أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

بَلۡ عَجِبۡتَ وَيَسۡخَرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

بلکہ آپ نے تعجب کیا اور وہ مذاق اڑا رہے ہیں

تعجب کا معنی

قتادہ نے جب یہ قرآن نازل ہوگیا اور کافروں کے لیے ہدایت کے تمام امور بتا دیئے گئے اور پھر بھی کفار اپنی گمراہی پر ڈٹے رہے تو اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعجب ہوا ‘ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گمان یہ تھا کہ جو شخص بھی قرآن مجید کو سنے گا وہ ہدایت کو پالے گا ‘ اور کفار نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑایا ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ نے تعجب کیا اور وہ مذاق اڑا رہے ہیں ( الصّٰفّٰت : ١٢) کسی غیرمعروت اور غیر مانوس چیز کے ادراک کرنے سے جو حالت پیدا ہوتی ہے اس کو تعجب کہتے ہیں ‘

علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے :

کسی چیز کے سبب سے ناواقف ہونے کی وجہ سے جو حالت پیدا ہوتی ہے اس کو تعجب کہتے ہیں ‘ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق کرنا درست نہیں ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے اس سے کو یہ چیز مخفی نہیں ہے ‘ اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کفار جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے ہیں آپ اس پر تعجب کرتے ہیں کیونکہ آپ کے نزدیک یہ امرمحقق اور ثابت ہے اور وہ اپنے جہالت کی وجہ سے آپ کا مذاق اڑاتے ہیں ‘ اور یا اس کے معنی یہ ہے کہ وہ آپ کی نبوت کا اور قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں اور آپ کو ان کے انکار پر تعجب ہے کیونکہ بہ کثرت دلائل اور معجزات سے آپ کی نبوت اور قرآن مجید ثابت ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٤١٩۔ ٤١٨‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)

بعض احادیث میں اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق کیا گیا ہے مگر وہ اطلاق مجازی ہے ‘ ان احادیث میں تعجب کا معنی راضی ہونا اور خوش ہونا ہے۔

مثلاً اس حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو اس قوم پر تعجب ہوتا ہے جو زنجیروں میں جکڑی ہوئی جنت میں داخل ہوگی۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٠١٠‘ مسند احمدرقم الحدیث : ٨٠٠٠‘ عالم الکتب)

اس حدیث کے حسب ذیل معانی ہیں

(١) وہ قوم زنجیروں میں جکڑی ہوئی اسلام میں داخل ہوگی ‘ اور جنت کا اطلاق اسلام پر ہے ‘

(٢) مسلمانوں کا وہ گروہ جس کا کفار نے زنجیروں میں جکڑ کر قید کر رکھا ہوگا اور وہ اسی حل مے مرجائیں گے اور وہ حشر میں اس حال میں داخل ہو نگے یا ان کو اسی حال میں قتل کردیا جائے گا اور ان کو اسی حال میں حشر ہوگا اور اس جنت کا اطلاق حشر پر ہے ‘ کیونکہ وہ حشر سے گزر کر جنت میں جائیں گے۔

(٣) وہ دنیا میں کافروں کی قید میں زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اور آخرت میں جنت میں ہونگے۔

(٤) زنجیروں سے مراد ہے ان کو کھنیچنا ‘ وہ دنیا میں گمراہی میں مبتلا تھے اور اللہ تعالیٰ ان کو گمراہی سے کھینچ کر ہدایت کے راستہ پر لے آیا جو دراصل جنت کا راستہ ہے۔ (عمدۃ القاری ١٤ ص ٣٥٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 12