدالملک المعروف بابن بطال المالکی المتوفی ٤٤٩ ھ لکھتے ہیں :

علامہ المہلب نے کہا ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان سے امام شافعی کے اس قول کے رد کرنے کا ارادہ کیا ہے کہ انسان کا بال جب جسم سے الگ ہوجائے تو وہ نجس ہوجاتا ہے اور جب وہ بال پانی میں گرجائے تو وہ پانی بھی نجس ہوجائے گا اور عطا کے قول کا ذکر کیا ہے کہ انسان کے بال سے دھاگے اور رسیاں بنانے میں کوئی حرب نہیں ہے اور اگر انسان کا بال نجس ہوتا تو اس سے دھاگے اور رسیاں بنانا جائز نہ ہوتا اور نہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک بال رکھنا اور اس سے تبرک حاصل کرنا جائز ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا بال طاہر ہے ‘ اور عطا کے قول کے موافق جمہور علماء کا مذہب ہے۔

علامہ المہلب نے کہا ہے کہ حضرت انس (رض) کی حدیث میں یہ دلیل ہے کہ امنسان کے جسم سے جو بال یا ناخن الگ ہوجائے وہ نجس نہیں ہے۔ حضرت خالد بن ولید (رض) نے اپنی ٹوپی میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بال مبارک رکھا ہوا تھا۔ جنگ یمامہ میں ان کی ٹوپی گرگئی۔ ان کو اس سے بہت رنج ہوا اور انہوں نے اس ٹوپی کو عین حالت جنگ میں اٹھا لیا۔ ان کے اصحاب نے اس وجہ سے ان کو کافی ملامت کی کیونکہ اس وقت وہ مسلمانوں کے قاتلوں سے جنگ کررہے تھے۔ حضرت خالد بن ولید (رض) نے کہا میں نے اس ٹوپی کی قیمت کی وجہ سے اس کو اٹھانے میں جلدی نہیں کی لیکن میں نے اس کو ناپسند کیا کہ یہ ٹوپی مشرکین کے ہاتھوں میں جائے اور اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بال ہو۔

(شرح صحیح البخاری لابن بطال ج ١ ص ٢٦٥‘ مکتبہ الرشید ریاض ‘ ١٤٢٠ ھ)

بال ‘ ہڈی اور دیگر سخت اور ٹھوس اجزاء کی طہارت میں مذاہب فقہاء

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوقی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ انسان کا بال پاک ہے ‘ اسی طرح تمام مردہ جانوروں کے بال پاک ہیں اور ان کے وہ سخت اور ٹھوس اجزاء بھی پاک ہیں جن میں خون نہیں ہوتا ‘ مثلاً سینگھ ‘ ہڈی ‘ دانت ‘ کھر ‘ اون ‘ پشم ‘ بال اور پر وغیرہ۔ بدائع الصنائع ‘ تحفۃ الفقہاء اور فتاویٰ قاضی خاں میں بھی اسی طرح مذکور ہے۔ امام مالک ‘ امام احمد ‘ اسحاق ‘ مزنی ‘ عمر بن عبدالعزیز ‘ حسن ‘ حماد اور دائود نے بھی ہڈیوں کے پاک ہونے کی تصریح کی ہے۔

علامہ نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ نے شرح المہذب میں حسن ‘ عطا ‘ اوزاعی اور لیث سے یہ نقل کیا ہے کہ ہڈی موت سے نجس ہوجاتی ہے لیکن دھونے سے پاک ہوجاتی ہے اور قاضی ابو الطیب سے نقل کیا ہے کہ بال ‘ پشم ‘ اون ‘ ہڈی ‘ سینگ اور کھر میں حیات کا حلول ہوتا ہے اور یہ چیزیں موت سے نجس ہوجاتی ہیں اور یہی مذہب ہے۔ مزنی ‘ بویطی ‘ ربیع اور حرملہ نے اسی مذہب کو امام شافعی سے روایت کیا ہے اور مزنی نے امام شافعی سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ انہوں نے اس قول سے رجوع کرلیا ہے کہ آدمی کا بال نجس ہوتا ہے۔ اس کا قول یہ بھی ہے کہ آدمی کا بال اس کی کھال کے تابع ہے۔ اگر کھال پاک ہے تو اس کے بال پاک ہیں اور اگر کھال نجس ہے تو اس کے بال نجس ہیں۔

اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالوں کے متعلق قطعی اور صحیح مذہب یہ ہے کہ آپ کے بال پاک ہیں۔ جو شخص اس کے خلاف کوئی بات کہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ آپ کے مبارک بالوں کا مرتبہ تو الگ رہا آپ کے تو فضلات کریمہ میں بھی طاہر ہیں۔

(عمدۃ القاری ج ٣ ص ٥٢۔ ٥١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٢١ ھ)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

امام بخاری نے اس حدیث سے اس پر استدلال کیا ہے کہ انسان کا بال جسم سے الگ ہونے کے بعد پاک ہوتا ہے کیونکہ حضرت انس (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر کے بال کو اپنے پاس بطور تبرک رکھا تاہم اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بال مکرم ہے۔ اس پر دوسرے انسان کے بال کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ علامہ ابن المنذر اور علامہ خطابی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ خصوصیت بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتی اور اصل میں خصوصیت کا نہ ہونا ہے۔ اس جواب کا یہ رد کیا گیا ہے کہ ان کو چاہیے کہ یہ منی کی طہارت پر بھی اس حدیث سے استدلال نہ کریں کہ حضرت عائشہ رضی الہ عنہا آپ کے کپڑوں سے منی کو کھرچ دیا کرتی تھیں کیونکہ یہ کہنا جائز ہے کہ آپ کی منی پاک ہے اور اس پر دوسروں کی منی کو خصوصیت دلیل سے ثابت ہو اور آپ کے فضلات (خون ‘ منی ‘ بول اور براز وغیرہ) کی طہارت پر بکثرت دلائل ہیں اور آئمہ نے اس کو آپ کی خصوصیت قرار دیا ہے اور آئمہ نے آپ کے فضلات کی طہارت کو آپ کی خصوصیات میں سے شمار کیا ہے۔ اس لئے اکثر فقہاء شافعیہ کی کتابوں میں اس کے خلاف جو کچھ لکھا ہے اس کی طرف توجہ نہ کی جائے کیونکہ آئمہ کے درمیان اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ آپ کے فضلات طاہر ہیں۔ (فتح الباری ج ١ ص ٣٦٦‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤٢٠ ھ)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالوں کی طہارت کی بحث میں چونکہ آپ کے فضلات (خون اور بول و براز) کی طہارت کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اصل احادیث کے حوالوں سے آپ کے فضلات کی طہارت کو بیان کردیں۔ فنقول وباللہ التوفیق۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضلات کی طہارت کے متعلق احادیث

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضاء حاجت کے لئے (بیت الخلاء میں) گئے ‘ پھر میں گئی تو میں نے وہاں جا کر کوئی چیز نہیں دیکھی اور مجھے وہاں مشک کی خوشبو آرہی تھی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے وہاں کوئی چیز نہیں دیکھی ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک زمین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم انبیاء کی جماعت سے جو کچھ نکلے اس کو ڈھانپ لے۔

(المستدرک ج ٤ ص ٧٢ طبع قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث ٦٩٥٠ طبع جدید ‘ المکتبہ العصریہ ١٤٢٠ ھ ‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٤٢٥٣‘ الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ١٣٥ طبع جدید ١٤١٨‘ علامہ خفا جی متوفی ١٠٦٩ ھ نے لکھا ہے کہ ابن وحیہ نے کہا اس حدیث کی سند ثابت ہے اور یہ اس باب میں سب سے قومی حدیث ہے ‘ نسیم الریاض ج ٢ ص ٢١‘ طبع جدید ١٤٢١ ھ)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم جماعت انبیاء کے اجسام اہل جنت کی ارواح پر بنائے گئے ہیں اور زمین کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم سے جو چیز نکلے اس کو نگل لے۔

(الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث ١٤٣‘ جمع الجوامع رقم الحدیث ٨٠٣٢‘ کنزل العمال رقم الحدیث : ٣٢٢٤ )

حضرت ام ایمن (رض) بیان کرتی ہیں ١ ؎ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھر کی ایک جانب میں مٹی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا۔ آپ رات کو اٹھ کر اس میں پیشاب کرتے تھے۔ ایک رات میں اٹھی مجھے پیاس لگ رہی تھی۔ میں نے اس برتن سے پی لیا اور مجھے پتا نہیں چلا (کہ یہ پیشاب ہے) جب صبح ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ام ایمن ! اس مٹی کے برتن کو اٹھائو اور اس میں جو کچھ ہے اس کو پھینک دو ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم ! اس میں جو کچھ ہے اس کو میں نے پی لیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنسے حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں ‘ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سنو اس کے بعد کبھی تمہارے پیٹ میں درد نہیں ہوگا۔

(المستدرک ج ٤ ص ٦٤۔ ٦٣ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٦٩١٢ جدید ‘ المعجم الکبیر ج ٢٥ ص ٨٩‘ رقم الحدیث : ٢٣٠‘ کنز العمال رقم الحدیث : ٣٢٢٥٦‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٧٥٤٩‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٤ ص ٢٠٧۔ ١٠٨٩‘ داراحیاء الترث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کی سند ضعیف ہے ‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٧١‘ البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٤٢١‘ الطبع الجدید ١٤١٨ ھ)

حکیمہ بنت امیمہ بنت رقیقہ اپنی ماں (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک لکڑی کا پیالہ تھا جس میں آپ پیشاب کرتے تھے اور اس کو اپنے تخت کے نیچے رکھتے تھے۔ آپ نے اس میں پیشاب کیا پھر آپ آئے تو دیکھا کہ اس پیالہ میں کوئی چیز نہیں تھی۔ ایک خاتون جن کا نام بر کہ تھا جو حضر ام حبیبی (رض) کی خدمت کرتی تھی اور ان کے ساتھ سرزمین حبشہ سے آئی تھیں۔ آپ نے ان سے پوچھا وہ پیشاب کہا ہے جو اس پیالہ میں تھا۔ انہوں نے کہا میں نے اس کو پی لیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم پر دوزخ کی آگ منع کردی گئی ہے۔

(المعجم الکبیر ج ٢٤ ص ١٨٩‘ رقم الحدیث : ٤٧٧‘ المعجم الکبیر ج ٢٤ ص ٢٠٦۔ ٢٠٥‘ رقم الحدیث : ٥٢٧‘ السنن الکبریٰ ج ٧ ص ٦٧‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٧٣ ص ٣٨‘ رقم الحدیث : ١٥٢٠٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢١ ھ ‘ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے راوی صحیح ہیں اور ثقہ ہیں ‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٧١‘ البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٣٢٢۔ ٣٢١ الطبع الجدید ١٤١٨ ھ)

عامر بن عبداللہ بن الزبیر (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فصد لگائی۔ آپ نے مجھ سے پوچھا : تم نے اس (خون) کا کیا کیا ؟ میں نے کہا میں نے اس کو غائب کردیا۔ آپ نے فرمایا شاید تم نے پی لیا ! میں نے کہا میں نے اس کو پی لیا۔

(کشف الاستار عن زوائد البزاررقم الحدیث : ٢٤٣٦‘ حافظ الہیثمی نے کہا بزار کی سند صحیح اور ثقہ ہے ‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٧٠)

بریہ بن عمر بن سفینہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فصد لگائی۔ آپ نے فرمایا یہ خون لے جائو اور اس کو چوپایوں ‘ پرندوں اور لوگوں سے چھپا کر دفن کردو۔ میں نے اس کو چھپ کر پی لیا پھر میں نے اس کا ذکر کیا تو آپ ہنسے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٥٣٤‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٧٠‘ التاریخ الکبیر للبخاری ج ٤ ص ١٨٠‘ رقم ٥٤١٨۔ ٢٥٢٤‘ المطالب العالیہ رقم الحدیث : ٣٨٤٨‘ السنن الکبریٰ للبہیقی ج ٧ ص ٦٧‘ تلخیص الحبیر ج ١ ص ٤٢ )

عبدالرحمٰن بن ابی سعید اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد مالک بن سنان بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ احد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ زخمی ہوگیا تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خون چوس کر گل لیا ‘ ان سے کہا گیا ‘ کیا تم نے خون پی لیا ؟ انہوں نے کہا ‘ ہاں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خون پی لیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرا خون جس کے خون کے ساتھ مل گیا اس کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٩٠٩٨‘ دارالفکر بیروت ١٤٢٠ ھ ‘ مجمع الزوائد ج ٦ ص ١١٤) (حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کی سند میں کوئی ایسا راوی نہیں ہے جس کی ضعف پر اجماع ہو ‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٧٠)

حضرت ابو سعید خدری کے والد مالک بن سنان بیان کرتے ہیں کہ جنگ احمد میں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ زخمی ہوگیا تو انہوں نے آپ کے زخم سے خون چوس لیا حتیٰ کہ آپ کا چہرہ بالکل سفید اور صاف ہوگیا۔ ان سے کہا گیا اس خون کو تھوک دو ۔ انہوں نے کہا نہیں ! خدا کی قسم ! اس خون کو کبھی نہیں تھوکوں گا ! پھر وہ پیٹھ موڑ کر جہاد کرنے چلے گئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جو شخص کسی جنتی آدمی کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس کو دیکھ لے ‘ پس وہ شہید ہوگئے۔

(دلائل النہوۃ للبیہقی ج ٣ ص ٣٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ تلخیص الحبیر ج ١ ص ٤٣‘ رقم الحدیث : ١٩)

عامر بن عبداللہ بن الزبیر بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فصد لگائی۔ جب وہ فصد لگا کر فارغ ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : اے عبداللہ اس خون کو ایسی جگہ گرا دو جہاں اس کو کوئی نہ دیکھے ‘ حضرت ابن الزبیر کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گیا تو میں نے اس خون کو پی لیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شاید تم نے اس کو پی لیا ؟ میں نے کہا جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کو خون پینے کے لئے کس نے کہا تھا ؟ تمہیں لوگوں کی طرف سے افسوس ہوگا اور لوگوں کو تمہاری طرف سے افسوس ہوگا ! دوسری روایت میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے وہ خون کیوں پیا ؟ حضرت ابن الزبیر نے کہا میں نے یہ پسند کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خون میرے پیٹ میں ہو ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن الزبیر کے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا تمہیں لوگوں کی طرف سے افسوس ہوگا اور لوگوں کو تمہاری طرف سے افسوس ہوگا اور تم کو صرف قسم پوری کرنے کے لئے دوزخ کی آگ چھوئے گی۔

(حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٣٣٠ طبع قدیم ‘ حلیۃ الاولیاء رقم الحدیث : ١١٦٧۔ ١١٦٦ طبع جدید ‘ سنن دارقطنی ج ١ ص ٢٢٨ طبع قدیم ‘ سنن دار قطنی رقم الحدیث : ٨٧١ طبع جدید ‘ المستدرک ج ٣ ص ٥٥٤ طبع قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٦٣٤٣ طبع جدید ‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٣٠ ص ١٢٥‘ ١٢٤‘ رقم الحدیث : ٦٢٢٥۔ ٦٢٢٤۔ ٦٢٢٣۔ ٦٢٢٢‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢١ ھ ‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٧ ص ٦٧‘ تلخیص الحبیر ج ١ ص ٤٣۔ ٤٢‘ رقم الحدیث : ١٨‘ کنزالعمال رقم الحدیشث : ٣٧٢٣٤۔ ٣٣٥٩١‘ البدایہ والنہایہ ج ٦ ص ٩٩۔ ٩٨‘ الطبع الجدید ١٨ؔ١٤ ھ)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن الزبیر سے فرمایا تمہیں لوگوں کی طرف سے افسوس ہوگا اور لوگوں کو تمہاری طرف سے افسوس ہوگا۔ اس میں حضرت ابن الزبیر (رض) کی شہادت کی پیش گوئی ہے۔ حضرت ابن الزبیر نے ٦٣ ھ میں مکہ میں اپنی حکومت قائم کردی تھی۔ بنوامیہ کو اس پر افسوس ہوا۔ یزید نے محرم چونسٹھ ہجری میں ان کے خلاف لشکر بھیجا اور کعبہ پر سنگ باری کی گئی اور کعبہ کے پردوں کو جلایا گیا اور چودہ ربیع الاول ٦٤ ھ کو یزید کے مرنے کے بعد یہ لشکر واپس آگیا۔ پھر عبدالملک بن مروان نے اپنے دور حکومت میں حجاج بن یوسف کی کمان میں لشکر بھیجا۔ بالآخر سترہ جمادی الاولی ٧٢ ھ میں حضرت ابن الزبیر (رض) کو شہید کردیا گیا اور حضرت ابن الزبیر اور بنو امیہ دونوں فریقوں کو ایک دوسرے سے افسوس ہوا اور یوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔

اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن الزبیر سے یہ جو فرمایا اور تم کو صرف قسم پوری کرنے کے لئے دوزخ کی آگ چھوئے گی اس میں ان آیتوں کی طرف اشارہ ہے :

ترجمہ (مریم : ٧٢۔ ٧١)… اور بیشک تم سے ہر شخص ضرور دوزخ پر وارد ہوگا یہ آپ کے رب کے نزدیک قطعی فیصلہ کیا ہوا ہے۔ پھر ہم متقین کو دوزخ سے نکال لیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل چھوڑ دیں گے۔

اس آیت کی تفسیر میں جمہور مفسرین کا مختاریہ ہے کہ مسلمانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی اس قسم کو پورا کرنے کے لئے دوزخ میں داخل کیا جائے گا اور پھر ان کو نکال لیا جائے گا اور دوزخ مسلمانوں پر ٹھنڈی ہوگی اور کافروں کو جلا رہی ہوگی اور اس میں حکمت یہ ہے کہ کافروں کو دہرا عذاب ہو ‘ ایک عذاب ان کو اپنے جلنے کا ہوگا اور دوسرا عذاب یہ ہوگا کہ ان کے مخالف مسلمان اسی دوزخ سے گزر رہے ہیں اور ان کو عذاب نہیں ہو رہا۔ حسب ذیل احادیث اس تفسیر پر دلیل ہیں :

حضرت یعلیٰ بن منبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ قیامت کے دن دوزخ مومن سے کہے گی :

جزیا مومن فقد اطفاء نورک لھبی اے مومن ! (جلدی سے) گزر جا کیونکہ تیرے نور نے میرے شعلہ کو بجھا دیا ہے۔

(المعجم الکبیر ج ٢٢ ص ٢٥٨‘ حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند میں سلیم بن منصور بن عمار ضعیف راوی ہیں ‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٨٤٤٦ )

حضرت ابو سمینہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس آیت میں د رود کا معنی دخول ہے ‘ پس ہر نیک اور بد شخص دوزخ میں داخل ہوگا اور مومنوں پر دوزخ اس طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ہوگئی تھی۔ پھر ہم متقین کو دوزخ سے نکال لیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل چھوڑ دیں گے۔

(مسند احمد ج ٣ ص ١٥٩‘ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٨٤٤٧ )

اس کی پوری بحث تبیان القرآن جلد سابع میں مریم : ٧٢۔ ٧١ کی تفسیر میں ملاخطہ فرمائیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضلات کریمہ کی طہارت کی احادث پر ملاعلی قاری نے چند فنی اعتراضات کئے ہیں۔ ہم نے شرح صحیح مسلم ج ٦ ص ٧٨٩۔ ٨٩٣ میں ان اعتراضات کے جوابات لکھے ہیں۔ قارئین کی علمی ضیافت کے لئے ہم ان اعتراضات اور جوابات کو یہاں بھی ذکر کررہے ہیں۔

فضلات کریمہ کی طہارت پر ملا علی قاری کے اعتراضات کے جوابات

ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :

قاضی عیاض نے جو یہ روایت ذکر کی ہے زمین پھٹ جاتی اور آپ کے بول و براز نگل لیتی اور اس جگہ خوشبو پھیل جاتی۔ اس کو امام بیہقی نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ موضوع ہے (اس کا جواب جمع الوسائل کے حوالے سے خود ملا علی قاری کی عبارت میں آرہا ہے) قاضی عیاض نے دوسری روایت جو امام محمد بن سعد کے حوالے سے ذکر کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے فرمامیا : اے عائشہ ! کیا تم نہیں جانتیں کہ انبیاء (علیہم السلام) سے جو چیز نکلتی ہے ‘ زمین اس کو نگل لیتی ہے۔ الحدیث ‘ ابن وحیہ نے کہا کہ اس کی سند ثابت ہے اور یہ اس باب میں قوی ترین حدیث ہے۔

ملا علی قاری کہتے ہیں کہ یہ حدیث فضلات کی طہارت پر نہیں بلکہ اس کی ضد پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ زمین کے نگلنے سے معلوم ہوتا ہے۔ البتہ پاکیزہ خوشبو ان کی طہارت پر دلالت کرتی ہے۔ امام بغوی نے فضلات کی طہارت پر یہ دلیل قائم کی۔ آپ کے پیشاب اور خون سے شفاء حاصل کی گئی ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ جس چیز سے شفاء حاصل کی جائے اس کا طاہر ہونا لازم نہیں ہے کیونکہ اونٹوں کے پیشاب سے بھی شفاء حاصل کی گئی ہے اور جمہور فقہاء کے نزدیک اونٹوں کا پیشاب نجس ہے۔ (شرح الشفاء ج ١ ص ١٦٨‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٢١ ھ)

ملا علی قاری نے امام بیہقی کے حوالے سے حضرت عائشہ کی روایت کو جو موضوع کہا ہے ہم نے اس حدیث کا ذکر نہیں کیا۔ ہم نے امام محمد بن سعد متوفی ٢٣٠ ھ کی الطبقات الکبریٰ (ج ١ ص ١٣٦) کی روایت کو ذکر کرکے اس سے استدلال کیا ہے اور وہ اس بات میں قوی ترین حدیث ہے اور انہوں نے اونٹوں کے پیشاب سے جو معارضہ کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ملا علی قاری پر رحم فرمائے ! کہاں حضور کا بول مبارک اور کہاں اونٹوں کا پیشاب ! اونٹوں کا پیشاب سخت بد بودار ہوتا ہے اور جہاں آپ کا بول و براز گرتا تھا اس جگہ خوشبو پھیل جاتی تھی۔ اس حدیث کی قوت خود علی قاری کو بھی تسلیم ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بول مبارک پر اونٹوں کے پیشاب سے معارضہ کرنا ‘ سخت حیرت کا باعث ہے۔

نیز ملا علی قاری ہر وی متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :

قاضی عیاض نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کوئی چیز ناپسندیدہ اور ناپاک نہیں تھی۔ ملا علی قاری اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑوں سے منی دھوتی تھیں۔ آپ پتھر اور ڈھیلوں سے استنجاء کرتے تھے نیز اگر آپ سے خارج ہونے والی چیزیں پاک ہوتیں تو وہ چیزیں حدث ناقص (وضو اور غسل کا سبب) نہ ہوتیں۔ جیسے پسینہ ‘ تھوک اور رینٹ وغیرہ ہیں اور اس پر اجمع ہے کہ وضو ٹوٹنے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کی مثل ہیں۔ سو اس چیز کے جس کا استثنیٰ ہے مثلاً نیند ‘ کیونکہ آپ کی آنکھیں سوتی تھیں اور دل نہیں سوتا تھا۔ (شرح الشفاء ج ١ ٦٩‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

اللہ تعالیٰ ملا علی قاری پر رحم فرمائے۔ آپ کے فضلات کریمہ کے طاہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ امت کے لئے طاہر ہیں۔ باقی آپ کے حق میں ان کا خروج موجب حدث ہے۔ اسی وجہ سے آپ استنجا ‘ وضو اور غسل فرماتے تھے۔ امت کے لئے ان کے طاہر ہونے پر دلیل یہ ہے کہ کئی صحابہ اور صحابیات نے آپ کا پیشاب اور خون پیا اور آپ نے اس پر انکار نہیں فرمایا۔

اضی عیاض نے کہا ہے کہ جنگ احد کے دن حضرت مالک بن سنان نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زخم سے خون چوس کر پی لیا۔

ملا علی قاری نے کہا ہے کہ اس حدیث کی مثل کو حاکم ‘ بزار ‘ بیہقی اور دار قطنی نے روایت کیا ہے لیکن قاضی عیاض نے اس حدیث سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خون کی طہارت پر جو استدلال کیا ہے اس پر ملا علی قاری نے یہ اعتراض کیا ہے کہ ضرورت سے ممنوع چیز مباح ہوجاتی ہے۔ (شرح الشفاء ج ١ ص ١٧٠‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٢١ ھ)

ہماری سمجھ میں یہ نہیں آسکا کہ حضرت مالک بن سنان (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زخم سے خون چوسنے کی کون سی طبعی یا شرعی ضرورت تھی جس کی وجہ سے ان کے لئے خون چوسنا مباح ہوگیا تھا ! حقیقت یہ ہے کہ حضرت مالک بن سنان (رض) نے کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں بلکہ غلبہ محبت کی بناء پر آپ کے زخم سے خون چوسا تھا۔

قاضی عیاض نے کہا ہے کہ جن صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خون یا پیشاب پی ‘ آپ نے ان میں سے کسی کو یہ نہیں کہا کہ اپنا منہ دھوئو۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا خون اور پیشاب پاک ہے۔ ملا علی قاری اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ان احادیث میں دھونے کے حکم پر دلالت ہے نہ عدم حکم پر دلالت ہے۔ علاوہ ازیں پیشاب لگنے سے منہ دھونا صحابہ کو بالبداہت معلوم تھا اور اگر مان لیا جائے کہ آپ نے دھونے کا حکم نہیں دیا۔ تب بھی محض احتمال سے طہارت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کو ذہول ہوگیا ہو۔ یا آپ کا اعتماد ہو کہ وہ منہ دھولیں گے۔ ہاں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آپ نے ان میں سے کسی کو دیکھا کہ وہ منہ دھوئے بغیر نماز پڑھ رہا ہے اور آپ نے اس پر سکوت کیا اور اس کو برقرار رکھا تب طہارت ثابت ہوجائے گی۔ (شرح الشفاء ج ١ ص ١٧١‘ بیروت ١٤٢١ ھ)

ملا علی قاری نے جو یہ کہا ہے کہ ان احادیث میں دھونے کے حکم پر دلالت ہے نہ عدم حکم پر دلالت ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ فضلات نجس ہوتے تو آپ پر لازم تھا کہ آپ انہیں دھونے کا حکم دیتے اور جب دھونے کا حکم نہیں دیا تو روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ یہ فضلات طاہر ہیں جیسا کہ قاضی عیاض (رح) نے بیان فرمایا ہے۔

ملا علی قاری نے جو یہ کہا ہے کہ پیشاب لگنے سے منہ دھونا صحابہ کو بالبداہت معلوم تھا۔ سوال یہ ہے کہ کس کے پیشاب لگنے سے ؟ عام آدمی کے ؟ تو بیشک یہ انہیں معلوم تھا کہ عام آدمی کے پیشاب لگنے سے اس جگہ کو دھونا لازم ہے لیکن یہ عام آدمی کا پیشاب تو نہیں تھا ! اگر ان کے نزدیک اس پیشاب کا حکم بھی عام آدمی کے پیشاب کی طرح ہوتا تو وہ اس کو کیوں پیتے ؟ ظاہر ہے کہ وہ آپ کے پیشاب کو طاہر سمجھتے تھے جبھی تو انہوں نے اس کو پیا تھا۔ اب اگر بالفرض یہ پیشاب ان کے گمان کے برخلاف ناپاک ہوتا تو آپ پر لازم تھا کہ آپ بتاتے کہ اپنا منہ دھولو۔

ملا علی قاری نے کہا اگر مان لیا جائے کہ آپ نے دھونے کا حکم نہیں دیا تب بھی محض احتمال سے طہارت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کو ذہول ہوگیا ہو یا آپ کو اعتماد ہو کہ وہ خود دھو لیں گے۔

اگر مان لیا جائے کا کیا مطلب ہے ؟ فی الواقع آپ نے دھونے کا حکم نہیں دیا تھا اور یہ صرف طہارت کا احتمال نہیں ہے بلکہ طہارت پر قوی دلیل ہے کیونکہ نبوت کے منصب کا یہ تقاضا ہے کہ جب بھی کوئی شخص غلط کام کرے تو نبی اس کی اصلاح کرے اس وجہ سے نبی کا کسی چیز پر خاموش رہنا اس کے جواز کی دلیل ہوتا ہے کیونکہ نبی کسی غلط کام پر خاموش نہیں رہ سکتا اور یہ جو کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کو ذہول ہوگیا ہو ‘ سو یہ بھی غلط ہے کیونکہ امور تبلیغیہ میں ذہول نہیں ہوتا پھر یہ ایک دفعہ کا واقعہ تو نہیں ہے متعدد مرتبہ آپ کے سامنے خون پیا گیا اور آپ نے کسی مرتبہ منہ دھونے کا حکم نہیں دیا۔ کیا ہر بار ذہول ہوگیا تھا ؟ اور یہ جو کہا ہے کہ آپ کو یہ اعتماد تھا کہ وہ خود دھو لیں گے ‘ یہ بھی غلط ہے۔ آپ کو یہ اعتماد تو تب ہوتا جب آپ یہ جانتے کہ صحابہ کے نزدیک آپ کے فضلات نجس ہیں۔ وہ تو آپ کے فضلات کو پاک سمجھتے تھے اور ان کو پیتے تھے تو پھر آپ کو ان کے دھونے پر اعتماد کیسے ہوتا ! ملا علی قاری نے لکھا ہے ہاں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آپ نے ان میں سے کسی کو دیکھا کہ وہ منہ دھوئے بغیر نماز پڑھ رہا ہے اور آپ نے اس پر سکوت فرمایا اور اس کو مقرر رکھا تو پھر طہارت ثابت ہوگی۔

یعنی اگر کوئی شخص مثلاً صبح سے ظہر تک یا ظہر سے عصر تک اپنے منہ پر کوئی ناپاک چیز لگائے رکھے تو ملا علی قاری کے نزیک حضور اس کو اس لئے منع نہیں کریں گے کہ یہ ابھی نماز نہیں پڑھ رہا۔ کیا نماز کے علاوہ باقی اوقات میں منہ پر ناپاک چیز لگائے رکھنا جائز ہے ؟ اور نماز کے علاوہ کوئی شخص اپنے منہ پر خون یا پیشاب مل لے تو کوئی حرج نہیں ہے ؟ اس لئے فضلات کریمہ کی طہارت پر ملا علی قاری کا یہ اعتراض بھی غلط ہے۔

قاضی عیاض نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو پیشاب یا خون دوبارہ پینے سے منع نہیں فرمایا اور یہ ان کی طہارت کی دلیل ہے۔ ملا علی قاری اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

منع کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب کسی شخص نے عمداً اور بلا ضرورت یہ کام کیا ہوتا اور عنقریب روایت میں آرہا ہے کہ حضرت بر کہ نے لاعلمی میں پیشاب پیا تھا (یعنی ان کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ پیشاب ہے) اور ابن عبدالبر نے روایت کیا ہے کہ سالم بن ابی الحجاج نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فصد لگائی اور خون پی لیا تو آپ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ ہر خون حرام ہے ؟ اور ایک روای تمہیں ہے دوبارہ نہ پینا کیونکہ ہر خون حرام ہے۔ (شرح الشفاء ج ١ ص ١٧١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٢١ ھ)

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ :

صحابہ میں سے جس نے بھی آپ کا خون یا پیشاب پیا تھا وہ کسی ضرورت سے نہیں پیا تھا بلکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت اور عقیدت کی وجہ سے پیا تھا اور عمداً پیا تھا۔ خون اور پیشاب پینے کے متعدد واقعات ہیں۔

علامہ شہاب الدین خفاجی متوفی ١٠٦٩ ھ لکھتے ہیں :

حاکم اور دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حضرت ام ایمن بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کو ایک جانب رکھے ہوئے مٹی کے برتن میں پیشاب کیا۔ میں رات کو اٹھی۔ میں پیاسی تھی۔ میں نے اس کو پی لیا۔ دراں حالیکہ مجھے پتا نہیں تھا۔ جب صبح ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ام ایمن ! اس برتن میں جو کچھ ہے اس کو پھینک دو ۔ میں نے کہا اس میں جو کچھ تھا وہ میں نے پی لیا۔ آپ ہنسے اور فرمایا بخدا تمہارے پیٹ میں کبھی درد نہیں ہوگا اور امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے خبر دی گئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکڑی کے ایک پیالے میں پیشاب کرتے تھے جس کو آپ کے تخت کے نیچے رکھا جاتا تھا۔ ایک دن آپ نے وہ پیالہ دیکھا تو اس میں کچھ نہیں تھا۔ ایک عورت جس کا نام بر کہ تھا جو حضرت ام حبیبہ کی خادمہ تھی اور ان کے ساتھ حبشہ سے آئی تھی۔ آپ نے اس سے پوچھا اس پیالہ میں جو پیشاب تھا وہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا اس کو میں نے پی لیا۔ آپ نے فرمایا اے ام یوسف ! تم صحت مند رہو گی۔ ابن وحیہ نے کہا یہ دو مختلف عورتوں کے دو مختلف واقعے ہیں۔ پہلی عورت بر کہ ام ایمن ہیں اور دوسری عورت بر کہ ام یوسف ہیں۔ (نسیم الریاض ج ٢ ص ٣٤‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٢١ ھ)

ملا علی قاری نے بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ دو واقعے ہیں۔ (شرح الشفا ج ١ ص ١٧٢ ذ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٢١ ھ)

ب یہ واضح ہوگیا کہ یہ دو واقعے ہیں اور یہ قول کہ میں نے لاعلمی میں پیا تھا۔ حضرت بر کہ ام ایمن کا ہے اور حضرت بر کہ ام یوسف کے واقعہ میں یہ قول نہیں ہے کہ میں نے لا علمی میں پیا تھا۔ اس لئے ملا علی قاری کا مطلقاً یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پینے والوں نے عمداً اور بلا ضرورت نہیں پیا۔

اسی طرح حضور کا خون پینے کے بھی متعدد واقعات ہیں۔ علامہ عینی نے لکھا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم سے نکلا ہوا خون پیا۔ ان میں ابو طیبہ نام کے فصد لگانے والے ہیں اور قریش کا ایک لڑکا ہے جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فصد لگائی تھی اور حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خون پیا۔ یہ روایات بزار ‘ طبرانی ‘ حاکم ‘ بیہقی اور ابو نعیم کی حلیہ میں ہیں اور حضرت علی (رض) سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے آپ کے جسم سے نکلا ہوا خون پیا۔

(عمدۃ القاری ج ٣ ص ٥٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٢١ ھ)

ان احادیث میں سے کسی میں یہ مذکور نہیں ہے کہ انہوں نے لا علمی میں خون پیا ‘ صرف حضرت ام ایمن کی روایت سے اس اشعر کا لفظ دیکھ کر مطلقاً یہ کہنا کہ ” حضور دو بارہ پینے سے اس وقت منع کرتے جب پینے والوں نے بلا ضرورت اور عمداً پیا ہوتا “ سخت مغالطہ آفرینی ہے۔

اس کے بعد ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ : سالم بن الحجاج نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فصد لگائی اور خون پی لیا تو آپ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ ہر خون حرام ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دوبارہ نہ پینا کیونکہ ہر خون حرام ہے۔

ہر خون کا حرام ہونا اور اسی طرح آپ کے خون کا بھی حرام ہونا طہارت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ یہ حرمت کرامت کی بنا پر ہے۔ نجاسب کی بنا پر نہیں ہے۔ دراصل اس عبارت سے ملاعلی قاری ‘ قاضی عیاض پر یہ رد کرنا چاہتے ہیں کہ قاضی عیاض نے یہ استدلال کیا تھا کہ اگر آپ کے فضلات نجس ہوتے تو آپ کسی کو دوبارہ پینے سے منع کرتے۔ سو ملا علی قاری نے ابن عہد البر کے حوالے سے یہ لکھا کہ ایک روایت میں ہے : لا تعد فان الدم کلہ حرام۔ ” دوبارہ نہ پینا کیونکہ ہر خون حرام ہے۔ “ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے ابن عبدالبر کی کتاب کو دیکھا اس میں سالم کے تذکرہ میں فصد کا یہ واقعہ مذکور ہے لیکن ” لا تعدفان الدم کلہ حرام “ کا ذکر نہیں اور ملا قاری کے استدلال کا مرکزی نقطہ یہی ہے ‘ ابن عبدالبر کی اصل عبارت یہ ہے :

ترجمہ (الاستیعاب ج ٢ ص ١٣٧‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٥ ھ)…سالم ایک صحابی ہیں ‘ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فصد لگائی اور فصد کا خون پی لیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ ہر خون حرام ہے۔

علامہ ابن عبدالبر نے فی روایۃ لا تعد نہیں لکھا اور اگر ملا علی قاری کا مطلب یہ ہے کہ کسی اور نے لکھا ہے یا کسی اور روایت میں ہے تو ملا علی قاری نے اس کا حوالہ نہیں دیا اور جو چیز مذاہب اربعہ کے جمہور علماء کا مختار ہو اور مستند احادیث سے ثابت ہو اس کو ایک بےسند اور مجبول روایت کی بنیاد پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

اللہ تعالیٰ ملا علی پر رحم فرمائے۔ ہوسکتا ہے کہ اس تمام بحث سے ان کا مقصود یہ ہو کہ فضلات کریمہ کی طہارت ایک ظنی مسئلہ ہے اس پر کوئی دلیل قطعی نہیں ہے کیونکہ جن وجوہ سے استدلال کیا گیا ہے ان پر اعتراضات ہوسکتے ہیں۔ ملا علی قاری کی طرف سے اس توجیہ کی وجہ یہ ہے کہ ملا علی قاری نے اپنی دوسری تصانیف میں اس کے برخلاف لکھا ہے۔

فضلات کریمہ سے متعلق بعض احادیث کی فنی حیثیت اور اس مسئلہ میں جمہور علماء کا موقف

ملا علی قاری حنفی شرح شمائل ترمذی میں لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضلات کے متعلق امام طبرانی نے سند حسن یا سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں آپ کو بیت الخلاء میں جاتے ہوئے دیکھتی ہوں پھر جو شخص آپ کے بعد بیت الخلا میں جاتا ہے وہ آپ سے خارج ہونے والی کسی چیز کا کوئی اثر نہیں دیکھتا۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ کیا تم نہیں جانتیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو یہ حکم دیا ہے کہ انبیاء سے جو کچھ خارج ہو وہ اس کو نگل لے۔ اس حدیث کو امام ابن سعد نے ایک اور سند سے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے مستدرک میں ایک دوسری سند سے روایت کیا ہے۔ علامہ ابن حجر نے یہ کہا ہے کہ امام بیہقی کا یہ کہنا کہ یہ حدیث حسن ابن علوان کی موضوعات میں سے ہے اور اس کا ذکر مناسب نہیں ہے کیونکہ احادیث صحیحہ مشہورہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قدر معجزات کا ذکر ہے جو حسن بن علوان کے کذب سے مستغنی کردیتے ہیں۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص ٧٠‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) ۔ امام بیہقی کی یہ عبارت بالخصوص ابن علوان کے روایت کردہ متن پر محمول ہے اور وہ یہ ہے : ” کیا تم نہیں جانتیں کہ ہمارے اجسام ارواح اہلت جنت کے مطابق پیدا ہوئے ہیں اور جو کچھ ان سے نکلتا ہے اس کو زمین نگل لیتی ہے۔ “ یا اس حدیث پر موضوع کا حکم لگاناصرف ابن علوان کی سند کے ساتھ مخصوص ہے اور دوسری جنسندوں سے یہ حدیث مروی ہے ان پر موضوع کا حکم نہیں ہے یا امام بیہقی ان اسانید پر مطلع نہیں ہوئے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے (یعنی امام طبرانی ‘ امام ابن سعد اور امام حاکم کی ذکر کردہ اسانید) اور یہ جواب زیادہ ظاہر ہے۔

امام بیہقی کا یہ تبصرہ براز کے متعلق تھا اور پیشاب کا تو بہت صحابہ نے مشاہدہ کیا ہے ‘ آپ کی خادمہ بر کہ ام ایمن نے آپ کا پیشاب پیا اور حضرت ام حبیبہ کی خادمہ بر کہ ام یوسف نے آپ کا پیشاب پیا۔ آپ کا ایک لکڑی کا پیالہ تھا جو آپ کے تخت کے نیچے رکھا جاتا تھا۔ آپ اس میں پیشاب کرتے تھے اور دوسری بر کہ نے اس کو پی لیا تو آپ نے ان سے فرمایا : اے ام یوسف تم تندرست ہوگئیں اور وہ مرض موت کے سوا پھر کبھی بیمار نہیں ہوئیں اور پہلی بر کہ سے یہ روایت ہے کہ رات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھر کی ایک جانب رکھے ہوئے ٹھیکرے میں پیشاب کیا ‘ وہ کہتی ہیں میں رات کو پیاس سے اٹھی اور جو کچھ اس ٹھیکرے میں موجود تھا میں نے اس کو پی لیا اور مجھ کو پتا نہیں چلا (کہ یہ پیشاب ہے) صبح کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ام ایمن جو کچھ ٹھیکرے میں ہے اس کو پھینک دو ۔ میں نے کہا بخدا ! جو کچھ اس میں تھا میں نے پی لیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنسے حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں۔ پھر آپ نے فرمایا : سنو خدا کی قسم تمہارے پیٹ میں کبھی درد نہیں ہوگا۔ علامہ ابن حجر نے کہا ہمارے آئمہ متقدمین اور دوسرے آئمہ کی ایک جماعت نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قضلات طاہر ہیں اور متاخرین کی ایک جماعت کا بھی یہی مختار ہے اور طہارت فضلات پر بکثرت دلائل ہیں اور آئمہ نے اس کو آپ کی خصوصیات میں سے شمار کیا ہے۔ (فتح الباری ج ١ ص ٣٦٦‘ بیروت)

ایک قول یہ ہے کہ اس کا سبب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شق صدر اور آپ کے باطن کو دھونا ہے۔

(جمع الوسائل ج ٢ ص ٣۔ ٢‘ مطبوعہ نور محمد صح المطابع کراچی)

القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 80