أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لِّيُنۡذِرَ مَنۡ كَانَ حَيًّا وَّيَحِقَّ الۡقَوۡلُ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ ۞

ترجمہ:

تاکہ وہ زندہ لوگوں کو ڈرائیں اور کافروں پر حق ثابت ہوجائے

پھر فرمایا تاکہ وہ زندہ لوگوں کو ڈرائیں ‘ یعنی یہ قرآن زندہ لوگوں کو ڈرائے۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ لوگوں کو ڈرائیں۔ زندہ لوگوں سے مراد عقل والے ہیں۔ حافظ سیوطی نے امام ابن جریر اور امام بیہقی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ضحاک نے کہا ہے کہ زندہ لوگوں سے مراد عقل والے ہیں اور علامہ آلوسی نے بھی ان ہی سے نقل کیا ہے۔

(الدرالمشورج ٧ ص ٦٢‘ داراحیاء التراث العربی ‘ روح المعانی جز ٢٣‘ ص ٧٣‘ دارالفکر)

اس آیت میں عقل کو حیات سے تشبیہ دی ہے اور عقل سے مراد عقل صحیح ہے۔ بیمار عقل مراد نہیں ہے کیونکہ عقل صحیح ہی حیات ابدیہ کا سبب ہے اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ کفار حقیقت میں مردہ ہیں کیونکہ زندہ وہ ہے جو اپنے دل و دماغ میں اپنے خالق کی معرفت رکھتا ہو اور اس معرفت کے تقاضوں پر عمل کرتا ہو۔ عاقل وہ شخص ہے جو صلاح اور فساد اور صحیح اور غلط اور حق اور باطل میں تمیز رکھتا ہو اور اپنے اعضاء کو صلاح ‘ صحیح اور حق کے تقاضوں پر چلائے اور فساد ‘ غلط اور باطل سے باز رکھے اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ جس قلب میں اللہ کی معرفت کا نور ہو ‘ وہی قلب زندہ ہوتا ہے اور اسی کو اللہ کے عذاب سے ڈرانا مفید ہوتا ہے وہی اس ڈرانے کا اثر قبول کرتا ہے اور دنیا سے اعراض کرکے آخرت اور اپنے مولیٰ اور پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

بعض مفسرین نے کہا زندہ لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ایمان لانے والے ہوں کیونکہ دائمی حیات تو صرف ایمان سے حاصل ہوتی ہے اور در حقیقت زندہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے احکام کی اطاعت کے ساتھ زندہ رہے اور اس کی عبادت کے ساتھ زندہ رہے۔ وہ ظاہری حیات میں بھی زندہ ہوتا ہے اور اپنی وفات کے بعد بھی زندہ ہوتا ہے اور جو اپنی نفسانی خواہشوں کے ساتھ زندہ ہو وہ درحقیقت مردہ ہے اور اس آیت میں زندہ لوگوں کو ڈرانے کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ وہی ڈرانے سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور کفار کے دل حقیقت میں مردہ ہیں۔ وہ ڈرانے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے۔ ان پر صرف حجت قائم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس اپنے نبی اور رسول بھیجے تھے ان کو ایمان لانے اور اعمال صالحہ کرنے کی دعوت دی تھی تاکہ وہ بھی جنت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مستحق ہوجائیں اور ان کو اس لئے دعوت دی کہ کل قیامت کے دن وہ یہ شکوہ نہ کریں کہ ہم کو کسی نے ایمان لانے کی دعوت نہیں دی ورنہ ہم بھی ایمان لے آتے۔

القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 70