کعبے میں ولادت ــــــ امام حاکم کے دعوے پر ایک نظر
🕋 کعبے میں ولادت ــــــ امام حاکم کے دعوے پر ایک نظر 🔖🔍
☰☰☰☰☰☰☰
✒تحریر : نثار مصباحی
➖➖➖➖
حضرتِ حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت تمام اہل سنت کے نزدیک متفق علیہ ہے.
امام مسلم رحمہ اللہ (وفات 261ھ) نے صحیح مسلم شریف میں لکھا ہے:
“ولد حكيم بن حزام في جوف الكعبة وعاش مئة وعشرين سنة.”
(صحیح مسلم، كتاب البيوع، باب الصدق في البيع)
احوال قریش کے ماہر اور امام, مصعب بن عبد اللہ الزبیری (متوفی 236ھ) نے صاف کہا ہے کہ صرف حکیم بن حزام خانۂ کعبہ میں پیدا ہوئے. نہ ان سے پہلے کوئی پیدا ہوا اور نہ بعد میں.!!!
مصعب بن عبد اللہ الزبیری, یہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں. انساب و احوالِ قریش کے امام ہیں. 236ھ میں وفات ہوئی.
ان کا ہی قول سند کے ساتھ امام حاکم نے نقل کیا ہے کہ “حضرت حکیم بن حزام خانۂ کعبہ میں پیدا ہوئے. نہ ان سے پہلے کوئی پیدا ہوا نہ ان کے بعد”. پھر اسی پر امام حاکم نے نقد کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ حضرتِ علی کرم اللہ تعالی وجہہ کی ولادت متواتر ہے.
مگر اصولی طور پر امام حاکم کا یہ نقد درست نہیں.
اگر امام حاکم کے کلام میں تواتر کو اصطلاحی معنوں پر محمول کیا جائے تو تواتر کے لیے ہر زمانے میں اتنے افراد کا بیان ضروری ہے جن کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃً محال ہو.
اگر مولاے کائنات کی ولادت متواتر ہوتی تو دو چیزیں ضرور ہوتیں:
1- مصعب زبیری کے زمانے میں بھی کعبے میں ولادت تواتراً منقول ہوئی ہوتی. کیوں کہ ان کا زمانہ پہلے ہے.
2- کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حدیثی کتاب میں یہ قول ضرور مذکور ہوتا.
مگر ایک طرف مصعب زبیری صاف نفی کر رہے ہیں کہ حکیم بن حزام کے سوا کسی کی ولادت خانۂ کعبہ میں نہیں ہوئی. اور دوسری طرف حاکم کے زمانے (چوتھی صدی کے اختتام) سے پہلے کسی محدث کے یہاں یا کسی حدیثی کتاب میں کہیں یہ قول نہیں ملتا. نہ سند کے ساتھ اور نہ بلا سند.
اس کا واضح مطلب ہے کہ کوئی تواتر نہیں تھا. کیوں کہ متواتر کے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہوتی. اور متواتر چیز ایک جم غفیر کے ذریعے منقول و مروی بھی ہوتی ہے.
اسی لیے امامِ حاکم نے حضرتِ ام ہانی کے تذکرے میں جو یہ لکھ دیا تھا:
قد تواترت الأخبار بأن اسمہا فاختۃ
اس پر امام ذہبی نے سوال قائم کر دیا:
قلت: وأین التواتر؟
یعنی اگر یہ متواتر ہے تو وہ تواتر کہاں ہے؟ کہیں تو اسے منقول ہونا چاہیے ؟
اسی طرح یہ سوال اِس دعواے تواتر پر بھی قائم ہوگا کہ اگر مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت متواتر ہے, تو وہ تواتر کہاں ہے؟ کہیں کسی روایت میں کوئی نام و نشان تو ہونا چاہیے تھا؟؟
جو حضرات امام حاکم کے اس دعوے میں لفظ تواتر کو معروف اصطلاحی معنوں میں لیتے ہیں ان کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اس دعوے کا ثبوت بھی فراہم فرمائیں, ورنہ دعوی بلا دلیل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی.
اور اگر امام حاکم کے اس لفظِ تواتر کو تواتر کے اصطلاحی اور معروف معنوں میں نہیں بلکہ صرف ما اشتہر علی الألسنۃ یعنی زبان زد کے معنے میں لیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت کی بات امام حاکم کے دور میں بس لوگوں کے درمیان مشہور ہو گئی تھی. ظاہر ہے چار سو سال بعد بلا دلیل بلکہ خلافِ دلیل زبان زد ہوجانے والی چیز حجت نہیں بن سکتی.
دوسری اصولی بات یہ کہ امام حاکم نے (حکیم بن حزام کی ولادت کی نفی نہیں کی ہے, بلکہ ان کے ماسوا کی نفی کو وہم قرار دیتے ہوئے) مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی دعوی کیا ہے. مگر دلیل کچھ بھی نہیں دی.!!!
اب یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ امام حاکم انساب و احوالِ قریش کے فن میں مصعب زبیری کے ہم پلہ نہیں ہیں. اور ان کا زمانہ بھی بعد کا ہے. حاکم کی وفات 405ھ میں ہوئی ہے.
مصعب زبیری جو زمانے کے اعتبار سے متقدم اور اس میدان کے ماہر بلکہ امام اور امام حاکم پر فائق ہیں وہ صرف حکیم بن حزام کی ولادت مانتے ہیں.
اب اگر بالفرض دونوں کی بات بےدلیل مان لی جائے تو بھی مصعب کی بات دو وجہوں سے صحیح اور راجح قرار پائے گی.
پہلی یہ کہ دیگر اقوال و روایات سے ان کے قول کی تائید ہوتی ہے.
اور دوسری یہ کہ جس فن کا یہ مسئلہ ہے اس میں ان کا پایہ امام حاکم سے بہت بلند ہے, بلکہ وہ خود اتھارٹی ہیں. اس لیے حاکم کا دعوی بلادلیل مصعب کے قول کی تردید و تغلیط نہیں کر سکتا.
واضح رہے کہ حضرتِ علی کی خانۂ کعبہ میں ولادت پر اہل سنت کے یہاں کوئی روایت نہیں ہے. امام حاکم نے تواتر کا دعوی کر دیا ہے. مگر کوئی دلیل نہیں دی.
اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان کی عبارت لفظ بلفظ نقل کر دی ہے. خود تحقیق نہیں فرمائی ہے.
امام ذہبی نے خود کہیں یہ نہیں کہا کہ حضرتِ علی کی ولادت کعبے میں ہوئی ہے. تلخیص المستدرک میں مستدرک کے اسی مقام پر موجود حدیث پر سکوت کو کچھ لوگ حافظ ذہبی کی طرف سے تائید مانتے ہیں, جب کہ سکوتِ محض کو حجت اور تائید مانا ہی نہیں جا سکتا جب تک کہ امام ذہبی خود اس
کی صراحت نہ کر دیں.
امام ذہبی نے ایسی کوئی صراحت کہیں نہیں کی ہے کہ جہاں مَیں خاموش رہوں وہاں میری تائید اور حمایت سمجھی جائے. سنن ابو داؤد میں جن حدیثوں پر امام ابوداؤد سکوت فرماتے ہیں ان حدیثوں کو امام ابوداؤد کے نزدیک صالح اور قوی مانا جاتا ہے, اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے “رسالۃ ابی داؤد الی أھل مکۃ” میں اس کی صراحت کر دی ہے کہ جس حدیث پر مَیں سکوت کروں وہ حدیث میری نظر میں صالح/قوی ہوتی ہے.
جب امام ذہبی نے تلخیص المستدرک میں ایسی کوئی تصریح نہیں کی ہے تو تلخیص المستدرک میں ان کے سکوت کو تائید اور موافقت سمجھنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟
یہ ایک عام اصول ہے جو تلخیص المستدرک میں حافظ ذہبی کے سکوت کے بارے میں یاد رکھنے کے لائق ہے.
یہاں ایک چیز یہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ بعض علما کے نزدیک ان کے سکوت کو جو موافقت سمجھا جاتا ہے وہ فقط احادیث پر محدثانہ حکم اور ان کی اسنادی حیثیت کے بارے میں سمجھا جاتا ہے. ان کے سکوت کو امام حاکم کے غیر متعلق دعؤوں یا ان کے ہر ہر لفظ کے بارے میں موافقت کوئی نہیں مانتا.
اور یہ مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت والی بات امام حاکم نیشاپوری کا صرف ایک دعوی ہے, اس پر کوئی حدیث انھوں نے مستدرک میں پیش نہیں کی ہے. اس لیے یہاں سکوت کو موافقت ماننے کا کوئی جواز کسی کے نردیک نہیں.
لہذا امام ذہبی کا سکوت اس ولادت والے امام حاکم کے اپنے دعوے پر منطبق کرنا لاعلمی یا فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے.
ہاں, اگر اس دعوے پر امام حاکم نے کوئی ایک حدیث بھی پیش فرمائی ہوتی اور امام ذہبی اُس حدیث پر سکوت فرماتے تو بعض اہل علم کی اس راے کے مطابق اسے موافقت پر محمول کیا جا سکتا تھا, لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے.
یہی امام ذہبی سیر أعلام النبلاء میں حضرت حکیم بن حزام کے تعارف میں لکھتے ہیں :
“قال ابن منده : ولد حكيم في جوف الكعبة ، وعاش مائة وعشرين سنة . مات سنة أربع وخمسين .
روى الزبير ، عن مصعب بن عثمان قال : دخلت أم حكيم في نسوة الكعبة ، فضربها المخاض ، فأتيت بنطع حين أعجلتها الولادة، فولدت في الكعبة.”
امام ابن مندہ نے کہا: حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے. 120 سال عمر ہوئی. 54ھ میں وفات ہوئی.
واللہ تعالی أعلم.
نثارمصباحی
17 رجب 1440ھ
25 مارچ 2019ء