حدیث نمبر 630

روایت ہےحضرت سائب ابن یزیدسے فرماتےہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرصدیق وعمر فاروق کے زمانہ میں جمعہ کی پہلی اذان جب ہوتی تھی جب امام ممبر پربیٹھتا ۱؎ جب حضرت عثمان کا زمانہ ہوا اورلوگ بڑ ھ گئے تو آپ نے مقام زوراء پرتیسری اذان زیادہ کی۲؎(بخاری)

شرح

۱؎ یعنی پہلی اذان خطبے کی ہوتی ہے اور دوسری اذان خطبہ کے بعدیعنی تکبیر۔شریعت میں تکبیرکوبھی اذان کہاجاتاہے اس حدیث کی بنا پربعض لوگوں نے کہا کہ خطبہ کی اذان سےتجارتیں اور دنیاوی کاروبارحرام ہوتےہیں کیونکہ آیت کریمہ”اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ”الخ جب نازل ہوئی تو پہلی اذان تھی ہی نہیں۔

۲؎ زوراء کےمعنی دوربھی ہیں اورٹیڑھا بھی۔اہل عرب کہتے ہیں قَوْسٌ زَوْرَآءُ ٹیڑھی کمان اور کہتے ہیں اَرْضٌ زَوْرَاءٌ دورکی زمین۔یہاں مدینہ منورہ کی وہ جگہ مرادہے جومسجدسے دور اورمسجد کے مقابل سےہٹی ہوئی بازار میں تھی،چونکہ یہ اذان ایجاد کے لحاظ سےتیسری ہے اس لیئے اسے ثالث فرمایا گیا۔ہشام ابن عبدالملک کے زمانہ تک یہ اذان مسجد سے دور ہوتی رہی،ہشام نے اسے داخل مسجدکیا۔(مرقاۃ)اب تک یہی رواج ہے اسی لیئے اس اذان کو حضرت ابن عمر بدعت فرماتے ہیں یعنی بدعت حسنہ۔اس حدیث سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ کی اذان بھی مسجد سے باہر ہو مگر امام کے مقابل کیونکہ جب حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پہلی اذان تھی ہی نہیں تو اگر یہ اذان بھی تکبیر کی طرح اندرون مسجد آہستہ آہستہ ہوجاتی ہو تو باہر والوں کو نماز کی اطلاع کیسے ہوسکتی تھی۔خیال رہے فتویٰ اس پر ہے کہ تجارتیں اور کاروبار بندکرنا اذان اول پر فرض ہے کیونکہ اِذَا نُوۡدِیَ مطلق ہے آیت کے معنے یہ ہیں کہ جب جمعہ کی ندا ہوجائے کاروبار چھوڑدو خواہ خطبہ کے وقت ہو یا اس سے پہلے۔