حافظ ابن حجرعسقلانی علیہ الرحمہ اورمعمولات ماہ رجب*

حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے ماہ رجب المرجب کے حوالے سے مکمل ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے جس کا نام ہے۔ “تبيين العجب بما ورد في شهر رجب” جس میں حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے معمولات ماہ رجب پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے۔ فقیر اس میں سے صرف بعض وہ روایات نقل کرتا ہے جس سے حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے اس ماہ کی فضیلت یا بعض معمولات رجب ثابت فرمائے ہیں تاکہ ان لوگوں کا رد ہو جو مطلقا اس ماہ کے فضیلت یا بعض معمولات کا انکار کرتے ہیں۔

رجب میں خصوصی عبادت اور اس ماہ کی خاص فضلیت

حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ ابتداء رجب کی خصوصی فضیلیت اور عبادت پر “سنن النسائی” کی درجہ ذیل حدیث نقل فرمائی ہے۔

حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ. قَالَ : ” ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ “.

(كِتَابُ الصِّيَامِ | صَوْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ رقم الحديث ٢٣٥٧)

حدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا: فهذا فيه اشعار بان في رجب مشابهة برمضان، و ان الناس يشتغلون من العبادة بما يشتغلون به في رمضان، و يغفلون عن نظير ذالك في شعبان. لذالك كان يصومه. و في تخصيص ذالك بالصوم اشعار بفضل رجب و ان ذالك كان من المعلوم المقرر لديهم.

رجب کا روزہ مستحب ہے

اس کے بعد رجب میں روزہ رکھنے کی استحباب پر “سنن ابی داود” کی درجہ ذیل حدیث نقل فرمائی ہے۔

عَنْ مُجِيبَةَ الْبَاهِلِيَّةِ ، عَنْ أَبِيهَا – أَوْ عَمِّهَا – أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ انْطَلَقَ فَأَتَاهُ بَعْدَ سَنَةٍ وَقَدْ تَغَيَّرَتْ حَالُهُ وَهَيْئَتُهُ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَا تَعْرِفُنِي ؟ قَالَ : ” وَمَنْ أَنْتَ ؟ “. قَالَ : أَنَا الْبَاهِلِيُّ الَّذِي جِئْتُكَ عَامَ الْأَوَّلِ. قَالَ : ” فَمَا غَيَّرَكَ وَقَدْ كُنْتَ حَسَنَ الْهَيْئَةِ ؟ “. قَالَ : مَا أَكَلْتُ طَعَامًا إِلَّا بِلَيْلٍ مُنْذُ فَارَقْتُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لِمَ عَذَّبْتَ نَفْسَكَ ؟ “. ثُمَّ قَالَ : ” صُمْ شَهْرَ الصَّبْرِ وَيَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ “. قَالَ : زِدْنِي ؛ فَإِنَّ بِي قُوَّةً. قَالَ : ” صُمْ يَوْمَيْنِ “. قَالَ : زِدْنِي. قَالَ : ” صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ “. قَالَ : زِدْنِي. قَالَ : ” صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ، صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ، صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ “. وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ الثَّلَاثَةِ فَضَمَّهَا، ثُمَّ أَرْسَلَهَا.

(سنن أبي داود | كِتَابٌ : الصَّوْمُ | بَابٌ : فِي صَوْمِ أَشْهُرِ الْحُرُمِ رقم الحدیث ٢٤٢٨)

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: *ففي هذا الخبر و ان في اسناده من لا يعرف *ما يدل علي استحباب صيام بعض رجب لانه احد اشهر الحرم.*

ماہ رجب میں روزے کی فضیلت

اس کے بعد روزے کی فضیلت پر درجہ ذیل حدیث نقل فرمائی۔

من صام ثلاثة أيام من شهر حرام: الخميس والجمعة والسبت كتب له عبادة سبعمائة سنة. فرويناه في تمام الرازي و في سنده ضعفاء و مجاهيل.

اس حدیث کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں لیکن اس بناء پر یہ حدیث صرف ضعیف ہے موضوع نہیں کما لا یخفی۔

نوٹ: امام طبرانی نے معجم الاوسط میں مذکورہ حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے “سنتين سنة” کے الفاظ کے ساتھ روایت فرمائی ہے۔ قال الهيثمي: ويعقوب مجهول، ومسلمة إن كان الخشني فهو ضعيف، وإن كان غيره فلم أعرفه.

اس کے بعد حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: و اما الاحاديث الواردة في فضل رجب او في فضل صيامه، او صيام شيئ منه صريحة، فهي علي قسمين؛ ضعيفة أو موضوعة، و نحن نسوق الضعيفة و نشير الي الموضوعة اشارة مفهمة.

نوٹ: حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کی اس عبارت “

و اما الاحاديث الواردة في فضل رجب او في فضل صيامه، او صيام شيئ منه صريحة، فهي علي قسمين؛ ضعيفة”

سے ان لوگوں کا رد ہوا جو حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کے اس رسالے کی ابتدائی عبارت “لم يرد في فضل شهر رجب، ولا في صيامه، ولا في صيام شيئ منه معين، ولا في قيام ليلة مخصوصة فيه حديث صحيح يصلح للجة. اور اسی طرح دیگر بعض علماء کی عبارات پیش کرتے ہیں کہ فضیلت رجب یا فضیلت صوم رجب میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں اور اسی کی آڑ میں اس ماہ کے فضائل اور اس میں روزوں کا مطلقا بالکلیہ انکار کرتے ہیں۔ یعنی وہ یہاں “صحیح” کو معنی عرفی عام پر محمول کرتے ہیں حالانکہ یہاں “صحیح” اپنے معنی خاص اصطلاحی یعنی مصطلح باصطلاح محدثین پر محمول ہے۔ صحیح بالمعنی الاعم عرفی مراد نہیں بلکہ صحیح بالمعنی الاخص اصطلاحی باصطلاح محدثین مراد ہے۔

اس کے بعد حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے احادیث ضعیفہ میں سے سب سے پہلے درجہ ذیل حدیث نقل فرمائی۔

إن في الجنة نهرا يقال له : رجب ، ماؤه أبيض من اللبن وأحلى من العسل ، من صام يوما من رجب سقاه الله من ذلك النهر.

اس حدیث کی تفصیلی تخریج اور روات پر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد فرماتے ہیں: قلت فالاسناد ضعيف في الجملة، لكن لا يتهيأ الحكم عليه بالوضع.

نوٹ: اس حدیث امام سیوطی علیہ الرحمہ نے بھی الحاوی للفتاوی میں صرف ضعیف فرمایا ہے۔

اس کے بعد کئی احادیث ضعیفہ نقل فرمائی۔ جس کو ہم تطویل کی وجہ سے ترک کر رہے ہیں۔

اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کے نزدیک بھی اس ماہ کی ایک خاص فضیلت ہے اسی طرح اس میں خصوصی عبادت یا روزہ رکھنا بھی باعث فضیلت اور ثابت ہے۔ ان روایات کا مطلقا بالکلیہ انکار کرنا یا ان روایات کو موضوع منگھڑت کہنا یا ماہ رجب کے فضائل اور اس میں عبادات اور روزہ رکھنے کا مطلقا بالکلیہ انکار کرنا بالکل غلط ہے۔ جب حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ جیسے حافظ الحدیث اور ناقد کے نزدیک یہ روایات موضوع منگھڑت نہیں تو ہم کیوں موضوع منگھڑت کہے؟

اللہ تعالی ہم سب اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اپنے اکابرین کے دامن سے وابسطہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین۔

واللہ اعلم بالصواب

ابو الحسن محمد شعیب خان

14 فروری 2021