فَاسۡتَفۡتِهِمۡ اَهُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمۡ مَّنۡ خَلَقۡنَاؕ اِنَّا خَلَقۡنٰهُمۡ مِّنۡ طِيۡنٍ لَّازِبٍ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 11
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاسۡتَفۡتِهِمۡ اَهُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمۡ مَّنۡ خَلَقۡنَاؕ اِنَّا خَلَقۡنٰهُمۡ مِّنۡ طِيۡنٍ لَّازِبٍ ۞
ترجمہ:
سو آپ ان (کافروں) سے پوچھئے آیا ان کا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا جن کو ہم نے ان کے علاوہ پیدا کیا ‘ بیشک ہم نے ان کو لیس دار مٹی سے پیدا کیا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو آپ ان (کافروں) سے پوچھیے آیا ان کا پیدا کرنا زیادہ دشوا رہے یا جن کو ہم نے ان کے علاوہ پیدا کیا ‘ بیشک ہم نے ان کو لیس دار مٹی سے پیدا کیا بلکہ آپ نے تعجب کیا اور مذاق اڑا رہے ہیں اور جب انہیں نصحت کی جائے تو وہ قبول نہیں کرتے اور جب وہ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو تمسخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو صرف کھلا ہوا جادو ہے (الصّٰفّٰت :11-15
مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کیے جانے پر دلیل
الصّٰفّٰت : ١١ میں فاستفتھم کا لفظ ہے ‘ اس کا مادہ فتویٰ ہے ‘ یہ فتیٰ سے ماخوذ ہے ‘ فتی قوی جوان کو کہتے ہیں ‘ مفتی کسی سوال کا جو جواب لکھتا ہے اس کو بھی فتویٰ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اس جواب کو دلائل سے مضبوط اور قوی کرکے لکھتا ہے۔ اور استفتاء کا معنی ہے سوال کرنا۔ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین مکہ سے سوال کیجئے اور ان سے سوال کسی حکم کے معلوم کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ ان پر حجت قائم کرنے کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو اور پہاڑوں اور سمندروں کو سیاروں اور ستاروں کو پیدا کیا ہے ‘ اب بتاؤ ان کو پیدا کرنا مشکل ہے یا دوبارہ انسانوں کو پیدا کرنا مشکل ہے ‘ تو بتاؤ تم انسانوں کے دوبارہ پیدا کرنے کو کیوں مشکل اور بعید سمجھتے ہو !
اللہ تعالیٰ نے انسان کو گیلی اور لیس دار مٹی سے پیدا کیا ہے ‘ اسی کو عربی میں طین لازب کہتے ہیں اور کسی چیز کا پیدا کرنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ یا تو مادہ میں استعداد اور صلاحیت نہ ہو اور یا فاعل میں قدرت نہ ہو ‘ لیس دار مٹی میں تمہارے خمیر بنائے جانے کی صلاحیت ہے سو تم جب مٹی ہوجاؤ گے تب بھی اس مٹی میں بنائے جانے کی صلاحیت رہے گی ‘ اور فاعل اللہ تعالیٰ ہے اس کی قدرت میں کیا کلام ہوسکتا ہے وہ تم سے بہت بڑی بڑی چیزیں بنا چکا ہے پھر تم اپنے دوبارہ پیدا کیے جانے کو کیوں مشکل اور مستبعد سمجھتے ہو !
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 11