حدیث نمبر 613

روایت ہے انہی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اگر جمعہ کے دن تو اپنے ساتھی سے کہے کہ چپ رہو جب کہ امام خطبہ پڑھتا ہو تب بھی تم نے بہوےدہ کام کیا ۱؎(مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ اس سے معلوم ہوا کہ خطبہ کے وقت دینی بات کرنا بھی منع ہے۔دیکھو ا س وقت خاموشی کا حکم دینا امربالمعروف ہے مگر منع ہے لہذا اس وقت تلاوتِ قرآن،سنت و نفل نماز سب ہی منع ہے کہ یہ چیزیں امر بالمعروف سے کم ہیں۔علماء فرماتے ہیں کہ اس حالت میں بولنے والوں کو ہاتھ سے خاموشی کا اشارہ کرے۔خیال رہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت خطبہ ایک شخص کو سنتیں پڑھنے کا حکم دیا وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر خاموش رہے جیسے حضرات حسنین کی آمد پر آپ نے خطبہ بندکردیا انہیں گود میں لے لیا لہذا وہ احادیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ یہاں خطبہ جاری رہنے کی حالت مراد ہے۔یہ بھی خیال رہے کہ خطیب خطبہ روک کر کسی سے کلام کرسکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر فاروق نے حضرت عثمان سے خطبہ کی حالت میں پوچھا کہ دیر میں کیوں پہنچے اور صرف وضو کرکے کیوں آئے،غسل کیوں نہیں کیا۔غرضکہ سامعین کا اور حکم ہے خطیب کا اور حکم اور خطیب بھی تبلیغی کام کرسکتا ہے دنیوی نہیں۔مرقات نے فرمایا کہ خطبہ سے پہلے مؤذن کا لوگوں کو یہ حدیث پڑھ کر سنانا بدعت حسنہ ہے لیکن خطیب کا منبر پر پہنچ کر لوگوں کو سلام کرنا ناجائز۔یونہی خطبے کے دوران میں دعائیہ کلمات پر مؤذن کا اونچی آواز سے آمین کہنا منع۔خیال رہے کہ روافض اپنے خطبوں میں خلفائے راشدین کو گالیاں دیا کرتے تھے ان کے مقابلے میں ا ہل سنت ان کے نام لے کر ان پر درود بھیجتے ہیں۔حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ اہل بیت اطہار کو خطبہ میں گالیاں دیتے تھے تو انہوں نے یہ تلاوت فرمائی:”اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُ بِالْعَدْلِ وَالۡاِحْسٰنِ”الخ۔یہ سب بدعتیں ہیں مگر چونکہ انہیں مسلمان اچھا جانتے ہیں اس لیئے اچھی ہیں۔(مرقاۃ)اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو ہر بدعت کو حرام کہتے ہیں۔