کاش میں ابو بکر کے سینے میں ایک بال ہوتا!.

سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ليتني شعرة في صدر أبي بكر رضي الله عنه.

ترجمہ: کاش میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سینے میں ایک بال ہوتا۔

مذکورہ بالا اثر کی تخریج:-

مذکورہ اثر کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے متعدد محدثین نے اپنی تصانیف میں مختلف طرق سے روایت کیا ہے، ذیل میں اختصار کے ساتھ ان کا ذکر کیا جاتاہے:

١- حسن بن یسار ابو سعید بصری (م١١٠/ھ):-

اثر مذکور کو حسن بصری کے طریق سے ابن بطہ نے “الابانۃ الکبری” میں روایت کیا.

٢- مالک بن مغول ابو عبداللہ کوفی (م١٥٨/ھ):-

مالک بن مغول کے طریق سے اثر مذکور کو ابوبکر ابن ابی الدنیا نے “کتاب المتمنین” میں، اور معاذ بن مثنی نے “زوائد مسند مسدد” میں روایت کیا۔

٣- عبد الملک بن حبیب ابو عمران جونی بصری(م١٢٣/ھ):-

ابو عمران جونی کے طریق سے ابن بطہ نے “الابانۃ الکبر” میں، ابن ابی الدنیا نے “کتاب المتمنین” میں، ابو طاہر سلفی نے “مشیخۂ بغدادیہ” کی کتاب ثانی وعشرون میں، نیز ابن عساکر نے “تاریخ دمشق” میں روایت کیا۔

٤- سفیان بن عیینہ ابو محمد (١٩٨/ھ):-

سفیان بن عیینہ کے طریق سے ابن عساکر نے “تاریخ دمشق” میں روایت کیا۔

{مذکورہ اثر کی استنادی حیثیت}

راقم کے نزدیک مذکورۃ الصدر اثر کی اسانید مندرجہ بالا روات تک صحیح ہیں، البتہ ان روات اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، کیوں کہ حسن بصری کے علاوہ ان روات میں سے کسی نے حضرت عمر کا زمانہ نہیں پایا، حسن بصری کو آپ کے زمانہ مبارک کے آخری دو سال ملے، سماعت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی حضرت عمر کی شہادت ہوگئی۔ حضرت حسن بصری کی تاریخ پیدائش ( ٢١/ھ) ہے، اور سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت (٢٣/ھ) میں ہوئی۔

لہٰذا اثر مذکور کی درج بالا تمام اسانید منقطع ہوئیں۔

منقطع کو باعتبار معنی ثانی مرسل بھی کہا جاتا ہے، اس لیے روایات مذکورہ بالا کو مرسل بھی کہ سکتے ہیں۔

{حسن بصری کی مراسیل کا حکم}

یوں تو عام طور پر محدثین غیر صحابہ کی مراسیل کو ضعیف مانتے ہیں، تاہم حضرت حسن بصری کی مراسیل سے متعلق محدثین کا اختلاف ہے، امام احمد بن حنبل (امام احمد کا دوسرا قول قبولیت کا بھی ہے، بلکہ ابن مفلح حنبلی نے اسی کو ترجیح دی ہے)، امام دارقطنی، امام محمد بن سعد، امام بیہقی، حافظ عبد الحق اشبیلی، حافظ ابن قطان فاسی، حافظ شمس الدین ذہبی، حافظ ابو الفضل عراقی وغیرہ حسن بصری کی مراسیل کو ضعیف بتاتے ہیں۔

جب کہ نقاد محدثین کی ایک بڑی جماعت حسن بصری کی مراسیل کو قوی مانتی ہے، سر دست چند حوالے ذکر کئے جاتے ہیں:

١- استاذ اساتذۂ بخاری ومسلم امام الجرح والتعدیل یحیی بن سعید قطان بصری (م١٩٨/ھ)فرماتے ہیں:

ما قال الحسن في حديثه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا وجدنا له أصلا، إلا حديثا أو حديثين.

ترجمہ: ایک دو حدیث کے علاوہ جس حدیث کے بارے میں بھی حسن بصری نے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا ہمیں اس کی اصل مل گئی۔

(شرح علل الترمذی ص٥٣٦)۔

علامہ ابن رجب حنبلی کتاب مذکور میں اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: يدل على أن مراسيله جيدة.

ترجمہ: یہ قول اس بات پر دلیل ہے کہ حسن بصری کی مراسیل قوی ہیں۔

٢- امام العلل استاذ بخاری ومسلم حضرت علی بن عبداللہ مدینی (م١٣../ھ) فرماتے ہیں: مرسلات الحسن البصري التي رواها عنه الثقات صحاح، ما أقل ما يسقط منها.

ترجمہ: حسن بصری کی وہ مراسیل جنھیں آپ سے ثقہ راویوں نے روایت کیا ہے صحیح ہیں، ان میں سے بہت کم ہی ساقط ہوں گی۔

(شرح علل الترمذی لابن رجب الحنبلی ٥٣٧)۔

٣- امام الجرح والتعدیل یحیی بن معین فرماتے ہیں: مرسلات الحسن البصري ليس بها بأس.

ترجمہ: حسن بصری کی مرسل روایات بے غبار ہیں.

(تاریخ یحیی بن معین بروایت دوری، ج ٤/ ص٢٥٨/ روایت نمبر ٤٢٤٨)۔

٤- امام ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں:

كل شيء قال الحسن: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجدت له أصلا ثابتا، ما خلا أربعة أحاديث.

ترجمہ: ہر وہ حدیث جس میں حسن بصری نے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا سوائے چار احادیث کے مجھے سب کی ثابت شدہ اصل مل گئی۔

(الارشاد للخلیلی ج ٢/ص ٦٨٠).

٥- امام عبد اللہ بن مبارک، حسن بصری کی ایک مرسل روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: هذا من جيد الحديث.

یہ حدیث قوی ہے۔

(شعب الایمان للبیہقی حدیث نمبر ٩٨٦٦).

ان اجلۂ محدثین کے اقوال کی روشنی میں بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ محدثین کے نزدیک حضرت حسن بصری کی درج بالا مرسل روایت عام مراسیل کی مانند ساقط الاعتبار نہیں، بلکہ یہ روایت قوی ہے ، قابل قبول ہے، خصوصا جب کہ اس کی تائید میں دیگر مراسیل موجود ہیں، جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔

ابو المعین اسلم نبیل ازہری

١٣/ فروری ٢٠٢١ء