وَحِفۡظًا مِّنۡ كُلِّ شَيۡطٰنٍ مَّارِدٍۚ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 7
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَحِفۡظًا مِّنۡ كُلِّ شَيۡطٰنٍ مَّارِدٍۚ ۞
ترجمہ:
اور (اس کو) ہر سرکش شیطان سے محفوظ کردیا
الصّٰفّٰت : ١٠۔ ٧ میں شیطانوں پر ‘ شہاب ثاقب سے ضرب لگانے کا ذکر فرمایا ہے ‘ اس کی تفصیل اس حدیث میں ہے :
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک انصاری نے بیان کیا کہ ایک رات کو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ‘ کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور اس کی روشنی پھیلی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : زمانہ جاہلیت میں تم اس حادثہ کے متعلق کیا کہتے تھے ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں ‘ ہم یہ کہتے تھے کہ آج رات کوئی بہت بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا کوئی بہت بڑا آدمی فوت ہوگیا ہے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ستارہ اس وجہ سے نہیں ٹوٹتا کہ کوئی مرتا ہے یا پیدا ہوتا ہے ‘ لیکن ہمارا رب تبارک و تعالیٰ جب کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو حاملیں عرش فرشتے سبحان اللہ کہتے ہیں ‘ پھر جو ان کے قریب آسمان کے فرشتے ہیں سبحان اللہ کہتے ہیں ‘ حتیٰ کے ان کی تسبیح آسمان دنیا کے فرشتوں تک پہنچتی ہے ‘ پھر حاملین عرش کے قریب والے حاملین عرش سے کہتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ پھر وہ خبر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ‘ پھر آسمان کے بعض فرشتے بھی دوسروں کو بتاتے ہیں (کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے) حتیٰ کہ آسمان دنیا تک خبر پہنچتی ہے پھر جن اس سنی ہوئی بات کو لے اڑتے ہیں اور اسے ( کاہنوں کے کانوں میں) پھونک دیتے ہیں ‘ پس اگر وہ اسی طرح خبر دیں تو وہ سچ ہوتی ہے ‘ لیکن وہ اس میں اپنی مرضی سے کچھ اور ملا دیتے ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٢٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٢٤‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٢٧٢)
کاہنوں کی اقسام
علامہ یحییٰ بن شرف نودی لکھتے ہیں : قاضی عیاض (رح) نے کہا ہے کہ عرب میں کہانت کی تین قسمیں تھیں :
(١) کسی انسان کا جِنّ دوست ہوتا تھا وہ آسمان سے خبریں سن کر آتا اور اس شخص کو بتادیتا ‘ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد یہ قسم باطل ہوگئی۔
(٢) جِنّ زمین کے گردونواح اور اطراف میں پھر کر اس کی خبریں اپنے دوستوں کو بیان کرتا ‘ اس قسم کا وجود بعید نہیں ہے ‘ معتزلہ اور بعض متکلمین نے ان دونوں قسموں کا انکار کیا ہے ‘ لیکن اس قسم کے وجود میں کوئی استحالہ اور بعد نہیں ہے ‘ اور ان کی خبر کبھی سچ ہوتی ہے اور کبھی جھوٹ اور شرعاً ان کی خبر سننا اور اس کی تصدیق کرنا ممنوع ہے۔
(٣) اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں میں ایک قوت پیدا کی ہے ( جس سے وہ مستقبل کے امور کو جان لیتے ہیں) لیکن ان کی خبروں میں زیادہ ترجھوٹ ہوتا ہے ‘ اس فن کے ماہر کو عراف کہتے ہیں ‘ عراف وہ شخص ہے جو بعض اسباب اور مقدمات سے بعض چیزوں کی معرفت حاصل کرتا ہے ‘ ان تمام اقسام کو کہانت کہا جاتا ہے اور شریعت نے ان سب کی تکذیب کی ہے اور ایسے لوگوں کے پاس جانے سے منع کیا ہے۔ (شرح مسلم ج ٢ ص ٢٣٣۔ ٢٣٢‘ نور محمد اصح المطابع کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)
کاہن کی تعریف اور کاہن کے پاس جانے کا شرعی حکم
علامہ نووی شافعی نے قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ کی پوری شرح نقل نہیں کی ہم قاضی عیاض کی شرح سے وہ حصہ پیش کر رہے ہیں جس کو علامہ نووی نے نقل نہیں کیا۔
قاضی عیاض نے پہلے کہانت کی تعریف کی ہے وہ لکھتے ہیں :
امام مازری نے کہا ہے کہ کاہن وہ لوگ ہیں جن کے متعلق مشرکین کا یہ زعم تھا کہ ان کے دلوں میں جو امور ڈالے جاتے ہیں ان سے ان کو غیب کا علم ہوجایا ہے ‘ اور جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرتا ہے شریعت نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے ‘ اور ان کی تصدیق کرنے سے منع کیا ہے۔ اس کے بعد قاضی عیاض نے کاہنوں کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ جن سے تین کا علامہ نووی نے ذکر کیا ہے اور جو قسم انہوں نے نہیں ذکر کی وہ یہ ہے :
کاہن قیاس سے کسی ہونے والے کام کا اندازہ لگاتے ہیں اور اس قیاس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان میں ایک قوت پیدا کی ہے ‘ لیکن اس باب میں ان کے اندازے اکثر جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے بعد قاضی عیاض لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کسی عراف (کاہن) کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا اس کی چالیس دنوں کی نمازیں نہیں قبول کی جاتیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٣٠) اس کی شرح میں قاضی عیاض لکھتے ہیں :
اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ گناہوں سے نیکیاں برباد نہیں ہوتیں اور کفر اور ارتداد کے سوا اور کسی چیز سے عمل ضائع نہیں ہوتے ‘ سو اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اس کی چالیس دن کی نمازوں سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا اور ان کے اجرکو زیادہ نہیں کرتا ‘ البتہ ان دنوں کی نمازیں ادا ہوجاتی ہیں اور اس سے فرض ساقط ہوجاتا ہے۔
اس حدیث کی مثل یہ ہے :
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے خمر (انگور کی شراب) کو پیا اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں ‘ اگر وہ توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے ‘ اور اگر وہ دوبارہ شراب پئے تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں فرماتا ‘ پھر اگر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اور اگر پھر سہ بارہ شراب پئے تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں فرماتا ‘ پھر اگر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے ‘ پھر اگر وہ چوتھی بار شراب پئے تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں فرماتا ‘ پھر اگر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول نہیں فرماتا اور اس کو (آخرت میں) الخبال کے دریا سے پلائے گا ‘ ان سے کہا گیا اے ابو عبدالرحمن ! الخبال کا دریا کیا ہے ‘ انہوں نے کہا وہ دوزخیوں کی پیپ کا دریا ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٨٦٢‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٠٧٥٨‘ مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٥٦٨٦‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٣٤٤١‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٠١٦)
ان دونوں حدیثوں میں خصوصیت کے ساتھ چالیس دنوں کا ذکر ہے ‘ سو یہ حکمت شرعیہ کے اسرار سے ہے کیونکہ چالیس دن کے بعد رحم میں نطفہ بنتا ہے اور پھر چالیس دن کے بعد وہ نطفہ جما ہوا خون بنتا ہے اور پھر چالیس دن کے بعد گوشت پہنایا جاتا ہے اور پھر چالیس دن کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣١٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٤٦ )
اس طرح انسان کے طبعی اوصاف چالیس دن میں متغیر ہوتے ہیں اور چالیس دن بعد ایک صفت سے دوسری صفت میں منتقل ہوتا ہے۔ (اکمال المعلم بفوائدمسلم ج ٧ ص ١٥٤۔ ١٥٣‘ دارالوفاء بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
شہاب ثاقب سے مراد آگ کے گولے ہیں یا آسمان دنیا کے ستارے
الصّٰفّٰت : ٦
میں مذکور ہے : بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین فرما دیا۔ اس آیت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ فرشتے شیطانوں کو جو شہاب ِ ثاقب مارتے ہیں آیا وہ شہاب ثاقب اس ستاروں سے ہیں یا نہیں ؟ اگر فرشتے ان ہی ستاروں سے شیطانوں پر ضرب لگاتے ہیں تو پھر ستاروں کی تعداد بہ تدریج کم ہونی چاہیے نیز اس سے آسمان کی زینت میں بھی بہ تدریج کمی آنی چاہیے ‘ اور اگر وہ شہاب ِ ثاقب اس ستاروں سے نہیں ہیں بلکہ فرشتے کوئی اور آگ کے گولے اٹھا کر ان فرشتوں پر مارتے ہیں تو یہ سورة الملک کی اس آیت کے خلاف ہے :
وَلَقَدْزَیَّنَّاالسَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَا بِِیْحَ وَ جَعَلْنٰھَا رُجُوْ مًالِّلشَّیٰطِیْنِ ۔ (الملک : ٥)
اور بیشک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین فرما دیا ہے اور اور ان کو شیطان کے مارنے کا ذریعہ بنادیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے شیطان کو جس شہاب ثاقب سے مارا جاتا ہے وہ یہ ستارے نہیں ہیں جن سے آسمان دنیا کو مزین فرمایا ہے بلکہ کسی اور قسم کے آگ کے گولے ہیں ‘ اور سورة الملک میں جو فرمایا ہے ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین فرمایا ہے اور ان کو شیطان کو مارنے کا ذریعہ بنایا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو فضا کی بلندیوں میں روشن اور چمکتی ہوئی نظر آتی ہے وہ زمین والوں کو روشن چراغوں اور ستاروں کی طرح نظر آتی ہیں ‘ سورة الملک : ٥ میں شہاب ثاقب کو چراغ اور آسمان دنیا کی زینت لوگوں کو دکھائی دینے کے اعتبار سے فرمایا ہے۔
شہابِ ثاقب گرانے پر چند دیگر شہاب کے جوابات
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جب شیطانوں کو یہ پتا ہے کہ جیسے ہی وہ آسمان ِدنیا کے قریب پہنچیں گے تو ان پر شہاب ثاقب پھینکا جائے گا اور ان کو ان کا مقصود حاصل نہیں ہو سکے گا تو پھر وہ آسمانوں کے قریب کیوں جاتے ہیں ‘ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ آسمان دنیا سے ان پر شہاب ثاقب مارنے کی ایک معین جگہ نہ ہو اور وہ ہر بار اس امید سے جگہ بدل کر جاتے ہوں کہ یہاں سے ان پر شہاب ثاقب نہیں گرایا جائے گا ‘ یا اس کی وجہ یہ ہو کہ ان پر شہاب ثاقب گرائے جانے کے واقعات شاذونا در ہوں اور جِنّات اور شیاطین کے درمیان وہ اس قدر مشہور نہ ہوں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ جِنّات اور شیاطین آگ سے بنائے گئے ہیں تو ان پر آگ کے گولے مارنا یا ان کو دوزخ کی آگ سے آخرت میں عذاب دینا ان کے لیے موجب عذاب کس طرح ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان مٹی سے بنایا گیا ہے اس کے باوجود جب اس کو اینٹیں اور پتھر مارے جائیں تو اس سے انسان کو بہر حال درد اور تکلیف ہوتی ہے سو اسی قیاس پر جِنّات اور شیاطین کو بھی سمجھنا چاہیے۔
مارد ‘ الملأ الاعلیٰ اور شہاب ثاقب وغیرہ کے معنی اور ان کی وضاحت
اس آیت میں شیطان کے ساتھ اس کی صفت مارد کا ذکر ہے ‘ مارد کا معنی ہے جو ہر قسم کی خیر اور بھلائی سے خالی ہو ‘ جس درخت پر پتے نہ ہوں اس کو شجرِامرد کہتے ہیں ‘ ریت کے جس ٹکڑے پر کوئی سبزہ یا روئیدگی نہ ہو اس کو رملۃ مرداء کہتے ہیں ‘ اور جس لڑکے کے چہرے پر ڈاڑھی نہ آئی ہو اس کو امرد کہتے ہیں اور اس آیت میں مارد کا معنی وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرما نبرداری سے خالی ہو۔
القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 7