بخاری کی روایت میں کسی کام نہیں آونگ
بخاری کی ایک روایت میں نے یہاں پوسٹ کی تھی جو کہ منسوخ ہے ۔ لیکن کچھ لوگوں کے اعتراضات کی وجہ سے دوبار پوسٹ کر رہا ہوں اور امام ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے ۔ بخاری کی روایت میں نبی پاک اپنی بیٹی فاطمہؓ سے فرماتے ہیں کہ اپنے آپ کو جہنم سے خود بچانا میں کسی کام نہیں آونگا ۔۔ اس روایت کو نقل کرکے امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں بعض مالکیہ نےیہ اعتراض کیا ہے کہ نیک اعمال مین کسی کی نیابت نہیں ہو سکتی ، ورنہ نبی پاکؐاپنے نیک اعمال سے حضرت فاطمہؓ کو اللہ کے عذاب سے بچالیتے ، اسکا جواب یہ ہے کہ نبیؐ یہ اس (باتؐ) اس وقت کہی تھی جب تک اللہ نے آپکو اس پر مطلع نہیں فرمایا تھا کہ آپ جس کی شفاعت فرمائیں گے اللہ اسکی شفاعت قبول شفاعت قبول فرمائے گا حتیٰ کہ ایک جماعت کو بغیر حساب کے جنت میں داخل فرما دیگا۔۔۔
جماعت کا بغیر حساب کتاب کے جنت جانے پر صحیح اور حسن اسناد سے روایات بھی موجود ہیں جیسا کہ مسند احمد میں روایت موجود ہے
13007 – حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ لي مِنْ أُمَّتِي الْجَنَّةَ مِائَةَ أَلْفٍ ” فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زِدْنَا، قَالَ [ص:311] لَهُ: «وَهَكَذَا» وَأَشَارَ بِيَدِهِ. قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، زِدْنَا، فَقَالَ: «وَهَكَذَا» وَأَشَارَ بِيَدِهِ. قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، زِدْنَا، فَقَالَ: «وَهَكَذَا» . فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: قَطْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، قَالَ: مَا لَنَا وَلَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ قَالَ لَهُ عُمَرُ: إِنَّ اللَّهَ قَادِرٌ أَنْ يُدْخِلَ النَّاسَ الْجَنَّةَ كُلَّهُمْ بِحَفْنَةٍ وَاحِدَةٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَدَقَ عُمَرُ»
((((حدیث صحیح وھذا اسناد حسن فی المتابعات والشواہد، علامہ محقق العرب شعیب الارنوطؒ))) مسند احمد برقم 13007
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ایک لاکھ امتیوں کو بغیرحساب کے جنت میں داخل فرمائے گا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ! ہمارے لئے اضافہ فرمائیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اتنا اور،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کیا، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ اور زیادہ کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لو اتنا اور، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کیا.
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پھر عرض کیا : حضور کچھ اور زیادہ کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھا اور لے لو،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا : ابو بکر! بس کیجئے، انہوں نے کہا کہ اے ابن خطاب تجھے اور ہمیں اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایک ہاتھ سے تمام انسانوں کو جنت میں داخل فرما دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عمر نے سچ کہا۔‘‘
علامہ شعیب الارنوووط نے لکھا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اسکی یہ سند شواہد و متابعات میں حسن ہے۔
اس حدیث طبرانی، ابو نعیم اصبہانی اور ابنِ کثیر نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 193، الرقم : 13030، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 364، الرقم : 8884،
وأبو نعيم الأصبهانی في حلية الأولياء، 2 / 344،
والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 383، الرقم : 7115، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 395
اسکی روایت کی ایک شواہد روایت متعدد کتب احادیث میں ہے جسکی توثیق تمام محدثین بشمول امام ابن حجر عسقلانی الشافعی ، امام العینی الحنفی اور دیگر جمہور محدثین نے کر رکھی ہے ۔ اور غیر مقلد محقق البانی نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دی ہے جو اسکی شواہد ہے اسکی سند و متن یوں ہے
2437 – حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الأَلْهَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِهِ» : «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ»
[حكم الألباني] : صحيح
صحیح ترمذی
یں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا، نہ ان کا حساب ہو گا اور نہ ان پر کوئی عذاب، ( پھر ) ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے، اور ان کے سوا میرے رب کی مٹھیوں میں سے تین مٹھیوں کے برابر بھی ہوں گے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
البانی صاحب نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔
یہ روایت مسند احمد کی روایت کو تقویت دینے کے لیے کافی ہے اس میں قتادہ کی روایت شواہد کی وجہ سے اور اسکی دوسرے طرق کی وجہ سے تقویت حاصل کر کے روایت صحیح ہو جاتی ہے ۔
(دعاگو۔ رانا اسد فرحان الطحاوی ،✍️ )

