رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا وَرَبُّ الۡمَشَارِقِ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 5
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا وَرَبُّ الۡمَشَارِقِ ۞
ترجمہ:
آسمانوں اور زمینوں کا اور ان تمام چیزوں کا رب جو ان کے درمیان ہیں ‘ وہی تمام مشرقوں کا رب ہے
اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے کی دلیل
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیشک تمہاری عبادت کا مستحق ضرور ایک ہے آسمانوں اور زمینوں کا اور ان تمام چیزوں کا رب جو ان کے درمیان ہیں ‘ وہی تمام مشرقوں کا رب ہے (الصّٰفّٰت : ٥۔ ٤)
پھر فرمایا وہی آسمانوں اور زمینوں کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے کیونکہ آسمانوں اور زمینوں کے نظام کا ایک نہج اور ایک طریقہ پر جاری اور باقی رہنا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اس نظام کا وضع کرنے والا بھی واحد ہے ‘ اسی لیے فرمایا ہے :
لَوْکَانَ فِیْھِمَآ اٰ لِھَۃ ُ ‘ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا اگر آسمانوں اور زمینوں میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ متعدد (الانبیائ : ٢٢) خدا ہوتے تو ضرور ان کا نظام فاسد ہوجاتا۔
اس کے بعد فرمایا : آسمانوں اور زمینوں کا اور ان تمام چیزوں کا رب جو ان کے درمیان ہیں۔ گویا کہ جب لوگ آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی چیزوں کے نظام اور ان کے معمول کی کارکردگی اور طریقہ واحدہ پر ان کے چلن پر غور کریں گے تو ان کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہوگا کہ وہ یہ کہیں کہ عبادت کا مستحق صرف وہی ایک ہے جو اس سارے جہان کا خالق اور مدبر ہے۔
اس آیت میں فرمایا ہے : وہی تمام مشرقوں کا رب ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ مشارق متعد ہیں ‘ مشرق کا معنی ہے سورج کے چمکنے اور روشن ہونے کی جگہ ‘ اور سورج ایک خاص جگہ سے طلوع ہوتا ہے اور دوسرے دن اس سے اگلے درجہ سے طلوع ہوتا ہے۔ سال میں جتنے دن ہوتے ہیں سورج کے طلوع اور غروب کے اتنے درجات ہوتے ہیں اس لیے کہا گیا ہے کہ سورج تین سو ساٹھ درجات ہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 5