علماء کو جاننا چاہئیے کہ آج کا نوجوان پہلے والا نہیں ہے، وہ آپ کے پاس آنے سے پہلے سرچ کر چکا ہوتا ہے، کئی ویب سائٹس، میڈیا اور سوشل میڈیا سے معلومات حاصل کر چکا ہوتا ہے، اس کے پاس آپ سے زیادہ معلومات ہوتی ہیں

لیکن اسے غلط صحیح کی تمیز نہیں ہوتی، آپ کے پاس اِلّا ماشاءاللہ غلط سہی کی تمیز تو ہوتی ہے لیکن معلومات نہیں ہوتیں تو اس کے بار بار سوال کرنے پر غصے مت ہوا کریں، اس کو جھڑکا مت کریں، مطالعہ بڑھائیں، اسے مطمئن کرنے کی کوشش کریں، آپ سے نہیں ہوتا تو کسی بڑے عالم کے پاس لے کر جائیں وہ

آپ کا بازو بنے گا، یہ مت سوچیں کہ کسی اور عالم کے پاس بھیجا تو مجھ سے اعتقاد اٹھ جائے گا، اپنی ذات کو چھوڑیں، دین کو دیکھیں یہ نظریاتی جنگ کا دور ہے اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم مسلسل پیچھے جا رہے ہیں، اس کا سب سے بڑا سبب جو میں سمجھتا ہوں وہ ذاتی جاہ کی طلب اور سوال کو معیوب سمجھنا ہے، ہو سکتا ہے آپ کی نظر میں کوئی اور سبب ہو، آپ کو مجھ سے اختلاف کا پورا حق ہے، یاد رکھیں یہ دور مجادلے اور مناظرے کا نہیں ہے، یہ مکالمے کا دور ہے، اگلے کو قائل کرنے کا دور ہے، زمانہ بدل چکا ہے، آپ نے دو سو سال پہلے والی روش آج رکھی تو نہیں چل پائیں گے،

جانتے ہیں امام رازی اور غزالی آج کیوں زندہ ہیں؟ انہوں نے وقت کے تقاضے کو سمجھا اس وقت کے فلسفے کو پڑھا اور سمجھا اور اپنے دور کے عقل پرستوں کو جگہ جگہ چاروں شانے چت کیا، اسلام کے جسم میں نئی روح پھونکی اور ضمحلال کے بعد نیا نشاط پیدا کیا، آج پھر ایسے رجال کی ضرورت ہے جو کامل استعداد رکھتے ہوں، جدید فلسفے پر دسترس حاصل کریں، اس کو رد کریں اور دلائل سے اسے غلط ثابت کریں، ہم ایسا کر سکتے ہیں، مجھے یقین ہے، ہمت کریں آج بھی ایسے لوگ پیدا ہوسکتے ہیں جو امت مسلمہ کی تقدیر بدلیں، مدارس کی گودیں ابھی بانجھ نہیں ہوئیں، ہمارے دشمن آج کے دور میں آپسی فرقے نہیں ہیں، ہمارے اصل مخالف عقل کو امام سمجھنے والے ہیں، یہ سب سے خطرناک دشمن ہیں، جو نسل نو کے ذہن میں قطرہ قطرہ الحاد کا زہر انڈیل رہے ہیں، اور ہمیں اس کا ٹھیک ادراک شاید 50 سال بعد ہوگا لیکن تب تک شاید چڑیاں اڑ کر جا چکی ہوں گی کھیت خالی ہو چکا ہوگا، اس وقت کفِ افسوس ملنے سے کچھ نا ہوگا

سید عبدالستار اطہر کی وال سے ؂