وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ(۶۱)

اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو (ف۱۳۴) تو ان سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے بولا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا

(ف134)

تحیّت کا ۔

قَالَ اَرَءَیْتَكَ هٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ٘-لَىٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلًا(۶۲)

بولا (ف۱۳۵) دیکھ تو جو یہ تو نے مجھ سے معزز رکھا (ف۱۳۶) اگر تو نے مجھے قیامت تک مہلت دی تو ضرور میں اس کی اولاد کو پیس ڈالوں(بربادکرڈالوں) گا(ف۱۳۷) مگر تھوڑا (ف۱۳۸)

(ف135)

شیطان ۔

(ف136)

اور اس کو مجھ پر فضیلت دی اور اس کو سجدہ کرایا تو میں قَسم کھاتا ہوں کہ ۔

(ف137)

گمراہ کر کے ۔

(ف138)

جنہیں اللہ بچائے اور محفوظ رکھے وہ اس کے مخلص بندے ہیں ، شیطان کے اس کلام پر اللہ تبارک و تعالٰی نے اس سے ۔

قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَاِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَآءً مَّوْفُوْرًا(۶۳)

فرمایا دور ہو (ف۱۳۹) تو ان میں جو تیری پیروی کرے گا تو بےشک تم سب کا بدلہ جہنم ہے بھرپور سزا

(ف139)

تجھے نفخۂ اولٰی تک مہلت دی گئی ۔

وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْؕ-وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا(۶۴)

اور ڈِگا دے (بہکادے)ان میں سے جس پر قدرت پائے اپنی آواز سے (ف۱۴۰) اور ان پر لام باندھ لا(فوجی لشکر چڑھالا) اپنے سواروں اور اپنے پیادوں کا (ف۱۴۱) اور ان کا ساجھی ہو مالوں اور بچو ں میں (ف۱۴۲) اور انہیں وعدہ دے (ف۱۴۳) اور شیطان انہیں وعدہ نہیں دیتا مگر فریب سے

(ف140)

وسوسے ڈال کر اور معصیت کی طرف بلا کر ۔ بعض عُلَماء نے فرمایا کہ مراد اس سے گانے باجے لہو و لعب کی آوازیں ہیں ۔ ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے منقول ہے کہ جو آواز اللہ تعالٰی کی مرضی کے خلاف منہ سے نکلے وہ شیطانی آواز ہے ۔

(ف141)

یعنی اپنے سب مَکر تمام کر لے اور اپنے تمام لشکروں سے مدد لے ۔

(ف142)

زُجاج نے کہا کہ جو گناہ مال میں ہو یا اولاد میں ہو ابلیس اس میں شریک ہے جیسے کہ سود اور مال حاصل کرنے کے دوسرے حرام طریقے اور فسق و ممنوعات میں خرچ کرنا اور زکوٰۃ نہ دینا یہ مالی امور ہیں جن میں شیطان کی شرکت ہے اور زنا و ناجائز طریقے سے اولاد حاصل کرنا یہ اولاد میں شیطان کی شرکت ہے ۔

(ف143)

اپنی طاعت پر ۔

اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌؕ-وَ كَفٰى بِرَبِّكَ وَكِیْلًا(۶۵)

بےشک جو میرے بندے ہیں (ف۱۴۴) ان پر تیرا کچھ قابو نہیں اور تیرا رب کافی ہے کام بنانے کو (ف۱۴۵)

(ف144)

نیک مخلص انبیاء اور اصحابِ فضل و صلاح ۔

(ف145)

انہیں تجھ سے محفوظ رکھے گا اور شیطانی مکائد اور وساوس کو دفع فرمائے گا ۔

رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(۶۶)

تمہارا رب وہ ہے کہ تمہارے لیے دریا میں کشتی رواں کرتا ہے کہ (ف۱۴۶) تم اس کا فضل تلاش کرو بےشک وہ تم پر مہربان ہے

(ف146)

ان میں تجارتوں کے لئے سفر کر کے ۔

وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا(۶۷)

اور جب تمہیں دریا میں مصیبت پہنچتی ہے (ف۱۴۷) تو اس کے سوا جنہیں پوجتے ہو سب گم ہوجاتے ہیں (ف۱۴۸) پھر جب تمہیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے تو منہ پھیر لیتے ہو (ف۱۴۹) اور آدمی بڑا ناشکرا ہے

(ف147)

اور ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔

(ف148)

اور ان جھوٹے معبودوں میں سے کسی کا نام زبان پر نہیں آتا ، اس وقت اللہ تعالیٰ سے حاجت روائی چاہتے ہیں ۔

(ف149)

اس کی توحید سے اور پھر انہیں ناکارہ بُتوں کی پرستِش شروع کر دیتے ہو ۔

اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًاۙ(۶۸)

کیا تم(ف۱۵۰)اس سے نڈر ہوئے کہ وہ خشکی ہی کا کوئی کنارہ تمہارے ساتھ دھنسادے (ف۱۵۱) یا تم پر پتھراؤ بھیجے (ف۱۵۲) پھر اپنا کوئی حمایتی نہ پاؤ (ف۱۵۳)

(ف150)

دریا سے نَجات پا کر ۔

(ف151)

جیسا کہ قارون کو دھنسا دیا تھا ۔ مقصد یہ ہے کہ خشکی و تری سب اس کے تحتِ قدرت ہیں جیسا وہ سمندر میں غرق کرنے اور بچانے دونوں پر قادر ہے ایسا ہی خشکی میں بھی زمین کے اندر دھنسا دینے اور محفوظ رکھنے دونوں پر قادر ہے ، خشکی ہو یا تری ہر کہیں بندہ اس کی رحمت کا محتاج ہے وہ زمین دھنسانے پر بھی قادر ہے اور یہ بھی قدرت رکھتا ہے کہ ۔

(ف152)

جیسا قومِ لوط پر بھیجا تھا ۔

(ف153)

جو تمہیں بچا سکے ۔

اَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ یُّعِیْدَكُمْ فِیْهِ تَارَةً اُخْرٰى فَیُرْسِلَ عَلَیْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیْحِ فَیُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْۙ-ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَیْنَا بِهٖ تَبِیْعًا(۶۹)

یا اس سے نِڈر(بے خوف)ہوئے کہ تمہیں دوبارہ دریا میں لے جائے پھر تم پر جہاز توڑنے والی آندھی بھیجے تو تم کو تمہارے کفر کے سبب ڈبو دے پھر اپنے لیے کوئی ایسا نہ پاؤ کہ اس پر ہماراپیچھا کرے (ف۱۵۴)

(ف154)

اور ہم سے دریافت کر سکے کہ ہم نے ایسا کیوں کیا کیونکہ ہم قادرِ مختار ہیں جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ہمارے کام میں کوئی دخل دینے والا اور دم مارنے والا نہیں ۔

وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠(۷۰)

اور بےشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی(ف۱۵۵)اوران کو خشکی اور تری میں (ف۱۵۶) سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں (ف۱۵۷) اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا (ف۱۵۸)

(ف155)

عقل و علم و گویائی ، پاکیزہ صورت ، معتدل قامت اور معاش و معاد کی تدابیر اور تمام چیزوں پر استیلا و تسخیر عطا فرما کر اور اس کے علاوہ اور بہت سی فضیلتیں دے کر ۔

(ف156)

جانوروں اور دوسری سواریوں اور کشتیوں اور جہازوں وغیرہ میں ۔

(ف157)

لطیف خوش ذائقہ حیوانی اور نباتی ہر طرح کی غذائیں خوب اچھی طرح پکی ہوئی کیونکہ انسان کے سوا حیوانات میں پکی ہوئی غذا اور کسی کی خوراک نہیں ۔

(ف158)

حسن کا قول ہے کہ اکثر سے کل مراد ہے اور اکثر کا لفظ کل کے معنٰی میں بولا جاتا ہے قرآنِ کریم میں بھی ارشاد ہوا وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ اور مَایَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا میں اکثر بہ معنٰی کل ہے لہذا ملائکہ بھی اس میں داخل ہیں اور خواص بشر یعنی انبیاء علیہم السلام خواص ملائکہ سے افضل ہیں اور صلحائے بشر عوام ملائکہ سے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ مومن اللہ کے نزدیک ملائکہ سے زیادہ کرامت رکھتا ہے وجہ یہ ہے کہ فرشتے طاعت پر مجبول ہیں یہی ان کی سرشت ہے ، ان میں عقل ہے شہوت نہیں اور بہائم میں شہوت ہے عقل نہیں اور آدمی شہوت و عقل دونوں کا جامع ہے تو جس نے عقل کو شہوت پر غالب کیا وہ ملائکہ سے افضل ہے اور جس نے شہوت کو عقل پر غالب کیا وہ بہائم سے بدتر ہے ۔