أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا لَـكُمۡ لَا تَنَاصَرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے

پھر ان سے کہا جائے گا : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ! بلکہ وہ سب آج گردن جھکائے کھڑے ہیں (الصّٰفّٰ : ٢٦۔ ٢٥) ٢

یعنی جس طرح تم دنیا میں اپنے معبودوں کے متعلق یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ آخرت میں ہم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے چھڑالیں گے تو آج تم ان سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ تم کو عذاب سے چھڑالیں۔ اس سوال کو موخر کیا جائے گا اور جب ان کو مدد کی سخت ضرورت ہوگی اس وقت ان سے سوال کیا جائے گا۔

آخرت میں سوال کا مرحلہ بہت سخت ہوگا ‘ بعض لوگوں کے ایسے عمل ہوں گے جو لوگوں کے دکھانے کے لائق نہیں ہوں گے اور بعض لوگوں کے ایسے عمل ہونگے جو لوگوں کے سامنے پیش کیے جانے کی صلاحیت رکھیں گے ‘ مومنوں سے جو لغزشیں ہوئی ہونگی اللہ تعالیٰ ان پر پردہ رکھے گا اور ان کو اپنی رحمت سے شرمندہ ہونے نہیں دے گا ‘ اور کفار کے برے عمال کو دیکھا کر رسوا کر دے گا۔

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن مومن اپنے رب کے قریب ہوگا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پر رکھ دے گا ‘ پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور فرمائے گا : تو فلاں گناہ کو پہچانتا ہے ‘ وہ دو مرتبہ کہے گا میں پہچانتا ہوں ‘ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ پر ستر کیا تھا اور آج تجھ کو بخش دیتا ہوں ‘ اور اس کی نیکیوں کا صحیفہ لپیٹ دیا جائے گا اور کفار کو لوگوں کے سامنے پکار کر کہا جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا تھا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦٨٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٦٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٣‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٢٤٢ )

حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس بندہ کا دنیا میں پردہ رکھتا ہے اس کو آخرت میں رسوا نہیں کرے گا۔ (المعجم الصیغیررقم الحدیث : ١٩٢)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا قیامت کے دن کوئی دوست اپنے دوست کو یاد کرے گا ؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ ! تین مواقع پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا (١) میزان پر حتیٰ کہ وہ بھاری ہوجائے یا ہلکی ہوجائے (٢) اور جب اعمال نامے دئیے جائیں گے ‘ جس وقت اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا (٣) اور جب دوزخ سے ایک گردن نکل کر چنگاڑ رہی ہوگی اور وہ گردن کہے گی میں تین قسم کے آدمیوں کے حوالے کی گئی ہوں (پھر دوسری بار کہے گی) میں تین قسم کے آدمیوں کے حوالے کی گئی ہوں ‘ میں اس شخص کے حوالے کی گئی ہوں جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور شخص کو عبادت کا مستحق قرار دیتا تھا ‘ اور میں اس شخص کے حوالے کی گئی ہوں جو قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتا تھا اور میں ہر متکبر اور معاند کے حوالے کی گئی ہوں ‘ وہ گردن ایسے لوگوں کو اٹھا کر دوزخ کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دے گی۔ اور دوزخ کا ایک پل ہے جو بال سے زیادہ باریک ہے اور تلوار سے زیادہ تیز ہے ‘ اس پر آ نکڑے (ہک) اور کانٹے لگے ہوئے ہیں ‘ وہ جس کو چاہیں گے پکڑ لیں گے ‘ بعض لوگ اس پل پر سے پلک جھپکنے میں گزر جائیں گے اور بعض لوگ بجلی کی طرح گزر جائیں گے اور بعض لوگ تیز رفتار گھوڑوں کی طرح گزر جائیں گے اور بعض اونٹوں کی طرح ‘ اور فرشتے دعا کر رہے ہونگے رب سلم رب سلم (اے رب سلامت رکھنا ‘ اے رب سلامت رکھنا) کوئی اس پل پر سے سلامتی کے ساتھ نجات پا جائے گا ‘ کوئی زخمی ہو کر گزر جائے گا اور کوئی منہ کے بل دوزخ میں گرجائے گا۔(مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٦٤٧‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب پل صراط پر عالم اور عابد جمع ہونگے تو عابد سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ اور اپنی عبادت کی وجہ سے نعمتیں پاؤ اور عالم سے کہا جائے گا یہاں ٹھہرو اور جن سے تم محبت کرتے تھے ان کی شفاعت کرو ‘ کیونکہ تم جس کی بھی شفاعت کرو گے اس کے حق میں شفاعت قبول کی جائے گی اور اس وقت وہ انبیاء کا قائم مقام ہوگا۔ (مسند الفردوس للدیلمی رقم الحدیث : ١٣٠٠‘ الفردوس بما ثورالخطاب رقم الحدیث : ١٢٩٣‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٨٧٨‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٥٢‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٨٦٨٨)

اس حدیث میں عالم سے مراد احکام شرعیہ کا عالم ہے جو اپنے علم کے تقاضوں پر عمل بھی کرتا ہو ‘ اور اپنے نفیس اوقات کو دین کی تبلیغ میں خرچ کرتا ہو ‘ وہ چونکہ دنیا میں لوگوں کو گمراہی سے نکالنے کی کوشش کرتا تھا اور فسق و فجور سے باز رکھنے کی سعی کرتا تھا اور اللہ کے دین کی سر بلندی میں لگا رہتا تھا اس لیے اس کو آخرت میں منصب شفاعت عطا کر کے انبیاء کا نائب بنایا جائے گا ‘ حدیث میں علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٦٤١‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٨٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٣‘ مسند احمد ج ٥ ص ١٩٦) اور یہ علماء کا انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ حشر کیا جائے گا۔ (کشف الخفاء ج ٢ ص ٨٤)

القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 25