کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 15 رکوع 15 سورہ الکھف آیت نمبر 18 تا 22
وَ تَحْسَبُهُمْ اَیْقَاظًا وَّ هُمْ رُقُوْدٌ ﳓ وَّ نُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ﳓ وَ كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِؕ-لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْهِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَّ لَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا(۱۸)
اور تم انھیں جاگتا سمجھو (ف۲۲) اور وہ سوتے ہیں اور ہم ان کی د ا ہنی بائیں کروٹیں بدلتے ہیں (ف۲۳) اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے غار کی چوکھٹ پر (ف۲۴) اے سننے والے اگر تو انہیں جھانک کر دیکھے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور ان سے ہیبت میں بھر جائے(ف۲۵)
(ف22)
کیونکہ ان کی آنکھیں کُھلی ہیں ۔
(ف23)
سال میں ایک مرتبہ دسویں محرّم کو ۔
(ف24)
جب وہ کروٹ لیتے ہیں وہ بھی کروٹ بدلتا ہے ۔
فائدہ : تفسیرِ ثعلبی میں ہے کہ جو کوئی ان کلمات ” وَکَلْبُھُمْ بَاسِط ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ” کو لکھ کر اپنے ساتھ رکھے کتّے کے ضرر سے امن میں رہے ۔
(ف25)
اللہ تعالٰی نے ایسی ہیبت سے ان کی حفاظت فرمائی ہے کہ ان تک کوئی جا نہیں سکتا ۔ حضرت معاویہ جنگِ روم کے وقت کہف کی طرف گزرے تو انہوں نے اصحابِ کہف پر داخل ہونا چاہا ، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے انہیں منع کیا اور یہ آیت پڑھی پھر ایک جماعت حضرت امیرِ معاویہ کے حکم سے داخل ہوئی تو اللہ تعالٰی نے ایک ایسی ہوا چلائی کہ سب جل گئے ۔
وَ كَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِیَتَسَآءَلُوْا بَیْنَهُمْؕ-قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْؕ-قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍؕ-قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْؕ-فَابْعَثُوْۤا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّهَاۤ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْیَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْیَتَؔلَطَّفْ وَ لَا یُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا(۱۹)
اور یونہی ہم نے ان کو جگایا(ف۲۶) کہ آپس میں ایک دوسرے سے احوال پوچھیں (ف۲۷) ان میں ایک کہنے والا بولا (ف۲۸) تم یہاں کتنی دیر رہے کچھ بولے کہ ایک دن رہے یا دن سے کم (ف۲۹) دوسرے بولے تمہارارب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹھرے (ف۳۰) تو اپنے میں ایک کو یہ چاندی لے کر (ف۳۱) شہر میں بھیجو پھر وہ غور کرے کہ وہاں کون سا کھانا زیادہ ستھرا ہے (ف۳۲) کہ تمہارے لیے اس میں سے کھانے کو لائے اور چاہیے کہ نرمی کرے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے
(ف26)
ایک مدّتِ دراز کے بعد ۔
(ف27)
اور اللہ تعالٰی کی قدرتِ عظیمہ دیکھ کر ان کا یقین زیادہ ہوا اور وہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں ۔
(ف28)
یعنی مکسلمینا جو ان میں سب سے بڑے اور ان کے سردار ہیں ۔
(ف29)
کیونکہ وہ غار میں طلوعِ آفتاب کے وقت داخل ہوئے تھے اور جب اٹھے تو آفتاب قریبِ غروب تھا اس سے انہوں نے گمان کیا کہ یہ وہی دن ہے ۔
مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ اجتہاد جائز اور ظنِ غالب کی بنا پر قول کرنا درست ہے ۔
(ف30)
انہیں یا تو الہام سے معلوم ہوا کہ مدّت دراز گزر چکی یا انہیں کچھ ایسے دلائل و قرائن ملے جیسے کہ بالوں اور ناخنوں کا بڑھ جانا جس سے انہوں نے یہ خیال کیا کہ عرصہ بہت گزر چکا ۔
(ف31)
یعنی دقیانوسی سکّہ کے روپے جو گھر سے لے کر آئے تھے اور سوتے وقت اپنے سرہانے رکھ لئے تھے ۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مسافر کو خرچ ساتھ میں رکھنا طریقۂ توکل کے خلاف نہیں ہے چاہئے کہ بھروسہ اللہ پر رکھے ۔
(ف32)
اور اس میں کوئی شبۂ حرمت نہیں ۔
اِنَّهُمْ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ یَرْجُمُوْكُمْ اَوْ یُعِیْدُوْكُمْ فِیْ مِلَّتِهِمْ وَ لَنْ تُفْلِحُوْۤا اِذًا اَبَدًا(۲۰)
بےشک اگر وہ تمہیں جان لیں گے تو تمہیں پتھراؤ کریں گے (ف۳۳) یا اپنے دین (ف۳۴) میں پھیر لیں گے اور ایسا ہوا تو تمہارا کبھی بھلا نہ ہوگا
(ف33)
اور بُری طرح قتل کریں گے ۔
(ف34)
یعنی جبر و ستم سے کُفری ملّت ۔
وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا ﱐ اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًاؕ-رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْؕ-قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا(۲۱)
اور اسی طرح ہم نے ان کی اطلاع کردی (ف۳۵) کہ لوگ جان لیں (ف۳۶) کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کچھ شبہ نہیں جب وہ لوگ ان کے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے (ف۳۷) تو بولے ان کے غار پر کوئی عمارت بناؤ ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے تھے (ف۳۸) قسم ہے کہ ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے (ف۳۹)
(ف35)
لوگوں کو دقیانوس کے مرنے اور مدّت گزر جانے کے بعد ۔
(ف36)
اور بیدروس کی قوم میں جو لوگ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں انہیں معلوم ہو جائے ۔
(ف37)
یعنی ان کی وفات کے بعد ان کے گرد عمارت بنانے میں ۔
(ف38)
یعنی بیدروس بادشاہ اوراس کے ساتھی ۔
(ف39)
جس میں مسلمان نماز پڑھیں اور ان کے قرب سے برکت حاصل کریں ۔ (مدارک)
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے مزارات کے قریب مسجدیں بنانا اہلِ ایمان کا قدیم طریقہ ہے اور قرآنِ کریم میں اس کا ذکر فرمانا اور اس کو منع نہ کرنا اس فعل کے درست ہونے کی قوی ترین دلیل ہے ۔ مسئلہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بزرگوں کے جوار میں برکت حاصل ہوتی ہے اسی لئے اہلُ اللہ کے مزارات پر لوگ حصولِ برکت کے لئے جایا کرتے ہیں اور اسی لئے قبروں کی زیارت سنّت اور موجبِ ثواب ہے ۔
سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًۢا بِالْغَیْبِۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّ ثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْؕ-قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ ﲕ فَلَا تُمَارِ فِیْهِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاهِرًا۪-وَّ لَا تَسْتَفْتِ فِیْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا۠(۲۲)
اب کہیں گے (ف۴۰) کہ وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا اور کچھ کہیں گے پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا بے دیکھے الاؤ تکا(بے تکی) بات (ف۴۱) اور کچھ کہیں گے سات ہیں (ف۴۲) اور آٹھواں ان کا کتا تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتا ہے (ف۴۳) انہیں نہیں جانتے مگر تھوڑے (ف۴۴) تو ان کے بارے میں (ف۴۵) بحث نہ کرو مگر اتنی ہی بحث جو ظاہر ہوچکی (ف۴۶) اور ان کے (ف ۴۷) بارے میں کسی کتابی سے کچھ نہ پوچھو
(ف40)
نصرانی ۔ جیسا کہ ان میں سے سید اور عاقب نے کہا ۔
(ف41)
جو بے جانے کہہ دی کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی ۔
(ف42)
اور یہ کہنے والے مسلمان ہیں اللہ تعالٰی نے ان کے قول کو ثابت رکھا کیونکہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ نبی علیہ الصلٰوۃ و السلام سے علم حاصل کر کے کہا ۔
(ف43)
کیونکہ جہانوں کی تفاصیل اور کائناتِ ماضیہ و مستقبلہ کا علم اللہ ہی کو ہے یا جس کو وہ عطا فرمائے ۔
(ف44)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ میں انہیں قلیل میں سے ہوں جن کا آیت میں استثناء فرمایا ۔
(ف45)
اہلِ کتاب سے ۔
(ف46)
اور قرآن میں نازِل فرما دی گئی آپ اتنے ہی پر اکتفا کریں اور اس معاملہ میں یہود کے جہل کا اظہار کرنے کے درپے نہ ہوں ۔
(ف47)
یعنی اصحابِ کہف کے ۔