وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا(۶۰)

اور یاد کرو جب موسیٰ (ف۱۳۵) نے اپنے خادم سے کہا (ف۱۳۶) میں باز نہ رہوں گا جب تک وہاں نہ پہنچوں جہاں دو سمندر ملے ہیں (ف۱۳۷) یا قرنوں چلا (مدتوں چلتا)جاؤں(ف۱۳۸)

(ف135)

ابنِ عمر ان نبیِ محترم صاحبِ توریت و معجزاتِ ظاہرہ ۔

(ف136)

جن کا نام یوشع ابنِ نون ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام کی خدمت و صحبت میں رہتے تھے اور آپ سے علم اخذ کرتے تھے اور آپ کے بعد آپ کے ولی عہد ہیں ۔

(ف137)

بحرِ فارس و بحرِ روم جانبِ مشرق میں اور مجمع البحرین وہ مقام ہے جہاں حضرت موسٰی علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کا وعدہ دیا گیا تھا اس لئے آپ نے وہاں پہنچنے کا عزمِ مصمّم کیا اور فرمایا کہ میں اپنی سعی جاری رکھوں گا جب تک کہ وہاں پہنچوں ۔

(ف138)

اگر وہ جگہ دور ہو پھر یہ حضرات روٹی اور نمکین بُھنی مچھلی زنبیل میں توشہ کے طور پر لے کر روانہ ہوئے ۔

فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا(۶۱)

پھر جب وہ دونوں ان دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچے (ف۱۳۹) اپنی مچھلی بھول گئے اور اس نے سمندر میں اپنی راہ لی سرنگ بناتی

(ف139)

جہاں ایک پتّھر کی چٹان تھی اور چشمۂ حیات تھا تو وہاں دونوں حضرات نے استراحت کی اور مصروفِ خواب ہو گئے ، بُھنی ہوئی مچھلی زنبیل میں زندہ ہو گئی اور تڑپ کر دریا میں گری اور اس پر سے پانی کا بہاؤ رک گیا اور ایک محراب سی بن گئی ، حضرت یوشع کو بیدار ہونے کے بعد حضرت موسٰی علیہ السلام سے اس کا ذکر کرنا یاد نہ رہا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا٘-لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا(۶۲)

پھر جب وہاں سے گزر گئے (ف۱۴۰) موسیٰ نے خادم سے کہا ہمارا صبح کا کھانا لاؤ بےشک ہمیں اپنے اس سفر میں بڑی مشقت کا سامنا ہوا (ف۱۴۱)

(ف140)

اور چلتے رہے یہاں تک کہ دوسرے روز کھانے کا وقت آیا تو حضرت ۔

(ف141)

تھکان بھی ہے بھوک کی شدّت بھی ہے اور یہ بات جب تک مجمع البحرین پہنچے تھے پیش نہ آئی تھی ، منزلِ مقصود سے آگے بڑھ کر تکان اور بھوک معلوم ہوئی ۔ اس میں اللہ تعالٰی کی حکمت تھی کہ مچھلی یاد کریں اور اس کی طلب میں منزلِ مقصود کی طرف واپس ہوں ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے یہ فرمانے پر خادم نے معذرت کی اور ۔

قَالَ اَرَءَیْتَ اِذْ اَوَیْنَاۤ اِلَى الصَّخْرَةِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ٘-وَ مَاۤ اَنْسٰىنِیْهُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗۚ-وَ اتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ ﳓ عَجَبًا(۶۳)

بولا بھلا دیکھئے تو جب ہم نے اس چٹان کے پاس جگہ لی تھی تو بےشک میں مچھلی کو بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے بھلا دیا کہ میں اس کا مذکور (ذکر)کروں اور اس نے (ف۱۴۲) تو سمندر میں اپنی راہ لی اچنبا (عجیب بات)ہے

(ف142)

یعنی مچھلی نے ۔

قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ﳓ فَارْتَدَّا عَلٰۤى اٰثَارِهِمَا قَصَصًاۙ(۶۴)

موسیٰ نے کہا یہی تو ہم چاہتے تھے (ف۱۴۳) تو پیچھے پلٹے اپنے قدموں کے نشان دیکھتے

(ف143)

مچھلی کا جانا ہی تو ہمارے حصولِ مقصدکی علامت ہے اور جن کی طلب میں ہم چلے ہیں ان کی ملاقات وہیں ہوگی ۔

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا(۶۵)

تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا (ف۱۴۴) جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی (ف۱۴۵) اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا (ف۱۴۶)

(ف144)

جو چادر اوڑھے آرام فرما رہا تھا یہ حضرت خضر تھے علٰی نبینا و علیہ الصلٰوۃ و السلام ۔ لفظِ خضر لغت میں تین طرح آیا ہے بکسرِ خا و سکونِ ضاد اور بفتحِ خا و سکونِ ضاد اور بفتحِ خا وکسرِ ضاد ۔ یہ لقب ہے اور وجہ اس لقب کی یہ ہے کہ جہاں بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں وہاں اگر گھاس خشک ہو تو سرسبز ہو جاتی ہے ، نام آپ کا بلیا بن ملکان اور کنیّت ابوالعباس ہے ، ایک قول یہ ہے کہ آپ بنی اسرائیل میں سے ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ آپ شہزادے ہیں آپ نے دنیا ترک کر کے زہد اختیار فرمایا ۔

(ف145)

اس رحمت سے یا نبوّت مراد ہے یا ولایت یا علم یا طولِ حیات ، آپ ولی تو بالیقین ہیں آپ کی نبوّت میں اختلاف ہے ۔

(ف146)

یعنی غیوب کا علم ۔ مفسِّرین نے فرمایا علمِ لدنی وہ ہے جو بندہ کو بطریقِ الہام حاصل ہو ۔ حدیث شریف میں ہے جب حضرت موسٰی علیہ السلام نے حضرت خضر علٰی نبینا وعلیہ السلام کو دیکھا کہ سفید چادر میں لپٹے ہوئے ہیں تو آپ نے انہیں سلام کیا انہوں نے دریافت کیا کہ تمہاری سرزمین میں سلام کہاں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں موسٰی ہوں انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسٰی ؟ فرمایا کہ جی ہاں پھر ۔

قَالَ لَهٗ مُوْسٰى هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا(۶۶)

اس سے موسیٰ نے کہا کیا میں تمہارے ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تم مجھے سکھادو گے نیک بات جو تمہیں تعلیم ہوئی (ف۱۴۷)

(ف147)

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو علم کی طلب میں رہنا چاہئے خواہ وہ کتنا ہی بڑا عالِم ہو ۔

مسئلہ : یہ بھی معلوم ہوا کہ جس سے علم سیکھے اس کے ساتھ بتواضع و ادب پیش آئے ۔ (مدارک) خضر نے حضرت موسٰی علیہ السلام کے جواب میں ۔

قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۶۷)

کہا آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے (ف۱۴۸)

(ف148)

حضرت خضر نے یہ اس لئے فرمایا کہ وہ جانتے تھے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام امورِ منکَرہ و ممنوعہ دیکھیں گے اور انبیاء علیہم السلام سے ممکن ہی نہیں کہ وہ منکَرات دیکھ کر صبر کر سکیں پھر حضرت خضر علیہ السلام نے اس ترکِ صبر کا عذر بھی خود ہی بیان فرما دیا اور فرمایا ۔

وَ كَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا(۶۸)

اور اس بات پر کیوں کر صبر کریں گے جسے آپ کا علم محیط نہیں (ف۱۴۹)

(ف149)

اور ظاہر میں وہ منکر ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے فرمایا کہ ایک علم اللہ تعالٰی نے مجھ کو ایسا عطا فرمایا جو آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو ایسا عطا فرمایا جو میں نہیں جانتا ۔ مفسِّرین و محدِّثین کہتے ہیں کہ جو علم حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے لئے خاص فرمایا وہ علمِ باطن و مکاشفہ ہے اور اہلِ کمال کے لئے یہ باعثِ فضل ہے چنانچہ وارد ہوا ہے کہ صدیق کو نماز وغیرہ اعمال کی بنا پر صحابہ پر فضیلت نہیں بلکہ ان کی فضیلت اس چیز سے ہے جو ان کے سینہ میں ہے یعنی علمِ باطن و علمِ اسرار کیونکہ جو افعال صادر ہوں گے وہ حکمت سے ہوں گے اگرچہ بظاہر خلاف معلوم ہوں ۔

قَالَ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعْصِیْ لَكَ اَمْرًا(۶۹)

کہا عنقریب اللہ چاہے تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں تمہارے کسی حکم کے خلاف نہ کروں گا

قَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلَا تَسْــٴَـلْنِیْ عَنْ شَیْءٍ حَتّٰۤى اُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا۠(۷۰)

کہا تو اگر آپ میرے ساتھ رہتے ہیں تو مجھ سے کسی بات کو نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں (ف۱۵۰)

(ف150)

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ شاگرد اور مسترشِد کے آداب میں سے ہے کہ وہ شیخ و استاد کے افعال پر زبانِ اعتراض نہ کھولے اور منتظر رہے کہ وہ خود ہی اس کی حکمت ظاہر فرماویں ۔ ( مدارک و ابوالسعود)