وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(۵۳)

اور میرے (ف۱۰۹) بندوں سے فرماؤ (ف۱۱۰) وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو (ف۱۱۱) بےشک شیطان ان کے آپس میں فساد ڈال دیتا ہے بےشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے

(ف109)

ایماندار ۔

(ف110)

کہ وہ کافِروں سے ۔

(ف111)

نرم ہو یا پاکیزہ ہو ، ادب اور تہذیب کی ہو ، ارشاد و ہدایت کی ہو کُفّار اگر بے ہودگی کریں تو ان کا جواب انہیں کے انداز میں نہ دیا جائے ۔

شانِ نُزول : مشرکین مسلمانوں کے ساتھ بدکلامیاں کرتے اور انہیں ایذائیں دیتے تھے انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس کی شکایت کی ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ وہ کُفّار کی جاہلانہ باتوں کا ویسا ہی جواب نہ دیں ، صبر کریں اور یَہْدِیْکُمْ اَللہُ کہہ دیں ۔ یہ حکم قتال و جہاد کے حکم سے پہلے تھا بعد کو منسوخ ہوگیا اور ارشاد فرمایا گیا : یٰۤاَ یُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حق میں نازِل ہوئی ایک کافِر نے ان کی شان میں بیہودہ کلمہ زبان سے نکالا تھا ، اللہ تعالٰی نے انہیں صبر کرنے اور معاف فرمانے کا حکم دیا ۔

رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْؕ-اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْكُمْؕ-وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا(۵۴)

تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے وہ چاہے تو تم پر رحم کرے (ف۱۱۲)یاچاہے تو تمہیں عذاب کرے اور ہم نے تم کو ان پر کَڑوڑا(ذمہ دار)بناکر نہ بھیجا (ف۱۱۳)

(ف112)

اور تمہیں توبہ اور ایمان کی توفیق عطا فرمائے ۔

(ف113)

کہ تم ان کے اعمال کے ذمّہ دار ہوتے ۔

وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(۵۵)

اور تمہارا رب خوب جانتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں(ف۱۱۴)اوربےشک ہم نے نبیوں میں ایک کو ایک پر بڑائی دی (ف۱۱۵) اور داود کو زبور عطا فرمائی (ف۱۱۶)

(ف114)

سب کے احوال کو اور اس کو کہ کون کس لائق ہے ۔

(ف115)

مخصوص فضائل کے ساتھ جیسے کہ حضرت ابراہیم کو خلیل کیا اور حضرت موسٰی علیہ السلام کو کلیم اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حبیب ۔

(ف116)

زبور کتابِ الٰہی ہے جو حضرت داؤد علیہ الصلٰوۃ و السلام پر نازِل ہوئی ، اس میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں سب میں دعا اور اللہ تعالٰی کی ثنا اور اسکی تحمید و تمجید ہے ، نہ اس میں حلال و حرام کا بیان ، نہ فرائض ، نہ حدود و احکام ، اس آیت میں خصوصیّت کے ساتھ حضرت داؤد علیہ والسلام کا نام لے کر ذکر فرمایا گیا ۔ مفسِّرین نے اس کے چند وجوہ بیان کئے ہیں ایک یہ کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا کہ انبیاء میں اللہ تعالٰی نے بعض کو بعض پر فضیلت دی پھر ارشاد کیا کہ حضرت داؤد کو زبور عطا کی باوجود یکہ حضرت داؤد علیہ السلام کو نبوّت کے ساتھ مُلک بھی عطا کیا تھا لیکن اس کا ذکر نہ فرمایا اس میں تنبیہ ہے کہ آیت میں جس فضیلت کا ذکر ہے وہ فضیلتِ علم ہے نہ کہ فضیلتِ ملک و مال ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے زبور میں فرمایا ہے کہ محمّد خاتَمُ الانبیاء ہیں اور ان کی اُمّت خیرُ الاُمَم اسی سبب سے آیت میں حضرت داؤد اور زبور کا ذکر خصوصیّت سے فرمایا گیا ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہود کا گمان تھا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں اور توریت کے بعد کوئی کتاب نہیں اس آیت میں حضرت داؤد علیہ السلام کو زبور عطا فرمانے کا ذکر کر کے یہود کی تکذیب کر دی گئی اور ان کے دعوے کا بطلان ظاہر فرما دیا گیا غرض کہ یہ آیت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فضیلتِ کبرٰی پر دلالت کرتی ہے ۔ قطعہ

ای و صفِ تو در کتابِ موسٰی

وے نعت تو در زبور داؤد

مقصود توئی ز آفرینش

باقی بہ طفیلِ تست موجود ۔

قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا(۵۶)

تم فرماؤ پکارو انہیں جن کو اللہ کے سوا گمان کرتے ہو تو وہ اختیار نہیں رکھتے تم سے تکلیف دو رکرنے اور نہ پھیر دینے کا (ف۱۱۷)

(ف117)

شانِ نُزول : کُفّار جب قحطِ شدید میں مبتلا ہوئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتّے اور مردار کھا گئے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حضور میں فریاد لائے اور آپ سے دعا کی التجا کی ، اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جب بتوں کو خدا مانتے ہو تو اس وقت انہیں پکارو اور وہ تمہاری مدد کریں اور جب تم جانتے ہو کہ وہ تمہاری مدد نہیں کر سکتے تو کیوں انہیں معبود بناتے ہو ۔

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَهٗؕ-اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا(۵۷)

وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں (ف۱۱۸) وہ آپ ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے (ف۱۱۹) اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں (ف۱۲۰) بےشک تمہارے رب کا عذاب ڈر کی چیز ہے

(ف118)

جیسے کہ حضرت عیسٰی اور حضرت عزیر اور ملائکہ ۔

شانِ نُزول : ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا یہ آیت ایک جماعتِ عرب کے حق میں نازِل ہوئی جو جنّات کے ایک گروہ کو پوجتے تھے ، وہ جنات اسلام لے آئے اور ان کے پوجنے والوں کو خبر نہ ہوئی ، اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازِل فرمائی اور انہیں عار دلائی ۔

(ف119)

تاکہ جو سب سے زیادہ مقرّب ہو اس کو وسیلہ بنائیں ۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مقرّب بندوں کو بارگاہِ الٰہی میں وسیلہ بنانا جائز اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ۔

(ف120)

کافِر انہیں کس طرح معبود سمجھتے ہیں ۔

وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا(۵۸)

اور کوئی بستی نہیں مگر یہ کہ ہم اسے روزِ قیامت سے پہلے نِیْسْت(ہلاک ) کردیں گے یا اسے سخت عذاب دیں گے(ف۱۲۱)یہ کتاب میں (ف۱۲۲) لکھا ہوا ہے

(ف121)

قتل وغیرہ کے ساتھ جب وہ کُفر کریں اور مَعاصی میں مبتلا ہوں ۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا جب کسی بستی میں زنا اور سود کی کثرت ہوتی ہے تو اللہ تعالٰی اس کے ہلاک کا حکم دیتا ہے ۔

(ف122)

لوحِ محفوظ میں ۔

وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَؕ-وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَاؕ-وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا(۵۹)

اور ہم ایسی نشانیاں بھیجنے سے یونہی باز رہے کہ انہیں اگلوں نے جھٹلایا(ف۱۲۳)اور ہم نے ثمود کو (ف۱۲۴) ناقہ دیا (اونٹنی دی)آنکھیں کھولنے کو (ف۱۲۵) تو انہوں نے اس پر ظلم کیا (ف۱۲۶)اور ہم ایسی نشانیاں نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کو (ف۱۲۷)

(ف123)

ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما نے فرمایا کہ اہلِ مکّہ نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہا تھا کہ صفا پہاڑ کو سونا کر دیں ا ور پہاڑوں کو سر زمینِ مکّہ سے ہٹا دیں اس پر اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو وحی فرمائی کہ آپ فرمائیں تو آپ کی اُمّت کو مہلت دی جائے اور اگر آپ فرمائیں تو جو انہوں نے طلب کیا ہے وہ پورا کیا جائے لیکن اگر پھر بھی وہ ایمان نہ لائے تو ان کو ہلاک کر کے نیست و نابود کر دیا جائے گا اس لئے کہ ہماری سنّت یہی ہے کہ جب کوئی قوم نشانی طلب کرکے ایمان نہیں لاتی تو ہم اسے ہلاک کر دیتے ہیں اور مہلت نہیں دیتے ، ایسا ہی ہم نے پہلوں کے ساتھ کیا ہے ۔ اسی بیان میں یہ آیت نازِل ہوئی ۔

(ف124)

ان کے حسبِ طلب ۔

(ف125)

یعنی حجّتِ واضحہ ۔

(ف126)

اور کُفر کیا کہ اس کے مِنَ اللہ ہونے سے منکِر ہو گئے ۔

(ف127)

جلد آنے والے عذاب سے ۔

وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِؕ-وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِؕ-وَ نُخَوِّفُهُمْۙ-فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۠(۶۰)

اور جب ہم نے تم سے فرمایا کہ سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں (ف۱۲۸) اور ہم نے نہ کیا وہ دکھاوا (ف۱۲۹) جو تمہیں دکھایا تھا (ف۱۳۰) مگر لوگوں کی آزمائش کو (ف۱۳۱)اور وہ پیڑ جس پر قرآن میں لعنت ہے

(ف128)

اس کے قبضۂ قدرت میں ۔ تو آپ تبلیغ فرمائیے اور کسی کا خوف نہ کیجئے اللہ آپ کا نگہبان ہے ۔

(ف129)

یعنی معائنہ عجائبِ آیاتِ الٰہیہ کا ۔

(ف130)

شبِ معراج بحالتِ بیداری ۔

(ف131)

یعنی اہلِ مکّہ کی چنانچہ جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں واقعۂ معراج کی خبر دی تو انہوں نے اس کی تکذیب کی اور بعض مرتد ہو گئے اور تمسخُر سے عمارتِ بیت المقدس کا نقشہ دریافت کرنے لگے حضور نے سارا نقشہ بتا دیا تو اس پر کُفّار آپ کو ساحر کہنے لگے ۔

(ف132)

یعنی درختِ زقوم جو جہنم میں پیدا ہوتا ہے اس کو سببِ آزمائش بنا دیا یہاں تک کہ ابو جہل نے کہا کہ محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تم کو جہنّم کی آ گ سے ڈراتے ہیں کہ وہ پتّھروں کو جلا دے گی ، پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس میں درخت اگیں گے ، آ گ میں درخت کہاں رہ سکتا ہے یہ اعتراض انہوں نے کیا اور قدرتِ الٰہی سے غافل رہے نہ سمجھے کہ اس قادرِ مختار کی قدرت سے آ گ میں درخت پیدا کرنا کچھ بعید نہیں ، سمندل ایک کیڑا ہوتا ہے جو آ گ میں پیدا ہوتا ہے آ گ ہی میں رہتا ہے ، بلادِ ترک میں اس کے اون کی تولیاں بنائی جاتی تھیں جو میلی ہو جانے پر آ گ میں ڈال کر صاف کر لی جاتیں اور جلتی نہ تھیں ، شتر مرغ انگارے کھا جاتا ہے ، اللہ کی قدرت سے آ گ میں درخت پیدا کرنا کیا بعید ہے ۔

(ف133)

دینی اور دنیوی خوفناک امور سے ۔ (ف۱۳۲)اور ہم انہیں ڈراتے ہیں(ف۱۳۳)تو انھیں نہیں بڑھتی مگر بڑی سرکشی