أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَنۡ نُّعَمِّرۡهُ نُـنَكِّسۡهُ فِى الۡخَـلۡقِ‌ؕ اَفَلَا يَعۡقِلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور ہم جس کو لمبی عمر دیتے ہیں تو ہم اس کی جسمانی بناوٹ کو (ابتدائی حالت کی طرف) الٹ دیتے ہیں ‘ پس کیا وہ نہیں سمجھتے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم جس کو لمبی عمر دیتے ہیں تو ہم اس کی جسمانی بناوٹ کو (ابتدائی حالت کی طرف) الٹ دیتے ہیں ‘ پس کیا وہ سمجھتے نہیں ہیں اور ہم نے اس نبی کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ یہ ان کے لائق ہے ‘ یہ کتاب تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے تاکہ وہ زندہ لوگوں کو ڈرائیں اور کافروں پر حق ثابت ہوجائے (یٰسٓ : 70۔68)

انسان کی عمروں کے مختلف ادوار

کفاریہ کہہ سکتے تھے کہ ہم دنیا میں بہت کم عرصہ رہے تھے۔ اگر ہم دنیا میں زیادہ عرصہ رہتے تو اے ہمارے رب ! ہمارے ایمان و عمل میں کوئی کمی اور کوتاہی نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس عذر کا رد فرمایا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا تم کو یہ معلوم نہیں کہ تم دنیا میں اپنی عمر کے اس حصہ تک پہنچے تھے جب تمہاری قویٰ کمزور ہوچکے تھے اور ہم نے تم کو اتنی لمبی زندگی دی تھی جس میں تم اگر چاہتے تو غور و فکر کرکے ایمان لاسکتے تھے اور نیک اعمال کرسکتے تھے۔ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے :

ترجمہ (فاطر : ٧٣)… کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں جو شخص نصیحت قبول کرنا چاہتا وہ نصیحت قبول کرلیتا اور تمہارے پاس عذاب سے ڈرانے والا بھی آچکا تھا۔

اسی طرح اس آیت میں فرمایا اور ہم جس کو لمبی عمر دیتے ہیں تو ہم اس کی جسمانی بناوٹ کو (ابتدائی حالت کی طرف) لوٹا دیتے ہیں۔

انسان کی زندگی مختلف ادوار میں گزرتی ہے اور اس کے جسم پر متعدد اور مختلف کیفیات کا ترتب ہوتا ہے۔ اس کی ابتداء تراب (مٹی) سے ہوتی ہے۔ پھر یہ مٹی نبات (سبزہ) کی شکل میں ڈھل جاتی ہے اور سبزہ اس کی غذا بنتا ہے اور غذا خون بناتی ہے ‘ پھر نطفہ بناتی ہے ‘ پھر نطفہ رحم میں جا کر علقۃ (جما ہوا خون) بن جاتا ہے ‘ پھر مضغہ (گوشت کی بوٹی) بن جاتا ہے ‘ پھر اس کو ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں اور اس میں روح ڈال دی جاتی ہے اور جب ماں کے پیٹ میں بچہ کی شکل مکمل ہوجائے تو اس کو جنین کہتے ہیں۔ جب وضع حمل ہوجائے تو اس کو ولید کہتے ہیں ‘ ماں کا دودھ پینے لگے تو اس کو رضیع کہتے ہیں ‘ ٹھوس غذا کھانے لگے تو اس کو فطیم کہتے ہیں ‘ کھیلنے کودنے کی عمر کو پہنچے تو اس کو صبی کہتے ہیں ‘ آنکھوں کو بھانے لگے تو اس کو غلام کہتے ہیں ‘ چہرے پر سبزہ پھوٹنے لگے تو اس کو مراھق کہتے ہیں ‘ بلوغت کو پہنچ جائے تو اس کو بالغ کہتے ہیں۔ جوان ہوجائے تو شاب کہتے ہیں۔ پختہ عمر ہوجائے تو رجل کہتے ہیں۔ جب تیس سال کی عمر ہوجائے تو کہول کہتے ہیں اور چالیس سال کی عمر ہو تو شیخ کہتے ہیں۔ ساٹھ سال کی عمر ہو تو شیخ فانی اور عمر ڈھلتے ڈھلتے جب موت کی دہلیز تک پہنچ جائے ‘ ہڈیاں کمزور ہوجائیں ‘ جسم لاغر ہوجائے ‘ حافظہ خراب ہوجائے تو اس کو ارذل عمر کہتے ہیں اور پھر اس کے بعد وہ میت ہوجاتا ہے اور مرنے کے بعد پھر تراب (مٹی) ہوجاتا ہے۔ مٹی سے اس کی ابتدا ہوئی تھی اور پھر بالآخر مٹی بن جاتا ہے۔

سو انسان کی عمر کا کارآمد حصہ وہ ہوتا ہے جب وہ جوان ہوتا ہے لہٰذا عمر کے اس حصہ کی قدر کرنی چاہیے اور اس عمر میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنی چاہئیں ‘ حدیث میں ہے :

حضرت عمرو بن میمون (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے فرمایا : پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو ‘ اپنی زندگی کو موت آنے سے پہلے اور اپنی فراغت کو اپنے مشغول ہونے سے پہلے اور اپنی خوشحالی کو اپنی تنگ دستی سے پہلے اور اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے اور اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧ ص ٩٩‘ رقم الحدیث : ٨٠٣٤٣‘ المستدرک ج ٤ ص ٦٠٣‘ حلیۃ الاولیاء ج ٤ ص ٨٤١‘ الترغیب و الترہیب ج ٤ ص ١٥٢‘ مشکوۃ رقم الحدیث : ٤٧١٥‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٠٩٤٣٤)

حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابن آدم قیامت کے دن اس وقت تک اپنے رب کے سامنے سے اپنے قدم ہٹا نہیں سکے گا جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال نہ کرلیا جائے۔ اس نے اپنی عمر کس چیز میں فنا کی۔ اس نے اپنی جوانی کو کن کاموں میں بوسیدہ کیا۔ اس نے کہاں سے مال حاصل کیا اور کن مصارف میں خرچ کیا اور اس نے اپنے علم کے مطابق کیا عمل کیا۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦١٤٢‘ مسند ابیعلیٰ رقم الحدیث : ١٧٢٥‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث ٢٧٧٩‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٠٦٧ )

انسان کی مختلف عمروں کے متعلق احادیث

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس شخص کی عمر اسلام میں چالیس سال تک پہنچا دے ‘ اللہ تعالیٰ اس سے کئی قسم کی بلائوں کو دور کردیتا ہے۔ جذام کو ‘ برص کو اور شیطان کے غضب ناک کرنے کو اور اللہ تعالیٰ جس شخص کی عمر اسلام میں پچاس سال تک پہنچا دے ‘ اللہ تعالیٰ اس پر حساب کو آسان کردیتا ہے۔

(مسند البزار رقم الحدیث : ٧٨٥٣‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٦٥٧١)

حضرت انس (رض) سے دوسری روایت ہے ‘ اللہ تعالیٰ جس شخص کی عمر اسلام میں پچاس سال تک پہنچا دے ‘ اللہ تعالیٰ اس سے تخفیف کے ساتھ حساب لیتا ہے اور اس کو اللہ کی طرف ایسی توبہ اور رجوع عطا فرماتا ہے جو اس کو پسند ہے اور جس شخص کی عمر اللہ تعالیٰ اسلام میں ستر سال تک پہنچا دے ‘ اس سے تمام آسمان والے اور زمین والے محبت کرتے ہیں اور جس شخص کی عمر اللہ تعالیٰ اسلام میں اسی (٠٨) سال تک پہنچا دے ‘ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کی نیکیاں لکھ دیتا ہے اور جس شخص کی عمر اللہ تعالیٰ اسلام میں نوے سال تک پہنچا دے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے وہ زمین میں اللہ تعالیٰ کا قیدی ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے گھر والوں کی شفاعت کرے گا۔(مسند البزار رقم الحدیث : ٨٨٥٣‘ حافظ الہیثمی نے کہا یہ حدیث امام بزار نے دو سندوں سے روایت کی ہے اور ان میں سے ایک سند کے رجال ثقات ہیں ‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ٢٦٤٧١‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٩٤٢٤۔ ٨٤٢٤۔ ٦٣٢٤‘ مسند احمد ج ٢ ص ٩٨)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جس شخص کی عمر ساٹھ سال تک پہنچا دی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر حجت پوری کردی اور اس کا کوئی عذر باقی نہیں رہا۔(مسند احمد ج ٢ ص ٧١٤‘ سنن کبریٰ للہبیہقی ج ٣ ص ٠٧٣‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٦٦٤٢٢)

حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس شخص کی عمر ستر (70) سال تک پہنچا دی تو عمر میں اس پر اپنی حجت پوری کردی اور اس کا کوئی نہیں رہا۔(المستدرک ج ٢ ص ٨٢٤‘ حافظ سیوطی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٧٦٨٨)

ارذل عمر کی تحقیق

ترجمہ (النحل : ٠٧)… اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر وہی تم کو وفات دے گا اور تم میں سے بعض کو ارذل (ناکارہ) عمر کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے تاکہ انجام کار وہ حصول علم کے بعد کچھ بھی نہ جان سکے۔

حضرت سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازوں کے بعد ان چیزوں سے پناہ طلب کرتے تھے۔ اے اللہ میں بزدلی سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ ! میں اس سے تیری پناہ میں آتا ہوں کہ مجھے ارذل عمر کی طرف لوٹا دیا جائے اور میں دنیا کی آزمائش سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور میں عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٢٨٢‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٥٤٣١)

ارذل العمر کی تشریح میں علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی متوفی ٥٥٨ ھ لکھتے ہیں :

یعنی انسان اس قدر بوڑھا ہو کہ کم زور ہو کر اپنے بچپن کی ابتدائی حالت کی طرف لوٹ جائے۔ اس کی سماعت اور بصارت کمزور ہوجائے۔ اس کی عقل کام نہ کرے اور سمجھ میں کوئی بات نہ آئے۔ وہ فرائض کو ادا نہ کرسکے اور اپنے ذاتی کام نہ کرسکے۔ اپنی پاکیزگی اور صفائی کا خیال نہ رکھ سکے اور اپنے گھر والوں پر بوجھ ہوجائے اور وہ اس کی موت کی تمنا کرنے لگیں اور اگر اس شخص کا گھر بار نہ ہو اور وہ بالکل تنہا ہو تو اس سے بڑی اور کیا مصیبت ہوگی !(عمدۃ القاری ج ٤١ ص ٨٦١۔ ٧٦١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٢٤١ ھ)

ابن قتیبہ نے کہا ارذل عمر کا معنی یہ ہے کہ جن چیزوں کا اسے پہلے علم تھا بڑھاپے کی شدت کی وجہ سے اس کا وہ علم زائل ہوجائے۔

زجاج نے کہا اس کا معنی یہ ہے کہ تم میں سے بعض لوگ اس قدر بوڑھے ہوجائیں گے کہ ان کی عقل فاسد اور خراب ہوجائے گی اور وہ عالم ہونے کے بعد جاہل ہوجائیں گے۔ (زادالمسیر ج ٤ ص ٨٦٤۔ ٧٦٤‘ المکتب الاسلامی بیروت ‘ ٢١٤١ ھ)

علماء عالمین اور اولیاء اللہ کا ڈھلتی ہوئی عمر میں ارذل عمر کے اثرات سے محفوظ رہنا

یہ عام لوگوں کا حال ہے کہ چالیس سال کے بعد ان کا دور انحطاط شروع ہوجاتا ہے ‘ ان کی سماعت اور بصارت معمول پر نہیں رہتی اور ان کے اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں اور ان کا بدن لاغر ہوجاتا ہے۔ ان کا حافظہ خراب ہوجاتا ہے اور ان کی عقل کام نہیں کرتی۔ وہ بچوں کی سی باتیں کرنے لگتے ہیں اور ان کی ذہانت اور فطانت ختم ہوجاتی ہے اور جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوتا ہے جیسے علماء اور اولیاء اللہ ہیں ‘ وہ ساٹھ سال کے بعد بھی مضبوط اور توانا ہوتے ہیں۔ ان کے حواس قائم رہتے ہیں اور ان کا بدن متحرک اور فعال ہوتا ہے۔ ان کے اعصاب قوی اور ان کی عقل وقاد ‘ روشن اور نکات آفریں ہوتی ہے۔ الحمد اللہ علی احسانہ خود راقم الحروف کی عمر سرسٹھ (٧٦) سال سے متجاوز ہے۔ اس کے باوجود اس کے اعصاب اور حواس قائم ‘ متحرک اور فعال ہیں۔ سترہ اٹھارہ سال پہلے جب میں کراچی آیا تھا تو میری دائیں آنکھ کا نمبر ٥.٣ اور بائیں آنکھ کا نمبر ٗ ٥.٤ تھا۔ اب دائیں آنکھ کا نمبر ٥.٢ اور بائیں آنکھ کا نمبر ٥.٣ ہے اور قریب کا لکھنے پڑھنے کا کام میں چشمہ کے بغیر کرلیتا ہوں۔ ٥٨٩١ ء سے شوگر ‘ ہائی بلڈ پریشر اور کو لسٹرول کی زیادتی کا عارضہ ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حافظہ صحیح ہے۔ ان عوارض کی وجہ سے کوئی توانائی بخش غذا نہیں کھا سکتا۔ بران برڈ کے دو یا تین سلائس اور بغیر گوشت کے ابلی ہوئی سبزی پر گزارہ ہے۔ اس کے باوجود ٦٨٩١ ء میں شرح صحیح مسلم کا کام شروع کیا اور ٣٩٩١ ء میں آٹھ ہزار صفحات پر مشتمل اس عظیم شرح کو مکمل کردیا اور ٤٩٩١ ء میں تبیان القرآن کو شروع کیا اور اب ٣٠٠٢ ء میں اس کی نویں جلد قریب الاختتام ہے۔ ظاہر ہے کہ عام مادی اسباب سے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ صرف اللہ کے خصوصی فضل و احسان اور اس کی اعانت سے ہی ممکن ہے۔ یہ تو مجھ ایسے بےعمل اور ناکارہ طالب علم اور دین کے ادنیٰ خادم کا حال ہے کہ ڈھلتی ہوئی عمر اس کے اعصاب ‘ حواس اور عقل پر اثر انداز نہیں ہوئی تو سوچئے جو صالح اور باکردار علماء ہیں اور اولیاء اللہ ہیں ان کی عمر کی زیادتی اور ان کا بڑھاپا انہیں کب کمزور اور بےفیض کرسکتا ہے بلکہ ان کے اعصاب ‘ حواس اور ان کی عقل ہر آن میں پہلے سے زیادہ متحرک اور فعال ہوتے ہیں۔

عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ (النحل : ٠٧) مسلمانوں کے لئے نہیں ہے۔ مسلمان کی عمر جس قدر زیادہ ہوتی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی عزت اور کرامت بڑھتی جاتی ہے اور اس کی عقل اور معرفت بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے اور عکرمہ نے کہا جو شخص قرآن عظیم پڑھتا رہتا ہے وہ ارذل عمر کی طرف نہیں لوٹایا جاتا۔(زادالمسیر ج ٤ ص ٨٦٤‘ المکتب الاسلامی بیروت ٣١٤١ ھ)

میرا گمان یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی جو بےعمل اور بد کردار ہوتے ہیں ‘ حاسد اور متکبر ہوتے ہیں ‘ متفحش اور بد اخلاق ہوتے ہیں ‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ضائع کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ ان کو بطور عقوبت اور سزا دنیا میں ارذل (ناکارہ) عمر کی طرف لوٹا دیتا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس سزا کو ان کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا اور آخرت میں ان کو بخش دے گا۔ اے اللہ ! مجھے ارذل عمر سے محفوظ رکھنا ‘ مجھے کسی پر بوجھ اور بار نہ بنانا ‘ صرف اپنا محتاج رکھنا اور کسی کا محتاج نہ کرنا اور اس دنیا میں چلتے ہاتھ پیروں کے ساتھ اٹھا لینا اور یہی دعا میں اپنی والدہ محترمہ اور ان تمام احباب کے لئے کرتا ہوں جنہوں نے شرح صحیح مسلم اور تبیان القرآن میں میرے ساتھ تعاون کیا اور اسی طرح اپنے قارئین اور محبین کے لئے بھی یہ دعا کرتا ہوں۔

انبیاء (علیہم السلام) کے حواس اور عقل کا ڈھلتی ہوئی عمر میں زیادہ موثر اور فعال ہونا

میں نے یہ لکھا ہے کہ صالح علماء اور اولیاء اللہ کی عمر جوں جوں بڑھتی جاتی ہے ‘ ان کے حواس ‘ اعصاب اور ان کی عقلوں میں زیادتی ہوتی جاتی ہے۔ سو انبیاء (علیہم السلام) کی عمر میں زیادتی تو اس سے کہیں زیادہ ان کی قوتوں میں اضافہ کی موجب ہے۔ دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی عمر ایک سو بیس سال تھی اور اخیر عمر میں ان کی قوت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ملک الموت کے ایک تھڑ مارا تو ان کی آنکھ نکل گئی۔

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی متوفی ٤٧٧ ھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر کے متعلق لکھتے ہیں :

اہل کتاب وغیرھم نے ذکر کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔

(البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٠٢٤‘ دارالفکر بیروت ٨١٤١ ھ)

تورات میں مذکور ہے :

پس خدا وند کے بندہ موسیٰ نے خداوند کے کہے کے موافق وہیں موآب کے ملک میں وفات پائی اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل دفن کیا۔ پر آج تک کسی آدمی کو اس کی قبر معلوم نہیں اور موسیٰ اپنی وفات کے وقت ایک سو بیس برس کا تھا اور نہ تو اس کی آنکھ دھندلانے پائی اور نہ اس کی طبعی قوت کم ہوئی

(کتاب مقدس ص ٢٠٢‘ استثناء باب : ٤٣‘ آیت : ٧۔ ٥‘ بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور ‘ ٢٩٩١ ئ)

اور ملک الموت کو تھپڑ مار کر ان کی آنکھ نکالنے کا واقعہ اس حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ملک الموت کو حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کے پاس بھیجا گیا ‘ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو حضرت موسیٰ نے ان کو تھپڑ مارا اور اور ان کی آنکھ نکال دی۔ ملک الموت اپنے رب کے پاس واپس گئے اور کہا تو نے مجھے ایسے بندہ کی طرف بھیجا ہے جو مرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ لوٹا دی اور فرمایا ان کے پاس جا کر کہو کہ اپنے ہاتھ بیل کی پشت پر رکھ دیں اور جتنے بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے ‘ اتنے سال ان کی عمر بڑھا دی جائے گی۔ حضرت موسیٰ نے پوچھا ‘ اے میرے رب ! پھر کیا ہے ؟ فرمایا پھر موت ہے ! حضرت موسیٰ نے کہا پھر ابھی سہی ! اور اللہ ت عالیٰ سے یہ دعا کی کہ وہ ان کو ارض مقدسہ (بیت المقدس کی سرزمین) کے اتنے قریب کردے جتنا پتھر پھینکے جانے کا فاصلہ ہوتا ہے۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں اس جگہ ہوتا تو میں تم کو سرخ ریت کے ٹیلے کے نیچے راتہ کی ایک جانب ان کی قبر دکھاتا۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٣٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٩٨٠٢‘ مسند احمد ج ٢ ص ٤١٣ طبع قدیم ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٩١٨‘ دارالکتب العلمیہ ‘ رقم الحدیث : ٣٥۔ ٨‘ داراحیاء التراث العربی ‘ رقم الحدیث : ٧٤١٨‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ رقم الحدیث : ٤٩٧٧‘ دارالفکر بیروت ‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٢٢٦ )

امام بخاری نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے ‘ اس میں تھپڑ مارنے کا ذکر ہے ‘ آنکھ نکالنے کا ذکر نہیں ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠٣٣١۔ ٧٠٤٣ )

شیخ انور شاہ کشمیری متوفی ٢٥٣١ ھ نے کہا ہے کہ ان کی صرف آنکھ نکلی کیونکہ وہ ملک الموت تھے ورنہ حضرت موسیٰ کے غضب کے تھپڑ سے ساتوں آسمان ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ (فیض الباری ج ٢ ص ٦٧٤‘ مصر ٧٥٣١ ھ)

اللہ اللہ ! یہ بازوئے کلیم کی طاقت تھی سوچئے پھر بازوئے حبیب کی قوت کا کیا عالم ہوگا !

خصوصاً ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواس اور عقل کا ڈھلتی ہوئی عمر میں زیادہ موثر اور فعال ہونا

ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام نبیوں اور رسولوں سے زیادہ قوی تھے۔ شوال پانچ ہجری میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک اٹھاون سال تھی۔ اس وقت غزوہ خندق واقع ہوا۔ صحابہ کرام خندق کھود رہے تھے۔ کھدائی کے وقت ایک چٹان نکل آئی۔ وہ کسی سے نہیں ٹوٹ رہی تھی لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک ضرب سے وہ چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی۔ اس کی تفصیل اس حدیث میں ہے :

حضرت البراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خندق کھودنے کا حکم دیا ‘ حضرت البراء بن عازب نے کہا کہ خندق کی جگہ میں ایک چٹان نکل آئی ‘ جو کدال اور پھاوڑوں سے نہیں ٹوٹ رہی تھی۔ مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی شکایت کی۔ عوف نے کہا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور فالتو کپڑے رکھ کر چٹان کی طرف اتر گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدال پکڑی اور بسم اللہ پڑھ کر ضرب لگائی تو اس سے تین پتھر ٹوٹ کر گرگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ اکبر ! مجھے ملک شام کی چابیاں دے دی گئیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں اس جگہ سے ملک شام کے سرخ محلات دیکھ رہا ہوں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر بسم اللہ پڑھ کے دوسری ضرب لگائی تو پھر اس چٹان سے تین پتھر ٹوٹ کر گرگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ اکبر ! مجھے ملک فارس کی چابیاں دیدی گئیں اور اللہ کی قسم ! بیشک میں اس جگہ سے اس کے شہروں کو اور اس کے سفید محلات کو دیکھ رہا ہوں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر بسم اللہ پڑھ کر ایک اور ضرب لگائی اور وہ چٹان مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ اکبر ! مجھے یمن کی چابیاں دے دی گئیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اس جگہ سے صنعاء کے دروزے دیکھ رہا ہوں۔

(مسند احمد ج ٤ ص ٣٠٣‘ طبع قدیمذ مسند احمد رقم الحدیث : ٠٠٦٨١‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٥٨٦١‘ مجمع الزوائد ج ٦ ص ١٣١‘ المستدرک ج ٣ ص ٨٩٥‘ البدایہ والنہایہ ج ٣ ص ٩٤٢۔ ٨٤٢ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ حسین کوئی چیز نہیں دیکھی۔ گویا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے میں آفتاب تیرتا تھا اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ سرعت کے ساتھ کسی کو چلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ گویا کہ زمین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لپٹتی جاتی تھی۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلتے ہوئے تھک جاتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پرواہ نہیں ہوتی تھی۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٤٦٣‘ مسند احمد ج ٢ ص ٠٥٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٠٣٦‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٩٤٦٣ )

حضرت ابوہریرہ (رض) سات ہجری میں اسلام لائے تھے۔ گویا کہ وہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر شریف ساٹھ سال تھی۔ حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس عمل کی طاقت رکھتے تھے۔ حضرت انس نے کہا ‘ ہم یہ کہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیس (جنتی) مردوں کی طاقت دی گئی تھی۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٦٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٠٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٠٤١‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٨٠٢١‘ مسند احمد ج ٣ ص ٩٣٢‘ الکامل لابن عدی ج ٦ ص ٠٢٢٢‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٥٨٦٨١)

حضرت رکانہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کشتی لڑی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پچھاڑ دیا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٨٧١‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٨٧٠٤‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢١٤١ )

حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی ٢٥٨ ھ لکھتے ہیں :

ابن خربوز وغیرہ بیان کرتے ہیں کہ رکا نہ کسی سفر سے آئے تو انہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعویٰ نبوت کی خبر دی گئی۔ پھر مکہ کی بعض پہاڑیوں میں ان کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا : اے بھتیجے ! مجھے تمہارے دعویٰ نبوت کی خبر پہنچی۔ اگر لم نے مجھے پچھاڑ دیا تو میں جان لوں گا کہ تم اپنے دعویٰ سے سچے ہو۔ پھر انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کشتی لڑی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پچھاڑ دیا۔ حضرت رکانہ فتح مکہ کے دن اسلام لائے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ کشتی میں پچھڑنے کے بعد اسلام لے آئے تھے۔

(الاصابہ ج ٢ ص ٣١٤‘ رقم الحدیث : ٥٩٦٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 68