ماں کی ممتا

ماں کو اپنی اولاد سے بے حد محبت ہوتی ہے وہ سب کچھ برداشت کر لیتی ہے لیکن اولاد کو کوئی تکلیف پہونچے تو برداشت نہیں کرسکتی، ماں کو اپنی اولادجان سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔

رسول کریم ﷺ کے زمانے میں کسی صحابی نے کسی بات پر اپنی بیوی کو طلاق دیدی اور چاہا کہ اپنا بچہ بھی لے لیں۔ ماں کا برا حال تھا، ایک تو شوہر کے چھوٹنے کا صدمہ دوسرے یہ غم کہ یہ جگر کا ٹکڑا، غم غلط کرنے کا سہارا بھی چھن جائے گا۔ غم سے نڈھال، پریشان حال، رحمتِ عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنی بپتا (داستانِ غم ) بڑے ہی درد بھرے الفاظ میں سنائیں۔ ’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور میں ان کی سرپرستی سے محروم ہوگئی اے اللہ کے رسولﷺ! اب وہ مجھ سے میرے اس ’’ننھے ‘‘کو چھیننا چاہتے ہیں ‘‘اے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ میرا پیارا بچہ ہے، میرا پیٹ اس کی آرامگاہ ہے، میری چھاتیاں اس کی مشکیزہ ہیں اور میری گود اس کا گھروندا ہے مجھے اس سے آرام و سکون ہے۔ اے اللہ کے رسول ﷺ میں اس صدمے کو کیسے برداشت کروں گی ؟ رحمتِ دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا قرعہ اندازی کرلو باپ نے آگے بڑھ کر کہا یا رسول اللہﷺ ! یہ میرا بچہ ہے۔ میرے بچے کا بھلا اور کون دعویدار ہو سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے لڑکے کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا بیٹے تم جس کا ہاتھ چاہو پکڑ لو لڑکے نے ماں کا ہاتھ پکڑلیا۔ رحمتِ عالم ﷺ نے لڑکے کی ماں سے فرمایا جائو جب تک تم دوسرا نکاح نہ کرلو تم سے اس کو کوئی چھین نہیں سکتا۔ (اسلام اور احترام والدین)

ماں کے کلیجے سے ممتا بھری آواز

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک بد کار عورت پر عاشق ہو گیا اور اس نے اس سے شادی کرنے کا خیال ظاہر کیااس بد کار عورت نے یہ شرط رکھی کہ اگر تم اپنی ماں کا سینہ چاک کر کے اس کا کلیجہ میرے پاس لائو تو میںشادی کے لئے راضی ہوں۔ وہ بدبخت انسان اس بدکا ر عورت کے دام فریب میں آکر ایک رات اپنی ماں کو چھری سے ہلاک کرکے، سینہ چیر کر کلیجہ نکال کر اس بدکار عورت کے پاس جانے کے لئے روانہ ہوجاتا ہے۔ راستے میں ٹھو کر کھاکر گر پڑتا ہے اور ہاتھ سے کلیجہ بھی دور جا گرتا ہے تو اس کلیجہ سے آواز آتی ہے بیٹا !کہیں چوٹ تو نہیںلگی؟ یہ ہے ماں کی محبّتْ جسکی مثال نہیں ملتی کہ مرنے کے بعد بھی اپنی اولاد کی تکلیف کو گوارا نہیں کرتی۔