اصطلاح محدثین میں لفظ تشیع کا اطلاق
اصطلاح محدثین میں لفظ تشیع کا اطلاق
💧💧
آج کل ایک اصطلاح کا لفظ”تشیع” سے بعض لوگ جان بوجھ کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے چاہتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صحابہ کرام میں بھی تفضیلی شیعہ تھے
انکا مقصد صرف یہ ہے کہ اسطرح ہم اپنے باطل عقائد کی وجہ سے لعن طعن سے بچ جائیں گے جو کہ صرف ایک خواب ہے
آپ درج ذیل سطور میں پڑھیں گے کہ لفظ تشیع سے کیا مراد ہے یہ کون ہیں انکا اطلاق کن لوگوں پر ہوتا ہے۔۔
اصول حدیث کی کتب میں لفظ تشیع دیکھا کر عوام کو بہکانے کا یہ نیا حربہ ایجاد ہوا ہے
لہذا اس پرفتن دور میں اپنے اہلسنت عوام کو متنبہ کرنا میری شرعی اخلاقی حق بنتا ہے
اقول بااللہ توفیق
لفظ تشیع کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ میں شرکت کی تھی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے محبت میں معروف تھے
چناچہ امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ سیر اعلام النبلا میں صحابی رسول حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھتے ہیں
کان شریفا امیرا مطاعا امارا بالمعروف مقدما علی الانکار
من شیعۃ علی رضی اللہ عنہ شھد صفین امیرا و کان ذا صلاح و تعبد
آپ نہایت اچھے مقتداء امیر تھے نیکی کا حکم دیتے تھے
برائی کے روکنے پر مقدم تھے
آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شیعہ میں سے تھے اور جنگ صفین میں بطور امیر حاضر ہوئے آپ نہایت صالح اور عبادت گزار تھے
(سیر اعلام النبلاء جلد4 ص245)
اسی سیر اعلام النبلاء میں حجر الشر کے تذکرے میں ہے
وفد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم کان من شیعۃ علی
حجر الشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد کی صورت میں حاضر ہوئے پھر علی کے شیعہ میں سے ہوگئے اور دونوں جنگوں میں حاضر ہوئے
(سیر اعلام النبلاء جلد4 تذکرہ حجر الشر)
ان دونوں عبارتوں سے واضح ہوا کہ شیعان علی کے لیے محدثین تشیع شیعۃ کا لفظ استعمال کرتے ہیں
ثانیا۔اس لفظ تشیع سے عقیدہ تفضیل پر استدلال بھی ایک حماقت ہے کیونکہ جمیع سلف وصحابہ کے اس پر اجماع ہے کہ شیخین کریمین جمیع صحابہ کرام علیھم الرضوان سے افضل ہیں
اور جب بھی صحابہ کرام علیھم الرضوان کے لیے شیعہ کا لفظ لکھا ہوا تو اسے مراد ہرگز افضلیت علی بر شیخین مراد نہیں ہوتی کیونکہ کوئی صحابی تفضیلی نہیں تھا۔
چناچہ امام بیھقی رحمۃ اللہ علیہ الاعتقاد میں فرماتے ہیں
روینا ابی ثور عن شافعی انہ قال اختلف احد من الصحابۃ و التابعین فی تفضیل ابی بکر و عمرو و تقدیمھما علی جمیع الصحابۃ
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
حضرت ابوبکروعمر رضی اللہ عنھما کو تمام صحابہ سے افضل قرار دینے میں اور مقدم جاننے میں صحابہ و تابعین میں سے کسی ایک نے بھی اختلاف نہیں کیا
(الاعتقاد مترجم ص 440)
ثالثا:خلافت علی رضی اللہ عنہ میں لفظ شیعہ کا اطلاق دو گروہوں پر ہوتا تھا
1:شیعان علی:2:شیعان معاویہ
جو صحابی یا شخصیت علی رضی اللہ عنہ کے حمایت میں جنگ لڑتا اسکو شیعان علی(علی کا گرو) کہا گیا اور جس نےحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ میں رہ کر جنگ کی اسکو شیعۃ معاویہ کہا گیا چنانچہ
تذکرۃ الحفاظ میں ہے
قال جعفر بن ابی السری سالت ابن عقدہ ان یعید لی فوتا شددت علیہ فقال من این انت؟
قلت من اصبھان فقال ناصبۃ
فقلت لا تقل ھذا فیھم فقھاء و متشیعۃ
فقال:شیعۃ معاویہ
قلت بل شیعہ علی رضی اللہ عنہ
جعفر بن السری کہتے ہیں
میں نے ابن عقدہ سے کہا کہ مجھے فوت شدہ احادیث دہرا دیں اور میں نے سوال کرنے میں سختی کی
انہوں نے پوچھا کہا سے ہو؟
میں نے کہا اصفھان سے ہوں
انہوں نے کہا ہو ناصبی ہو؟
میں نے کہا ایسی بات ہرگز نہ کہیں ان میں جلیل القدر فقھاء اور(شیعہ) گروہ ہیں
انہوں نے کہا معاویہ کے(شیعہ) گروہ میں نے کہا بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے(شیعہ) گروہ ہیں
(تذکرۃ الحفاظ ج 2ص 87)
حافظ کمال الدین مزی تہذب الکمال میں ایاس بن عامر الغافقی ثم المناری المصری کے تذکرہ میں فرماتے ہیں
قال سعید بن یونس کان من شیعۃ علی
سعید بن یونس کہتے ہیں کہ یہ حضرت علی کے شیعہ(گروہ) میں سے تھے
(تہذب الکمال فی اسماء الرجال ج4ص 432)
مزید اسی تہذب الکمال میں جوین بن علی بن عبد نھم کے تذکرے میں فرماتے ہیں
کان من شیعۃ علی شھد معہ المشاھد کلہ
آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شیعہ(گروہ) میں سے تھے اور تمام مشاھد میں ساتھ رہے
(تھذب الکمال فی اسماء الرجال جلد 2ص 432)
اس واضح معلوم ہوا کہ لفظ شیعہ کا اطلاق محض لغوی ہے یعنی گروہ والے نہ کہ اعتقادی ہے
لہذا جن عبارات میں لفظ تشیع کا اطلاق کسی صحابی کے لیے آیا ہے اس سے مراد شیعان علی ہونگے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گروہ والے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہ کر جنگ کی ہے۔..
رابعا۔لفظ شیعہ کا اطلاق مختلف ادوار میں مختلف رہا ہے لہذا موجودہ دور میں شیعہ کا اطلاق
صحابہ کرام پر درست نہیں کیونکہ اس دور میں ایک مخصوص طائفہ پر اسکا اطلاق ہوتا ہے۔۔
اللہ تعالی فہم حدیث نصیب فرمائے
✍🏻وقار رضا القادری