سیدنا صدیق اکبر افضل ہیں یا جبریل امین
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم نے میٹرک بھی نہیں کیا تھا اورکچھ کچھ خود کو عالم فاضل سمجھنے لگے تھے ، ایک دن ہم نے کسی سے سُنا کہ اہل علم کے درمیان یہ مباحثہ رہا کہ سیدنا صدیق اکبر افضل ہیں یا جبریل امین۔۔۔اب کہاں وہ اہلِ علم اور کہاں ہم۔
موضوع بہت زبردست ہاتھ لگانفس امارہ نے اسے اور بھڑکا دیا ، آتا جاتا کچھ تھا نہیں ہمیں ،ہم نے سوچا چلو ابا جان کے پاس چلتے ہیں اور انہیں آج بتاتے ہیں کہ ہمیں بھی بڑے بڑے مسئلے پتہ ہیں ۔
ہم نے اپنے والد صاحب سے کہا: ابو ایک بات بتائیے ، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور جبریل امین میں کون افضل ہے ؟
ہمارے والد صاحب بہت شفیق تھے ہم پر ، بہت محبت کرنے والے تھے اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر رحمت و رضوان کی بارشیں فرمائے (آمین)والد صاحب نے مزاج کے بر خلاف ہمیں تیز نظروں سے دیکھا اور سخت الفاظ کے ساتھ کہا: تمہیں اس سے کیا لینا دینا تم سے قیامت کےدن یہ سوال نہیں ہو گا ان سوالات کی تیاری کرو جس کے تم نے کل جواب دینے ہیں ۔
اسی طرح ایک دفعہ اور ہم کچھ اسی طرح کا مسئلہ لیے اپنے مطالعے کی دھاک دکھانے کے لیے پھر ایک اسی طرح کا مسئلہ لے کر پہنچ گئے پہلے کی طرح اب دوبارہ ڈانٹ پڑی اور ہم اس روش سے باز آگئے ۔
آج دن بدن ایک بات شدت پکڑتی جا رہی ہے، مطالعہ ہے نہیں ،دین کی خدمت کا جذبہ بھی نہیں ہے اور ان نادان گفتار کے مجاہدین کے ہاتھوں میں جملوں کی تیز دھار کلہاڑیاں زبان پر تکبیریں اورشجر اسلام پر پے درپہ وار جاری ہیں ۔
عبد اللہ ابن سبا مجوسی نے جس آگ کو بھڑکا کر مسلمانوں کا خون بہایا تھا اس کی ذریت آج پھر کسی نئے محاذ کو گرمانا چاہتی ہے ۔۔۔
میں اپنے نوجوان دوستوں سے مخاطب ہوں ۔
اے نوجوانو! تم سنو !
ماضی کی طرح یہ آگ اہل مجوس نے بھڑکائی ہے ۔۔۔
آپ دیکھو گے یہ دو نمبر پیر ، گدی نشین ، جوشیلی و جذباتی تقریروں کے موجد ،ذہنی عیاشی کرانے والے خطیب یہ تمہیں اس آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں ۔۔۔
تمہیں سوچنا چاہیے !
یہ تمہاری معاشرت ، معیشت اور اخلاق و کردار کے لیے فکر مند کیوں نہیں ہوتے ؟
ان کی توانائیاں اسلام کی نشاۃثانیہ کے لیے کیوں نہیں ؟
ان کا مال اشاعت دین میں خرچ ہوتا کیوں نہیں دکھائی دیتا ؟
یہ عالم کفر کو تہہ و بالا کرنے کے بجائے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار کیوں چاہتے ہیں ؟
ان کی للکار و جرات کا میدان ، میدان ِ اسلام ہی کیوں ہے ؟
یہ رسول اللہ ﷺ کے چمن کو کیوں اجاڑنے پر مصرہیں ؟
میرے دوستو!
دین کو باز بنا کر مساکین کا مال شکار کرنے والے یہ بڑے بڑے نامور لفافہ خطیب و نعت خواں اور ان بانجھ بحثوں کو تقویت دینے والے قلمی تاجر وں سے خود کو بچاؤ ۔
تمہیں ایک حکایت سُناتا ہوں شاید تمہیں میری بات سمجھ آجائے اور تمہاری توانائیاں اور صلاحیتیں اسلام کے کام آجائیں ۔
ایک بستی میں ایک شخص کا انتقال ہو گیا جنازہ تیار ہو ا اور جب لوگ اس جنازے کو لے کر قبرستان لے جانے لگے تو ایک آدمی نے چارپائی کو دونوں ہاتھوں سےپکڑ لیا اور کہنے لگا کہ مرنے والے نے میرے پندرہ لاکھ روپے دینے ہیں ،پہلے مجھے پیسے دو پھر اس کو دفن کرنے دوں گا تما م لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
بیٹوں نے کہا : بھئی ہمیں مرنے والے نے ہمیں ایسی کوئی بات نہیں بتائی تھی اس لیے ہم نہیں دے سکتے مرنے والے کے بھائیوں نے کہا جب بیٹے نہیں دے رہے تو ہم کیوں دیں ؟
کافی دیر اس بحث میں گزر گئی بیٹے پیسے دینے کو تیار نہیں اور وہ شخص چارپائی چھوڑنےکو راضی نہیں بات پہنچتے پہنچتے اندر گھر میں عورتوں تک بھی پہنچ گئی ۔
فوت ہونے والے شخص کی ایک بیٹی بھی تھی جب اس تک یہ بات پہنچی تو اس نے اپنا سارا زیور اور نقد رقم باہر بھیجی اور کہا کہ اللہ کے لئے یہ رقم اور زیور بیچ کے اس کی رقم رکھو اور میرے ابو جان کا جنازہ نہ روکو، میں مرنے سے پہلے سارا قرض ادا کر دوں گی، اور باقی رقم کا جلد بندوبست کر دوں گی۔
اب وہ چارپائی پکڑنے والا شخص کھڑاہوا اور سارے مجمع کو مخاطب کر کے بولا۔۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے مرنے والے سے پندرہ لاکھ روپئے لینا نہیں بلکہ اسکے دینے ہیں اور اس کے کسی وارث کو میں جانتا نہ تھا تو میں نے یہ کھیل کیا، اب مجھے پتہ چل چکا ہے کہ اس کا حقیقی وارث کون ہے۔
بس میرے دوستو! تم بھی جان لو کہ اسلام کے حقیقی جا نشین کون ہیں ؟
زرتشتی فکر کو مسلمانوں پر مسلط کرنےوالے ٹولے سے خود کو علیحدہ کر لو ۔۔۔
سوچو تو سہی ! کل حشر میں اللہ کے نبی ﷺ کو کیا منہ دکھاؤ گے؟
جن کےمتعلق تمہاری زبانیں بے لگا م ہو چکی ہیں ان کی تلواروں نے اہل مجوس کو خاک چٹائی تھی ۔۔۔تکبیر کی صدائیں بلند کیں تھیں اور زلزلے بپاکیے تھے کسریٰ کےمحلات پر ۔۔۔
اب یہ کسریٰ کے کھنڈر نما محلوں میں بیٹھ کر مسلمانوں پر بجلیاں گرا رہے ہیں حبِ اہل بیت و صحابہ کے نام پر ۔۔۔نہ ان کا تعلق جماعت صحابہ سے ہے اور نہ اہل بیت سے ۔۔۔یہ نہ صحابہ کےوفادار ہیں اور نہ اہل بیت کے ۔
تم دیکھو گے ان کےپیروکاروں کو ۔۔۔ ان کی زبانیں بے لگام ہو چکی ہیں ان کے اخلاق و کردار سے مسلمانوں کی عزت و توقیر محفوظ نہیں۔۔۔ ان سے دور ہو جاؤ ۔۔۔ان کو خود سے دور کر دو ۔
اپنی صلاحیتیں اسلام کے لیے وقف کرو دشمنانِ اسلام کے لیے نہیں ۔۔۔تمہاری زبانیں اور قلم تلوار بن جائیں اللہ و رسول ﷺ کے دشمنوں کے لیے ۔۔۔اور تمہارے خیالات و افکار میں محبت و الفت کے وہ پھول کھلیں کہ اللہ اور اس کا محبوب ﷺ خوش ہو جائیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سچا مسلمان بنائے ۔۔۔اسلام پر زندہ رکھے اور اسلام پر موت عطا فرمائے راضی ہوتے ہوئے دین اسلام کی خدمت لے سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت نصیب کر دے آمین ۔
اسمٰعیل بدایونی
07 فروری 2021