اُحۡشُرُوا الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا وَاَزۡوَاجَهُمۡ وَمَا كَانُوۡا يَعۡبُدُوۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 22
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اُحۡشُرُوا الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا وَاَزۡوَاجَهُمۡ وَمَا كَانُوۡا يَعۡبُدُوۡنَۙ ۞
ترجمہ:
ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو اور جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے ‘( ان سب کو) جمع کرو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو اور جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے (ان سب کو) جمع کرو پھر ان سب کو دوزخ کے راستہ پر لے جاؤ اور ان کو ٹھہراؤ‘ بیشک ان ( سب) سے سوال کیا جائے گا تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ! بلکہ وہ سب آج گردن جھکائے کھڑے ہیں (الصّٰفّٰت : ٢٦۔ ٢٢)
ظالموں کے ازواج کی تفسیر کے متعدد محامل
الصّٰفّٰت : ٢٢ میں احشروا کا لفظ ہے ‘ حشر کے معنی ہے لوگوں کی ایک جماعت کو ان کے گھروں سے نکال کر میدان جنگ میں لے جانا ‘
امام ابن جارودنے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے النساء لایحشرن عورتوں کو میدان ِ جنگ میں نہیں لے جایا جائے گا ‘ اور قیامت کے دن کو بھی یوم حشر کہا جاتا ہے جیسے مردوں کے زندہ کرنے کے دن کو یوم حشر کہا جاتا ہے۔(المفردات ج ١ ص ١٥٧‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)
اس آیت میں الذین ظلمو اکا لفظ ہے ‘ ظلم کا معنی ہے غیر کی ملک میں تصرف کرنا ‘ یا کسی چیز کو اس کے اصل محل اور مقام کے خلاف دوسری جگہ رکھنا ‘ اور یہ ان ظلم سے مراد کفر اور شرک ہے یعنی وہ لوگ جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے :
اِنَّ الِشّرْ کَ لَظُلْمُُ ‘ عَظِیْمُُ ‘ (لقمان : ١٣) شرک کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔
وَالْکٰفِرُوْنَ ھُمْ الظّٰلِمُوْنَ (البقرہ : ٢٥٤) اور کافر ہی ظالم ہیں۔
اور زیادہ تر قرآن مجید میں ظالموں کے متعلق جو وعیدیں آئی ہیں اس سے مراد کفار ہی ہوتے ہیں۔
اس آیت میں فرمایا ہے ظالموں کو اور ان کے ازواج کو جمع کرو ‘ ازواج کی تفسیر میں تین قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ان کے امثال اور نظائر ہیں ‘ اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : اس سے مراد ان کے امثال ہیں ‘ قیامت کے دن ہر شخص اپنی مثل کے ساتھ آئے گا ‘ سودخور ‘ سودخوروں کے ساتھ آئے گا اور زنا کرنے والا زنا کرنے والوں کے ساتھ آئے گا اور شراب خور ‘ شراب خوروں کے ساتھ آئے گا ‘ کچھ جوڑے جنت میں ہونگے اور کچھ جوڑے دوزخ میں ہونگے۔
(البعث والنشور رقم الحدیث : ٩٨۔ ٩٧‘ المستدرک ض ٢ ص ٤٣٠ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٣٦٠٩‘ الدرالمثور ج ٧ ص ٨٤۔ ٨٣‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٥٦٨ )
حضرت ابن عباس (رض) سے دوسرے روایت ہے کہ اس سے مرادظالموں کے پیروکار ہیں۔
حضرت عمر بن الخطاب (رض) سے اے اور روایت یہ ہے کہ ازواج سے مراد کفار کی وہ بیویاں ہیں جو کفر میں ان کی موافقت کرتی تھیں۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٤٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)
نیز اس کے بعد فرمایا اور ان کو بھی جمع کرو جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے۔
اس سے مراد وہ شیاطین ہیں جو ان کو ان کے معبودوں کی عبادت کرنے کی دعوت دیتے تھے ‘ اور اس طرح وہ شیاطین بھی حکماً کے معبود ہوگئے۔ پھر فرشتوں سے فرمایا ان سب کو ہانک کر دوزخ کی طرف لے جاؤ۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 22
[…] تفسیر […]