وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا(۸۵)

اور تم سے روح کو پوچھتے ہیں تم فرماؤ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا (ف۱۸۷)

(ف187)

قریش مشورہ کے لئے جمع ہوئے اور ان میں باہم گفتگو یہ ہوئی کہ محمّدِ مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں رہے اور کبھی ہم نے ان کو صدق و امانت میں کمزور نہ پایا کبھی ان پر تہمت لگانے کا موقع ہاتھ نہ آیا ، اب انہوں نے نبوّت کا دعوٰی کر دیا تو ان کی سیرت اور ان کے چال چلن پر کوئی عیب لگانا تو ممکن نہیں ہے ، یہود سے پوچھنا چاہیئے کہ ایسی حالت میں کیا کیا جائے ، اس مطلب کے لئے ایک جماعت یہود کے پاس بھیجی گئی ، یہود نے کہا کہ ان سے تین سوال کرو اگر تینوں کے جواب نہ دیں تو وہ نبی نہیں اور اگر تینوں کا جواب دے دیں جب بھی نبی نہیں اور اگر دو کا جواب دے دیں ایک کا جواب نہ دیں تو وہ سچّے نبی ہیں ، وہ تین سوال یہ ہیں اصحابِ کہف کا واقعہ ، ذوالقرنین کا واقعہ اور روح کا حال چنانچہ قریش نے حضورسے یہ سوال کئے آپ نے اصحابِ کہف اور ذوالقرنین کے واقعات تو مفصّل بیان فرما دیئے اور روح کا معاملہ ابہام میں رکھا جیسا کہ توریت میں مبہم رکھا گیا تھا قریش یہ سوال کر کے نادم ہوئے ۔ اس میں اختلاف ہے کہ سوال حقیقتِ روح سے تھا یا اس کی مخلوقیت سے ، جواب دونوں کا ہو گیا اور آیت میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ مخلوق کا علم علمِ الٰہی کے سامنے قلیل ہے اگرچہ مَااُوْتِیْتُمْ کا خِطاب یہود کے ساتھ خاص ہو ۔

وَ لَىٕنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ(۸۶)

اور اگر ہم چاہتے تو یہ وحی جو ہم نے تمہاری طرف کی اسے لے جاتے (ف۱۸۸) پھر تم کوئی نہ پاتے کہ تمہارے لیے ہمارے حضور اس پر وکالت کرتا

(ف188)

یعنی قرانِ کریم کوسینوں اور صحیفوں سے مَحو کر دیتے اور اس کا کوئی اثر باقی نہ چھوڑتے ۔

اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَؕ-اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَیْكَ كَبِیْرًا(۸۷)

مگر تمہارے رب کی رحمت (ف۱۸۹) بےشک تم پر اس کا بڑا فضل ہے (ف۱۹۰)

(ف189)

کہ قیامت تک اس کو باقی رکھا اور ہر تغیّر و تبدّل سے محفوظ فرمایا ۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ قرآنِ پاک خوب پڑھو اس سے پہلے کہ قرآنِ پاک اٹھا لیا جائے کیونکہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ قرآنِ پاک نہ اٹھایا جائے ۔

(ف190)

کہ اس نے آپ پر قرآنِ کریم نازِل فرمایا اور اس کو باقی و محفوظ رکھا اور آپ کو تمام بنی آدم کا سردار اور خاتَم النّبّیین کیا اور مقامِ محمود عطا فرمایا ۔

قُلْ لَّىٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا(۸۸)

تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ (ف۱۹۱) اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو(ف۱۹۲)

(ف191)

بلاغت اور حسنِ نظم و ترتیب اور علومِ غیبیہ و معارفِ الٰہیہ میں سے کسی کمال میں ۔

(ف192)

شانِ نُزول : مشرکین نے کہا تھا کہ ہم چاہیں تو اس قرآن کی مثل بنا لیں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور اللہ تبارک و تعالٰی نے ان کی تکذیب کی کہ خالِق کے کلام کے مثل مخلوق کا کلام ہو ہی نہیں سکتا اگر وہ سب باہم مل کر کوشش کریں جب بھی ممکن نہیں کہ اس کلام کے مثل لاسکیں چنانچہ ایسا ہی ہوا تمام کُفّار عاجز ہوئے اور انہیں رسوائی اٹھانا پڑی اور وہ ایک سطر بھی قرآنِ کریم کے مقابل بنا کر پیش نہ کر سکے ۔

وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ٘-فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا(۸۹)

اور بےشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مَثَل(مثالیں) طرح طرح بیان فرمائی تو اکثر آدمیوں نے نہ مانا مگر ناشکر کرنا (ف۱۹۳)

(ف193)

اور حق سے منکِر ہونا اختیار کیا ۔

وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ(۹۰)

اور بولے کہ ہم ہرگزتم پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ تم ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ بہا دو (ف۱۹۴)

(ف194)

شانِ نُزول : جب قرآنِ کریم کا اعجاز خوب ظاہر ہو چکا اور معجزاتِ واضحات نے حجّت قائم کر دی اور کُفّار کے لئے کوئی جائے عذر باقی نہ رہی تو وہ لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کے لئے طرح طرح کی نشانیاں طلب کرنے لگے اور انہوں نے کہہ دیا کہ ہم ہر گز آپ پر ایمان نہ لائیں گے ۔ مروی ہے کُفّارِ قریش کے سردار کعبۂ معظّمہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بلوایا حضور تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ آج گفتگو کرکے آپ سے معاملہ طے کر لیں تاکہ ہم پھر آپ کے حق میں معذور سمجھے جائیں ، عرب میں کوئی آدمی ایسا نہیں ہوا جس نے اپنی قوم پر وہ شدائد کئے ہوں جو آپ نے کئے ہیں ، آپ نے ہمارے باپ دادا کو بُرا کہا ، ہمارے دین کو عیب لگائے ، ہمارے دانش مندوں کو کم عقل ٹھہرایا ، معبودوں کی توہین کی ، جماعت متفرق کر دی ، کوئی برائی اٹھا نہ رکھی ، اس سے تمہاری غرض کیا ہے ؟ اگر تم مال چاہتے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کر دیں کہ ہماری قوم میں تم سب سے زیادہ مالدار ہو جاؤ ، اگر اعزاز چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنا لیں ، اگر مُلک و سلطنت چاہتے ہو تو ہم تمہیں بادشاہ تسلیم کر لیں یہ سب باتیں کرنے کے لئے ہم تیار ہیں اور اگر تمہیں کوئی دماغی بیماری ہوگئی ہے یا کوئی خلش ہو گیا ہے تو ہم تمہارا علاج کریں اور اس میں جس قدر خرچ ہو اٹھائیں ، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ان میں سے کوئی بات نہیں اور میں مال و سلطنت و سرداری کسی چیز کا طلب گار نہیں ، واقعہ صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازِل فرمائی اور حکم دیا کہ میں تمہیں اسکے ماننے پر اللہ کی رضا اور نعمتِ آخرت کی بشارت دوں اور انکار کرنے پر عذابِ الٰہی کا خوف دلاؤں ، میں نے تمہیں اپنے ربّ کا پیام پہنچایا اگر تم اسے قبول کرو تو یہ تمہارے لئے دنیا و آخرت کی خوش نصیبی ہے اور نہ مانو تو میں صبر کروں گا اور اللہ کے فیصلہ کا انتظار کروں گا ، اس پر ان لوگوں نے کہا اے محمّد ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اگر آپ ہمارے معروضات کو قبول نہیں کرتے ہیں تو ان پہاڑوں کو ہٹا دیجئے اور میدان صاف نکال دیجئے اور نہریں جاری کر دیجئے اور ہمارے مرے ہوئے باپ دادا کو زندہ کر دیجئے ہم ان سے پوچھ دیکھیں کہ آپ جو فرماتے ہیں کیا یہ سچ ہے اگر وہ کہہ دیں گے تو ہم مان لیں گے ، حضور نے فرمایا میں ان باتوں کے لئے نہیں بھیجا گیا جو پہنچانے کے لئے میں بھیجاگیا تھا وہ میں نے پہنچا دیا اگر تم مانو تمہارا نصیب نہ مانو تو میں خدائی فیصلہ کا انتظار کروں گا ، کُفّارنے کہا پھر آپ اپنے ربّ سے عرض کر کے ایک فرشتہ بلوا لیجئے جو آپ کی تصدیق کرے اور اپنے لئے باغ اور محل اور سونے چاندی کے خزانے طلب کیجئے فرمایا کہ میں اس لئے نہیں بھیجا گیا ، میں بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں ، اس پر کہنے لگے تو ہم پر آسمان گروا دیجئے اور بعضے ان میں سے یہ بولے کہ ہم ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ اللہ کو اور فرشتوں کو ہمارے پاس نہ لائیے ، اس پر سیدِ عالِم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس مجلس سے اٹھ آئے اور عبد اللہ بن اُمیّہ آپ کے ساتھ اٹھا اور آپ سے کہنے لگا خدا کی قَسم میں کبھی آپ پر ایمان نہ لاؤں گا جب تک آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر نہ چڑھو اور میری نظروں کے سامنے وہاں سے ایک کتا ب اور فرشتوں کی ایک جماعت لے کر نہ آؤ اور خدا کی قَسم اگریہ بھی کرو تو میں سمجھتا ہوں کہ میں پھر بھی نہ مانوں گا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب دیکھا کہ یہ لوگ اس قدر ضد او ر عنا د میں ہیں اور ان کی حق دشمنی حد سے گذر گئی ہے تو آپ کو ان کی حالت پر رنج ہوا ۔ اس پر آیتِ کریمہ نازِل ہوئی ۔

اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًاۙ(۹۱)

یا تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو پھر تم اس کے اندر بہتی نہریں رواں کرو

اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ قَبِیْلًاۙ(۹۲)

یا تم ہم پر آسمان گرا دو جیسا تم نے کہا ہے ٹکڑے ٹکڑے یااللہ اور فرشتوں کو ضامن لے آؤ (ف۱۹۵)

(ف195)

جوہمارے سامنے تمہارے صدق کی گواہی دیں ۔

اَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَآءِؕ-وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗؕ-قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا۠(۹۳)

یا تمہارے لیے طلائی (سونے کا)گھر ہو یا تم آسمان میں چڑھ جاؤ اور ہم تمہارے چڑھ جانے پر بھی ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم پر ایک کتاب نہ اتارو جو ہم پڑھیں تم فرماؤ پاکی ہے میرے رب کو میں کون ہوں مگر آدمی اللہ کا بھیجا ہوا (ف۱۹۶)

(ف196)

میرا کام اللہ کا پیام پہنچا دینا ہے وہ میں نے پہنچا دیا اب جس قدر معجزات و آیات یقین و اطمینان کے لئے درکار ہیں ان سے بہت زیادہ میرا پروردگارظاہر فرما چکا ، حجّت ختم ہوگئی اب یہ سمجھ لو کہ رسول کے انکار کرنے اور آیاتِ الٰہیہ سے مکرنے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔