أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۞

ترجمہ:

صف باندھے ہوئے ان فرشتوں کی جماعتوں کی قسم جو صف باندھتی ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : صف باندھے ہوئے ان فرشتوں کی جماعتوں کی قسم ! جو صف باندھتی ہیں ! پھر ان ڈانٹنے والے فرشتوں کی جماعتوں کی قسم ! جو ڈانٹتی ہیں پھر قرآن کی تلاوت کرنے والی ان جماعتوں کی قسم جو ذکر کرتی ہیں بیشک تمہاری عبادت کا مستحق ضرور ایک ہے آسمانوں اور زمینوں کا اور ان تمام چیزوں کا رب جو ان کے درمیان ہیں ‘ وہی تمام مشرقوں کا رب ہے ( الصّٰفّٰت : ٥۔ ١)

نماز میں صف بستہ کھڑے ہونے کی فضیلت

علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :

والصّٰفّٰت صفاََ کی تین تفسیریں کی گئی ہیں : (ا) حضرت ابن مسعود ‘ عکرمہ ‘ سعید بن جبیر ‘ مجاہد اور قتادہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں (٢) ضحاک نے حضرت ابن عباس رض اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد آسمان میں عبادت کرنے والے ہیں (٣) نقاش نے کہا اس سے مراد مومنوں کی جماعت ہے جب وہ صف باندھ کر نماز پڑھتے ہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد مشرکین کے خلاف جہاد کرنے والے صف بستہ مجاہدین ہوں ‘ اور یہ زیادہ واضح ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے :

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یْقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَھَمْ بُنْیَانُ مَّرْ صُوْصُٗ (الصّٰفّٰت : ٤)

بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٣٦‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان فرشتوں کی قسم کھائی ہے جو آسمانوں میں صف باندھے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ‘ فرشتوں کے صف باندھنے پر دلیل یہ حدیثیں ہیں :

حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے فرمایا تم اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف باندھتے ہیں ! ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ! فرشتے اپنے رب کے سامنے کس طرح صف باندھتے ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں پھر اس سے متصل صفوں کو پورا کرتے ہیں۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٣٠‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٩١٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٨٤)

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمیں لوگوں پر تین وجوہ سے فضیلت دی گئی ہے ‘ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئی ہیں اور ہمارے لیے تمام روئے زمین کو مسجد بنادیا گیا ہے۔ اور تمام روئے زمین کی مٹی کو ہمارے لیے تیمم کا آلہ بنادیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٢٢‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

اس آیت میں فرشتوں کی فضیلت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کھائی ہے ‘ اور اس آیت میں نماز میں صف باندھنے کی فضیلت ہے اور نماز میں صفیں باندھنے کی فضیلت میں یہ احادیث ہیں :

حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری صفیں درست کرتے تھے گویا تیروں کو سیدھا کرکے رکھا جاتا ہے ‘ حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خیال میں ہم نے اس کو سمجھ لیا ‘ پھر ایک دن آپ باہر نکلے اور تکبیر پڑھنے والے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے بار نکلا ہوا تھا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ کے بندو تم اپنے صفوں کو ہموار رکھا کرو ورنہ تمہارے چہروں کو الٹا کر دے گا ( یا مسخ کردے گا) ۔

( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٣٦‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٦٦٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٧‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٨١٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٢٣٨)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نماز کی اقامت کہی گئی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سامنے تشریف لائے اور فرمایا تم اپنے صفیں قائم کرو اور مل کر کھڑے ہوجاؤ‘ پس بیشک میں تم کو اپنی پشت کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت میں ہے نماز میں صف کو قائم کرو کیونکہ صف کو قائم کرنا نماز کا حسن میں سے ہے۔

(سنن البخاری رقم الحدیث : ٧٢٢۔ ٩١٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤١٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٧٩٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٢٣٨)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 1