وَاتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لَّعَلَّهُمۡ يُنۡصَرُوۡنَؕ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 74
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لَّعَلَّهُمۡ يُنۡصَرُوۡنَؕ ۞
ترجمہ:
اور انہوں نے اللہ کے سوا اور چیزوں کو معبود قرار دیا تاکہ ان کی مدد کی جائے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور انہوں نے اللہ کے سوا اور چیزوں کو معبود قرار دیا تاکہ ان کی مدد کی جائے۔ حالانکہ وہ (بت) کسی کی مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے (بلکہ) وہ (مشرکین) خود ان (کی مدافعت) کے لئے کمر بستہ لشکر ہیں۔ سو ان کی باتیں آپ کو رنجیدہ نہ کریں ‘ بیشک ہم جانتے ہیں جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ (یٰسٓ: 76۔ 74)
توحید کی ترغیب اور شرک کی مذمت
ان کافروں نے اللہ تعالیٰ کے ان عظیم احسانات کو فراموش کردیا اور اس کی قدر ناشناسی کی اور اللہ تعالیٰ کو واحد معبود ماننے کے بجائے ایسے بتوں کی پرستش شروع کردی جو اپنے وجود میں خود ان کے محتاج تھے۔ انہوں نے پتھروں کو تراش خراش کرکے مورتیاں بنائیں اور کہا یہ پچھلے زمانے کے نیک بندوں کی صورتیں ہیں۔ انہوں نے لات ‘ منات ‘ عزیٰ اور ہبل کے نام سے بت بنا ڈالے اور کہا یہ اللہ کے مقبول بندوں کے مجسمے ہیں۔ ان کی پرستش کرنے سے وہ راضی ہوگا۔ پھر ان کی پوجا کرنی شروع کردی ‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم میرے نیک بندوں کی مورتیاں بنائو اور ان کی عبادت شروع کردینا۔ اس کے عوض ہم قیامت کے دن خدا کے سامنے تمہاری شفاعت کریں گے۔ یہ مشرکین اپنے شرک کرنے اور مشرکانہ عقائد پر زور دینے کے لئے ایسا ضرور کہتے ہیں لیکن ان کے پاس اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
ترجمہ (یوسف : ٤٠ )… اللہ کو چھوڑ کر تم جن کی عبادت کررہے ہو وہ محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے خود ہی گھڑ لئے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔
یہ تمہارے خود ساختہ معبود تمہاری مدد کرنے کی سرمو طاقت نہیں رکھتے بلکہ یہ اپنے وجود میں تمہارے محتاج ہیں۔ تم نے ان کو بنایا ‘ پھر ان کے معبود ہونے کا پروپیگنڈا کیا۔ تم نے ان کے سامنے چڑھاوے پیش کئے ‘ منتیں اور مرادیں مانیں۔ ان کے سامنے نذریں گزاریں۔ ان کے آستانوں پر ان کے چرنوں میں جانوروں کا خون بہایا اور بھینٹ چڑھائی۔ یہ تمہاری مدد کیا کریں گے تم تو خود ان کی مدد کرنے پر ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہو۔
ہندوستان میں رام چندر ‘ سیتا اور کرشن کے بت بنائے جاتے ہیں اور ان کی پرستش کی جاتی ہے۔ ان کے نام کی دہائی دی جاتی ہے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور سیدہ مریم کے بت بنا کر ان کی عبادت کرتے ہیں ‘ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ ان بتوں کی خدائی ان مشرکین کے پروپیگنڈے کی مرہون منت ہے اور اصل میں خدا وہ ہے جس کی خدائی کا ثبوت کائنات کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ‘ کوئی اس کو پکارے یا نہ پکارے ‘ کوئی اس کی عبادت کرے یا نہ کرے وہ بہر حال رب العالمین ہے اور چیز سے بےنیاز ہے۔
کفار آپ کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے آپ کو کبھی شاعر کہتے ‘ کبھی کاہن کہتے اور کبھی مجنوں کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی باتیں آپ کو رنجیدہ نہ کریں۔ جب ان کا اپنے خالق اور مالک اور اپنے محسن ‘ منعم اور پروردگار کے ساتھ یہ حال ہے کہ وہ اس کی الوہیت میں بےجان مورتیوں کو درختوں کو اور عناصر کائنات کو شریک کرتے ہیں اور اللہ کا حق کم تر چیزوں کو دے رہے ہیں تو آپ تو پھر بہر حال اس کے بندے ہیں اور نبی ہیں۔ اس کا پیغام لانے والے اور داعی ہیں۔ یہ اگر آپ کو نہیں پہچان رہے تو کیا گلہ ہے یہ تو اپنے رب کو بھی نہیں پہچان رہے !
فرمایا بیشک ہم جانتے ہیں جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں ‘ یعنی ہم ان کو اس کی پوری پوری سزا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے چھپانے کا پہلے ذکر فرمایا کین کہ اللہ عا علم غیب اس کے علم شہادت پر مقدم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جواب غیب ہے وہ بعد میں ظاہر ہوجائے گا اور اس میں یہ ارشاد ہے کہ اے میرے بندو ! باطن کی اصلاح کو ظاہر کی اصلاح پر مقدم رکھو۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 74
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]