ابن عبدالوھاب نجدی کا دعویٰ کہ اس سے پہلے کلمہ لا الہ الااللہ کا مطلب کسی نے بھی نہ سمجھا نہ ہی اسکے مشائخ سے بلکہ یہ خود تھا جسکو اصل توحید معلوم ہوئی اس کلمہ کی معرفت کو سمجھنے سے

(استغفار )

ابن عبدالوھاب کہتا ہے :

وأنا أخبركم عن نفسي والله الذي لا إله إلا هو، لقد طلبت العلم، واعتقد من عرفني أن لي معرفة، وأنا ذلك الوقت، لا أعرف معنى لا إله إلا الله، ولا أعرف دين الإسلام، قبل هذا الخير الذي من الله به؛ وكذلك مشايخي، ما منهم رجل عرف ذلك.

کہ میں اپنے بارے میں پہلے بتا دوں اللہ کی قسم جسکے علاوہ کوئی معبود نہیں میں نے علم حاصل کیا ہے اور مجھے یقین ہے جو مجھے جانتے ہیں میری معرفت کے بارے اس وقت سے میں نہیں جانتا تھا (اصل)مطلب لا الہ الا اللہ کا نہ ہی دین اسلام اور نہ ہی مجھ سے پہلے کوئی جانتا تھا ۔ اور نہ ہی میرے مشائخ میں کوئی جانتا تھا ۔اور میں ایک آدمی ہوں جو اس (لا الہ الا اللہ ) کا (اصل) مطلب جان پایا ہوں

( الدرر السنية في الأجوبة النجدية، جلد۱۰، ص۵۱)

استغفار یہ تھا ابن عبد الوھاب نجدی کا موقف کیونکہ جب اسکے رد میں اسکے بھائی نے کتاب لکھی تو انہوں نے چیلنج کیا تھا کہ تم اہل اسلام میں کسی سے بھی ایک فتویٰ پیش کر دو کہ استغاثہ شرک ہے اس مسلے پر جب ابن عبدالوھاب کو کوئی بندہ نہ ملا (بشمول ابن تیمیہ و ابن قیم) تو اس نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میرے علاوہ کوئی اصل توحید یعنی کلمہ کا مطلب سمجھ ہی نہیں پایا تو اللہ کی مجھ پر رحمت ہوئی

(استغفار )

دعاگو:اسد الطحاوی الحنفی