مولا علی کی طرف منسوب منکر و باطل روایت کی حقیقت!!!

از قلم : اسد الطحاوی الحنفی

أخبرنا عبد الله بن إسحاق بن إبراهيم، العدل، ببغداد، ثنا عبد الرحمن بن محمد بن منصور الحارثي، ثنا علي بن قادم، ثنا علي بن صالح بن حي، عن حكيم بن جبير، عن جميع بن عمير، عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: لما ورد رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة آخى بين أصحابه، فجاء علي رضي الله عنه تدمع عيناه، فقال: يا رسول الله، آخيت بين أصحابك ولم تؤاخ بيني وبين أحد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا علي، أنت أخي في الدنيا والآخرة» تابعه سالم بن أبي حفصة، عن جميع بزيادة في السياق

حدثنا أبو سهل أحمد بن محمد بن زياد النحوي، ببغداد، ثنا أحمد بن محمد بن عيسى القاضي، ثنا إسحاق بن بشر الكاهلي، ثنا محمد بن فضيل، عن سالم بن أبي حفصة، عن جميع بن عمير التيمي، عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم آخى بين أصحابه، فآخى بين أبي بكر وعمر، وبين طلحة والزبير، وبين عثمان بن عفان وعبد الرحمن بن عوف، فقال علي: يا رسول الله، إنك قد آخيت بين أصحابك فمن أخي؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أما ترضى يا علي أن أكون أخاك؟» قال ابن عمر: وكان علي رضي الله عنه جلدا شجاعا، فقال علي: بلى يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنت أخي في الدنيا والآخرة»

اے علی آپ میرے دنیا اور آخر کے بھائی ہیں

[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4289 – جميع بن عمير أتهم وإسحاق بن بشر الكاهلي هالك

(مستدرک الحاکم :۴۲۸۹، ۴۲۸۸)

امام حاکم کی بیان کردہ اس روایت کی دونوں اسناد کا مرکزی راوی جیع بن عمیر ہے

جو کہ کذاب اور رافضی تھا

جیسا کہ امام ذھبی نے تلخیص میں ذکر کیا ہے یہ متہم بلکذ ہے

امام ترمذی نے بھی اسکو جمیع بن عمر سے ہی بیان کیا ہے :

حدثنا يوسف بن موسى القطان البغدادي حدثنا علي بن قادم حدثنا علي بن صالح بن حي عن حكيم بن جبير عن جميع بن عمير التيمي عن ابن عمر قال آخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أصحابه فجاء علي تدمع عيناه فقال يا رسول الله آخيت بين أصحابك ولم تؤاخ بيني وبين أحد فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم أنت أخي في الدنيا والآخرة قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب وفي الباب عن زيد بن أبي أوفى.

(السنن الترمذی برقم: ۳۷۲۰)

نیز تاریخ الاسلام میں اس پر محدثین سے درج ذیل جرح نقل کی ہے :

جُمَيْعُ بْنُ عُمَيْرٍ أَبُو الأَسْوَدِ التَّيْمِيُّ [الوفاة: 101 – 110 ه]

تَيْمُ اللَّهِ بْنُ ثَعْلَبَةَ.

كُوفِيٌّ جَلِيلٌ،

عَنْ: عَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ،

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: كوفيٌ مِنْ عُتَقِ الشِّيعَةِ مَحَلُّهُ الصَدْقُ.

وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: عَامَّةُ مَا يَرْوِيهِ لا يُتَابَعُ عَلَيْهِ.

وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ: هُوَ مِنْ أَكْذَبِ النَّاسِ، كَانَ يَقُولُ الْكَرَاكِيُّ تَفْرِخُ فِي السَّمَاءِ وَلا تَقَعُ فِرَاخُهَا.

وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: رافضيٌ يضع الحديث

امام ابن عدی کہتے ہیں اسکی کوئی متابعت نہیں کرتا

امام ابن نمیر کہتے ہیں یہ کذابوں میں سے تھا

امام ابن حبان کہتے ہیں یہ رافضی تھا اور احادیث گھڑتا تھا

(تاریخ الاسلام الذھبی برقم:۴)

اور دیوان الضعفاء میں فرماتے ہیں :

780 – جميع بن عمير التيمي الكوفي: تابعي مشهور، اتهم بالكذب. -عه-

جیع بن عمیر کوفی مشہور تابعی ہے اور متہم بلکذب ہے

(دیوان الضعفاء برقم :۷۸۰)

اس باب میں دوسری روایت درج ذیل ہے

وروى الحاكم في المستدرک بسنده عن ابن عباس قال:

كان على يقول في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، إن الله يقول:

أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم، والله لا ننقلب على أعقابنا ، بعد

إذ هدانا الله ، والله لئن مات أو قتل، لأقاتلن على ما قاتل عليه حتی

أموت ،والله إني لأخوه ووليه، وابن عمه، ووارث علمه، فمن أحق به

منی. (المستدرک للحاکم 3/ 126)

امام حاکم نے اپنی سند سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ، بیان کرتے ہیں کہ مولا علی رضی اللہ عنہ سرکار علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں کہتے تھے :

اللہ تعالی فرماتا ہے : “اگر ان کی وفات ہو جائے یا ان کو شہید کر دیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پاؤں واپس لوٹ جاؤ گے”

اللہ کی قسم ! ہم الٹے پاؤں واپس ہونے والے نہیں ہیں جبکہ اللہ عزوجل نے ہمیں ہدایت دے دی ہے ۔ اللہ کی قسم ! اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کر دیئے جائیں تو میں اس مقصد کیلئے جنگ کرونگا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ فرمائ یہاں تک کہ میں اس راہ پر چلتے ہوئے وفات پا جاؤں ۔ اللہ کی قسم ! میں آپ علیہ السلام کا بھائ ہوں ، ولی ہوں ، چچا کا بیٹا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کا وارث ہوں لہذا ان کی نیابت کا مجھ سے زیادہ حقدار کون ہو سکتا ہے ۔

امام الہیثمی اس حدیث کو نقل کر کے کہتے ہیں :

“اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں”

(مجمع الزوائد 9/134)

امام نسائ رحمہ اللہ نے “الخصائص”(18) اور حافظ ذھبی نے “میزان الاعتدال”(2/285) میں مختصرا اس کا ذکر کیا ہے ۔

حافظ ابن کثیر نے اسے امام طبرانی کی سند سے بیان کیا ہے

(تفسیر ابن کثیر 614/1)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسے اپنی سند سے سماک سے روایت کیا ہے ۔ وہ عکرمہ سے اور وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں۔۔رضی اللہ عنھم

(فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل 652/2)

ایسی کئ مثالیں موجود ہیں کہ سرکار علیہ السلام نے کئ صحابہ کو بھائ کہ کر مخاطب کیا ہو مگر تلاش کرنے کے باوجود کہیں نہ ملا کہ سوائے مولا علی رضی اللہ عنہ کے کسی نے سرکار علیہ السلام کو اپنا بھائ کہا ہووو۔۔۔۔۔واللہ ورسولہ اعلم(عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ روایت بھی منکر و باطل ہے

اسکا مرکزی راوی عمرو بن حماد النقاد ہے جو صدوق ہونے کے باوجود رافضی تھا

امام ذھبی اسکےبارے فرماتے ہیں :

عَمْرو بن حَمَّاد بن طَلْحَة القناد روى عَنهُ م حَدِيثا وَاحِدًا عَن أَسْبَاط بن نصر صَدُوق قَالَ د لَكِن كَانَ من الرافضة

عمرو بن حماد یہ صدوق ہے لیکن یہ رافضیوں میں سے ایک تھا

(المغنی فی الضعفاء برقم :۴۶۴۵)

اور یہ مذکورہ روایت اسکی منکر ہے و باطل ہے امام ذھبی اس روایت کو میزان الاعتدال میں اسکے ترجمہ میں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہین :

خيثمة، حدثنا الحنيني، حدثنا عمرو بن حماد، حدثنا أسباط، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس – إن عليا قال: إنى لاخو رسول الله صلى الله عليه وسلم، ووليه، وابن عمه، ووارثه، فمن أحق به منى!.

هذا حديث منكر.

عمرو بن حماد اسباط سے یہ روایت بیان کرتا ہے جبکہ یہ منکر روایت ہے

(میزان الاعتدال برقم :۶۳۵۵)

اور فضائل صحابہ کی سند میں بھی یہی راوی موجود ہے :

حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز قثنا أحمد بن منصور، وعلي بن مسلم، وغيرهما، قالوا: نا عمرو بن طلحة القناد قثنا أسباط، عن سماك، عن عكرمة،

(فضائل صحابہ برقم : 1110 )

اس روایت میں دوسری علت یہ ہے کہ سماک کی عکرمہ سے روایت منکر و ضعیف ہوتی ہے

جیسا کہ امام ذھبی اسکو صدوق صالح قرار دیا لیکن عکرمہ سے ابن عباس کے طریق سے بیان کرنے پر اس پرجرح خاص نقل کی ہے

وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن بحجة، لانه كان يلقن فيتلقن.

روى حجاج، عن شعبة، قال: كانوا يقولون لسماك: عكرمة عن ابن عباس؟ فيقول: نعم.

فأما أنا فلم أكن ألقنه.

وقال ابن المديني: روايته عن عكرمة مضطربة، فسفيان وشعبة يجعلونها عن عكرمة.

وأبو الاحوص وإسرائيل يجعلونها عن عكرمة، عن ابن عباس.

وقال يعقوب بن شيبة: هو في غير عكرمة صالح، وليس من المتثبتين.

امام نسائی کہتے ہیں : جب یہ کسی متن کو نقل کرنے میں منفرد ہو تو یہ حجت نہیں ہوگا کیونکہ اسکو جب تلقین کی جاتی تو یہ قبول کرلیتا تھا

حجاج نے شعبہ کا یہ قول بیان کیا ہے کہ لوگوں نے سماک سے کہا یہ روایت عکرمہ کے حوالے سے حضرت عبداللہ ابن عباس سے منقول ہے تو اسن نے جواب دیا ہاں (شعبہ کہتے ہیں ) میں تو تقلین قبول نہیں کرتا (یعنی سماک اس طریق میں تلقین قبول کر لیتا)

ابن مدینی کہتے ہیں اس نے عکرمہ سے جو روایات بیان کی ہے وہ مضطرب ہے اس میں

اور سفیان اور شعبہ نے اسکی (عکرمہ و ابن عباس) کے طریق سے روایات کو منقول قرار دیا ہے

ابو احوص اور اسرائیل نے بھی اس روایات کو عکرمہ کے حوالے سے ابن عباس سے منقول قرار دیا ہے

امام یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں عکرمہ کے علاوہ یہ روایات بیان کرنے میں صالح ہے البتہ ثبت راویوں میں اسکا شمار نہیں

(میزان الاعتدال ، برقم :۳۵۴۸)

اسی لیے امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں کہتے ہیں :

سماك بكسر أوله وتخفيف الميم ابن حرب ابن أوس ابن خالد الذهلي البكري الكوفي أبو المغيرة صدوق وروايته عن عكرمة خاصة مضطربة وقد تغير بأخرة فكان ربما تلقن [يلقن] من الرابعة مات سنة ثلاث وعشرين خت م

سماک بن حرب یہ صدوق ہے لیکن جب یہ خاص عکرمہ سے روایت کریگا تو اسکی روایات مضطرب ہونگی کیونکہ آخر میں اسکا حافظہ متغیر ہو گیا تھا اور بیشر اوقات یہ تلقین بھی قبول کر لیتا تھا

(تقریب التہذیب برقم :۲۶۲۴)

معلوم ہوا عکرمہ سے اسکا سماع اسکے حافظہ خراب ہونے کے بعد کا ہے اور لوگ اسکو جو تقلین کر دیتے یہ اسکو شامل کر کے ابن عباس سے مروی کر دیتا تھا جو کہ خطر ناک عمل ہے

تو اس روایت میں ایک علت یہ ہے کہ ایک رافضی ہے جسکی اس روایت پر جرح خاص ہے منکر کی

اور سماک کی عکرمہ سے روایت منکر و باطل ہوتی ہے کیونکہ یہ تقلین قبول کر لیتا تھا حافظہ متغیر ہونے کی وجہ سے

تیسری روایت اس باب میں جو بیان کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے :

أخبرني أحمد بن جعفر بن حمدان البزار، ثنا إبراهيم بن عبيد الله بن مسلم، ثنا صالح بن حاتم بن وردان، حدثني أبي، حدثني أيوب، عن أبي يزيد المدني، عن أسماء بنت عميس قالت: كنت في زفاف فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبحنا جاء النبي صلى الله عليه وسلم إلى الباب، فقال: «يا أم أيمن، ادعي لي أخي» فقالت: هو أخوك وتنكحه، قال: «نعم، يا أم أيمن» فجاء علي، فنضح النبي صلى الله عليه وسلم عليه من الماء ودعا له، ثم قال: «ادعي لي فاطمة» قالت: فجاءت تعثر من الحياء، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اسكني، فقد أنكحتك أحب أهل بيتي إلي» قالت: ونضح النبي صلى الله عليه وسلم عليها من الماء، ثم رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم فرأى سوادا بين يديه، فقال: «من هذا؟» فقلت: أنا أسماء بنت عميس قلت: نعم، قال: «جئت في زفاف ابنة رسول الله؟» قلت: نعم، فدعا لي

[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4752 – الحديث غلط

(مستدرک الحاکم برقم :۴۷۵۲)

نبی اکرم نے فرمایا اے ام ایمن میرے بھائی (علی ) کو بلا کر لاو الخ۔۔۔۔۔

اس روایت کے متن میں علت قادع ہے جسکی وجہ سے امام ذھبی نے اس روایت کو تلخیص میں حدیث کو غلط قرار دیا ہے

سند میں تو یہ مسلہ ہے ابو یزید المدنی یہ مجہول ہے اور اسکے سماع کابھی معلوم نہیں حضرت اسماء سے

جیسا کہ امام ابن حجر تقریب میں انکے بارے لکھتے ہین :

  • أبو يزيد المدني نزيل البصرة مقبول من الرابعة خ س

    (تقریب التہذیب برقم : 8452)

لیکن اسکی متابعت ثابت ہے عکرمہ سے لیکن اس روایت میں ایسا متن بالکل نہیں کہ نبی اکرم نے بھائی کہا ہو لیکن اسکے متن میں بھی علت قادعہ ہے

جیسا کہ ابن حجر عسقلانی اس روایت کو نقل کرتے ہیں :

لیکن اس سند میں ارسال ہے ابو یزید نے ڈریکٹ یہ روایت بیان کی ہے

قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ثنا مَعْمَرٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ وَعَنْ أَبِي يَزِيدَ الْمَدَنِيِّ قَالَا لَمَّا أُهْدِيَتْ فَاطِمَةُ إلى علي بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَلِيٍّ أَنْ لَا تَقْرَبْ أَهْلَكَ حَتَّى آتيك قالت فجاء النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا بِمَاءٍ فَقَالَ فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ نَضَحَ الْمَاءُ عَلَى صَدْرِ عَلِيٍّ وَوَجْهِهِ ثُمَّ دَعَا فَاطِمَةَ فَقَامَتْ تَعْثُرُ فِي ثَوْبِهَا مِنَ الْحَيَاءِ فنضح عَلَيْهَا أَيْضًا ثُمَّ نظر فإذا سوداء وَرَاءَ الْبَيْتِ فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقَالَتْ أَسْمَاءُ أَنَا فَقَالَ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ فقالت نعم قال أجئت مَعَ ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ كَرَامَةً لِرَسُولِ اللَّهِ فَقُلْتُ نعم فدعا في بِدُعَاءٍ إِنَّهُ لَأَوْلَى عَمَلِي عِنْدِي فَقَالَ يَا فَاطِمَةُ إِنِّي لَمْ آلُ أَنْ أَنْكَحْتُ أَحَبَّ أَهْلِي إِلَيَّ ثُمَّ خرج فقال العلي دُونَكَ أَهْلَكَ ثُمَّ وَلَّى إِلَى حُجْرَةٍ فَمَا زَالَ يَدْعُو لهما حتى دجل حُجْرَةً

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ابن حجر فرماتے ہیں :

قُلْتُ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ لَكِنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ كَانَتْ فِي هَذَا الْوَقْتِ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ مَعَ زَوْجِهَا جَعْفَرٍ لَا خِلَافَ فِي ذَلِكَ فَلَعَلَّ ذَلِكَ كَانَ لِأُخْتِهَا سَلْمَى بِنْتِ عُمَيْسٍ وَهِيَ امْرَأَةُ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

کہ میں کہتاہوں اسکے رجال ثقات ہیں لیکن اسماء بنت عمیس تو اس وقت حبشہ کی سرزمین پر تھیں اپنے شہر جعفر اس بارے تو کوئی اختلاف ہی نہیں ہے

البتہ ہوسکتا ہے کہ یہ انکی بہن کا معاملہ ہو کہ سلمہ بیٹی ہے عمیس کی اور یہ بیوی ہے حمزہ بن عبدالمطلب کی

جو متن امام حاکم نے بیان کیا ہے اسکو امام نسائی نے اپنی سنن کبری میں نقل کر کے روایت کو ثقات کی مخالفت قرار دیا ہے اور اس میں مستدرک والا متن موجود ہے جس پر امام نسائی کی جرح ہے

أخبرنا إسماعيل بن مسعود قال: حدثنا حاتم بن وردان قال: حدثنا أيوب السختياني، عن أبي يزيد المدني، عن أسماء بنت عميس قالت: «كنت في زفاف فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبحنا جاء النبي صلى الله عليه وسلم فضرب الباب، ففتحت له أم أيمن الباب» فقال: يا أم أيمن «ادعي لي أخي» . قالت: هو أخوك وتنكحه؟ قال: «نعم، يا أم أيمن، وسمعن النساء صوت النبي صلى الله عليه وسلم، فتنحين» قالت: «واختبأت أنا في ناحية» قالت: فجاء علي، فدعا له رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونضح عليه من الماء، ثم قال: «ادعوا لي فاطمة» فجاءت خرقة من الحياء فقال لها: «قد يعني أنكحتك أحب أهل بيتي إلي، ودعا لها، ونضح عليها من الماء، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فرأى سوادا» فقال: «من هذا؟» قلت: أسماء قال: ابنة عميس ” قلت: نعم، قال: «كنت في زفاف فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم تكرمينه؟» قلت: نعم قالت: «فدعا لي»

اس روایت میں مستدرک والا متن ہے لیکن اسکو نقل کرنے کے بعدامام نسائی فرماتے ہیں :

. خالفه سعيد بن أبي عروبة، فرواه عن أيوب، عن عكرمة عن ابن عباس

سعید بن ابی عروبہ نے اس کی مخالفت کی ہے جو ایوب عن عکرمہ عن ابن عباس ہے

یعنی عکرمہ نے سند و متن میں مخالفت کی ہے جسکو سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا ہے

الغرض اس روایت کے سند و متن میں کئی علتیں ہیں اور تبھی امام ابن حجر عسقلانی اور امام ذھبی نے اس روایت کو غلط قرار دیا ہے

اور اسی روایت کو ابن سعد نے بیان کیا ہے اور اس میں بھی یہی علت ہے اور یہ روایت مضطرب ہے

اس باب کی اگلی روایت ابن ماجہ کے حوالے سے نقل کی جاتی ہے :

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أخبرنا الْعَلَاءُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:

قَالَ عَلِيٌّ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ، وَأَخُو رَسُولِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ، صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بسَبْعِ

حضرت علی نے فرمایا کہ میں عبداللہ ہوں اور میں بھائی ہوں رسول اللہ کا اور میں صدیق اکبر ہوں میرے علاوہ جو کہے گا وہ جھوٹا ہوگا

(معاذاللہ)

یہ روایت بھی جھوٹ اور کذب بیانی ہے

اس روایت کا مرکزی راوی عباد بن عبداللہ متروک و کذاب ہے

امام بخاری کہتے ہیں اس میں نظر ہے اور یہ جرح وہ متروک و کذاب درجے کے راوی پر کرتے ہیں :

عباد بن عبد الله الأسدي، يعد في الكوفيين، سمع عليا رضي الله عنه، سمع منه منهال بن عمرو، فيه نظر

(تاریخ الاسلام برقم :۱۵۹۴)

اس روایت کو امام ذھبی میزان الاعتدال میں اس راوی کے ترجمہ میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :

قلت: روى العلاء بن صالح، حدثنا المنهال، عن عباد بن عبد الله، عن علي، قال: أنا عبد الله، وأخو رسول الله، وأنا صديق الأكبر، وما قالها أحد قبلي، ولا يقولها إلا كاذب مفتر، ولقد أسلمت وصليت قبل الناس بسبع سنين.

قلت: هذا كذب على علي.

میں کہتاہوں کہ یہ جھوٹ ہے حضرت علی پر ؂

(میزان الاعتدال برقم : ۴۱۲۶)

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت علی کے بارے نبی اکرم سے منسوب ایک منکر و باطل روایت

بقلم: اسد الطحاوی الحنفی

عن علي، قال: بينا النبي صلى الله عليه وسلم أخذ بيدى فمررنا بحديقة، فقلت: ما أحسنها! قال: لك في الجنة أحسن منها، حتى مررنا بسبع حدائق، ويقول كذلك، حتى إذا خلا الطريق اعتنقني وأجهش باكيا، فقلت: ما يبكيك؟ فقال إحن في صدور قوم لا يبدونها لك إلا من بعدى.

قلت: في سلامة من دينى؟ قال: في سلامة من دينك.

حضرت علی علیہ السلا م فرماتے ہیں :

ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے میراہاتھ تھاما ہواتھا تو ہمارا گزر ایک باغ کے پاس سے ہوا تو میں نے کہا : یہ کتنا اچھا باغ ہے !

تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا : تمہیں جنت میں اس سے اچھا باغ ملے گا، یہاں تک کہ ہمارا گزر سات باغات کے پاس سےہوا تو نبی کرمﷺ یہی فرماتے رہے ۔پھر جب راستہ خالی ہو گیاتو نبی اکرمﷺ نے مجھے گلے لگالیا اور آپﷺرونے لگے میں نےعرض کی: آپ ﷺکیوں رو رہے ہیں ؟

تو نبی کرم ﷺنےفرمایا :

لوگوں کے دلوں میں کینہ ہے جو میرے بعد ظاہرکریں گے، میں نے عرض کی:

کیا میرے دین میں سلامتی ہوگی ؟ نبی اکرمﷺنےفرمایا:

تمہارے دین میں سلامتی ہوگی۔

۱۔اسکو امام ابو یعلی نے بھی اپنی مسند میں بیان کیا ہے برقم : 565

۲۔ امام البزار نے بھی اپنی مسند میں برقم: 716 پر روایت کیا ہے

۳۔ امام الموفق بن أحمد بن محمد الخطیب الخوارزمی الحنفیؒ نے بھی اسکو اپنی کتاب

مناقب علی میں درج کیا ہے (جسکا اسکین نیچےموجود ہے )

اس متن کے ساتھ جو اوپربیان کیا گیاہےاسکی تمام اسناد جتنے بھی محدثین نے بیان کی ہیں جب جا کر الفضل بن عمیرہ تک جا ملتی ہیں

اورپھر اسکی سند یوں بنتی ہے

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ عُمَيْرَةَ أَبُو قُتَيْبَةَ الْقَيْسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَيْمُونُ الْكُرْدِيُّ أَبُو نُصَيْرٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ بلخ۔۔۔

اس خاص متن سے اس روایت کو بیان کرنے والا راوی الفضل بن عمیرہ ہے اور اس راوی کے بارے میں محدثین و ناقدین کی رائے مندرجہ ذیل ہے

۱۔امام ابن حبان نے اسکو اپنی کتاب الثقات میں درج کیا ہے

14884 – الفضل بن عميرة الكوفي يروي عن أبي نعيم ثنا عنه حاجب بن أركين الفرغاني

(الثقات)

اور ابن حبان مجہولین کی توثیق کرنے میں منفرد متساہل ہیں

۲۔ امام ابی حاتم اسکےحالات پر لا علم رہےچونکہ انہوں نےاس پر کوئی جرح یا تعدیل نہیں کی ہے

370 – الفضل بن عميرة الطفاوى روى عن ميمون الكردى روى عنه جعفر بن سليمان وحرمى بن عمارة والفيض بن الوثيق الثقفي سمعت أبي يقول ذلك.

(الجرح والتعدیل لا ابن ابی حاتم)

۳۔ امام عقیلی ان پر ضعف کی جرح کرتے ہیں اور کہتے ہیں اسکی روایات میں نکارت ہوتی ہے اسکی کوئی متابعت نہیں کرتا ہے

۴۔ امام الساجی اسکو ضعیف کہتے ہیں

518- “خ – الفضل” بن عميرة القيسي1 الطفاوي أبو قتيبة البصري روى عن ثابت البناني وميمون الكردي روى عنه جعفر بن سليمان الضبعي وحرمي بن حفص بن عمارة وإدريس بن يزيد الأودي وعمرو بن حصين العقيلي والفضل بن وثيق ذكره بن حبان في الثقات قلت ذكره الساجي في الضعفاء وقال في حديثه ضعف وعنده مناكير وقال العقيلي لا يتابع عليه وأورد له عن ميمون بن سياه عن أبي عثمان سمعت عمر يرفعه سابقنا سابق ومقتصدنا ناج وظالمنا مغفور له

(تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی)

۵۔ امام ذھبیؒ اسنکو الضعفاء میں درج کر کے منکر الحدیث قرار دیتے ہیں

3374 – الفضل بن عميرة القيسي: عن ميمون بن سياه، منكر الحديث.

نیز اس خاص روایت کو امام ذھبیؒ نے میزان الاعتدال میں اسی راوی کےترجمے میں بیان کر کے اس روایت کے تحت فضل بن عمیرہ کو منکر الحدیث قرار دیاہے

اورخود ابن حجر عسقلانیؒ بھی اسکو لین کمزور حافظے والا راوی مانتے ہیں

5410- الفضل ابن عميرة الطفاوي أبو قتيبة البصري فيه لين من السابعة عس

(تقریب التہذیب لا ابن حجر)

الغرض یہ راوی منفرد ہے اس روایت کو اس متن سے بیان کرنے میں جو کہ منکر الحدیث اور ضعیف راوی ہے

نیز اسکی توثیق کسی معتبر محدث سے ثابت نہیں ہے

تو اس متن سے یہ روایت باطل و مردود ہے

البتہ ایک مختصر متن سے روایت حضرت ابن عباس سے مروی ہے جسکی سند و متن کچھ یوں ہے

4677 – أخبرنا أحمد بن سهل الفقيه، ببخارى، ثنا سهل بن المتوكل، ثنا أحمد بن يونس، ثنا محمد بن فضيل، عن أبي حيان التيمي، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي: «أما إنك ستلقى بعدي جهدا» قال: في سلامة من ديني؟ قال: «في سلامة من دينك» هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه “

[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4677 – على شرط البخاري ومسلم

(المستدرک الحاکم)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :

نبی کریمﷺ نےحضرت علی سے فرمایا تم میرے بعد مشقت میں مبتلا کیے جاو گے

حضرت علی سے عرض کی (یا رسول اللہﷺ ان حالات میں ) میرا ایمان سلامت رہے گا؟

آپﷺنےفرمایا تیرا دین سلامت رہے گا

اس کی سند کو امام حاکم نے صحیحین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے

اور امام ذھبیؒ نے بھی موافقت کی ہے امام حاکم سے

اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو منکر روایت میں ہے

دعاگو: خادم الحدیث رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی