أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَسُبۡحٰنَ الَّذِىۡ بِيَدِهٖ مَلَـكُوۡتُ كُلِّ شَىۡءٍ وَّاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ۞

ترجمہ:

پس پاک ہے وہ ذات جس کے دست قدرت میں ہر چیز کی حکومت ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے

ملکوت کا معنی

اس کے بعد فرمایا : پس سبحان ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکوت ہے۔ (یٰسٓ: ٨٣)

ملکوت کا لفظ اللہ تعالیٰ کی ملک کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ مصدر ہے اور اس میں تا کو داخل کردیا گیا ہے ‘ جیسے رحموت اور رھبوت میں ہے اور ملکوت کا معنی اللہ تعالیٰ کی مملکت اور اس کی سلطنت ہے یعنی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہیں۔

(المفردات ج ٤ ص ٦١١‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)

اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے اور ہر چیز اس کے قبضہ اور اس کے تصرف میں ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے اور پھر وہ تم کو تمہارے اعمال کی جزا دے گا ‘ اس میں صالحین کے لئے اجر وثواب کا وعدہ اور بشارت ہے اور مجرموں کے لئے سزا اور عذاب کی وعید ہے۔

سورۃ یٰسٓ کا اختتام

حضرت معقل بن یسار (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے مردوں پر سورة یٰسٓ کی قرات کرو۔

(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١٢١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٤٨‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٢٣٧‘ مسند احمد ج ٥ ص ٢٧۔ ٢٦‘ المعجم الکبیر ج ٢٠‘ رقم الحدیث : ٥١٠‘ المستدرک ج ١ ص ٥٦٥‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٣ ص ٣٨٣)

مردوں کے پاس سورة یٰسٓ پڑھنے کی حکمت یہ ہے کہ اس وقت انسان کے قوی کمزور ہوتے ہیں اور اعضاء بھی نحیف ہوتے ہیں لیکن اس کا دل اللہ کی طرف بالکلیہ متوجہ ہوتا ہے اور جب اس کے سامنے سورة یٰسٓ پڑھی جاتی ہے تو اس کے قلب کی قوت بڑھ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ اس کی تصدیق مزید قوی ہوجاتی ہے اور اس کے دل میں ان کا نور اور زیادہ ہوجاتا ہے۔

جب انسان پر عالم نزع طاری ہوتا ہے اس وقت اس کی روح عالم ناسوت سے عالم لاہوت کی طرف مائل بہ پرواز ہوتی ہے اور جب اس کو یہ سنایا جاتا ہے پس سبحان ہے وہ ذات جس کے دست قدرت میں ہر چیز کی حکومت ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا اشتیاق اور زیادہ ہوجاتا ہے۔

آج ٢٢ محرم ١٤٢٤ ھ / ٢٦ مارچ ٢٠٠٣ ء بروز بدھ قبیل العصر سورة یٰسٓ کی تفسیر ختم ہوگئی۔ فالحمد اللہ علی ذالک حمد اکثیراو صلی اللہ تعالیٰ علی حبیبہ صلوۃ جزیلا۔ ١٥ جنوری ٢٠٠٣ ء کو اس سورت کی ابتداء کی تھی اس طرح دو ماہ اور بارہ دنوں میں اس سورت کی تفسیر مکمل ہوئی۔ اس دوران میں کافی بیمار رہا۔ کئی بار بخاری آیا۔ کو لیسٹرول کے عوارض بھی رہے۔ بلڈ پریشر بھی بڑھتا رہا اور کافی پریشانیوں کا سامنا رہا۔ میرے ایک ہمدرد اور مہربان ہیں شفیق بھائی۔ انہوں نے مجھے پرہیزی غذائیں مہیا کیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے اور جس طرح انہوں نے دنیا میں میری مشکل حل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں ان کی تمام مشکلات حل فرمائیں۔

الٰہ العٰلمین ! آپ کا اس ناکارہ اور گنہ گار پر بےحد احسان ہے اور بہت فضل و کرم ہے کہ عمر کے اس آخری حصہ میں آپ نے مجھے وہ تمام سہولتیں عطا فرمائیں جن سے میں اس تفسیر کر لکھنے کے قابل ہوسکا اور مجھے ایسی ہمت دی کہ میں اس تفسیر کو لکھ سکا۔ اے میرے مالک اور معبود ! جس طرح آپ نے سورة یٰسٓ کی یہ تفسیر مکمل کرا دی ہے ‘ قرآن مجید کی باقی تفسیر کو بھی مکمل کرا دینا۔ اس تفسیر کو تا قیام ساعت قائم ‘ باقی ‘ مقبول اور اثر آفرین رکھنا۔ موافقین کے لئے موجب استقامت اور مخالفین کے لئے موجب ہدایت بنادینا۔ مجھے ‘ میرے والدین کو ‘ میرے اساتذہ کو ‘ اس تفسیر کے ناشر ‘ مصحح اور کمپوزر کو اور اس کے معاونین ‘ محبین اور قارئین کو محض اپنے فضل و کرم سے بخش دینا۔ دنیا اور آخرت کی تمام پریشانیوں اور مصائب و آلام سے محفوظ اور مامون رکھنا اور دارین کی نعمتوں اور سعادتوں کو ہمارا مقدر بنادینا۔

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین و الصلوۃ والسلام علی حبیبہ سید نا محمد افضل خلقہ و نور عرشہ و علی آلہ و اصحابہ وازواجہ و اولیاء امتہ و امتہ اجمعین۔

القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 83