مسند احمد کی طلاق ثالثہ روایت کی تصحیح کی ناکام کوشش
مسند احمد کی طلاق ثالثہ روایت کی تصحیح کی ناکام کوشش پر غیر مقلدین کے ایک محقق بنام محمد طلحہ السلفی الحسینی کا رد
بقلم اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
معلوم نہیں یہ آج کل کیا رواج چل پڑا ہے جسکو دیکھو ائمہ علل کی صریح عبارتوں پر اپنے قیاس جڑ رہے ہوتے ہیں یہ بدعت بر صغیر میں سب سے پہلے سنابلی یزید میاں نے ڈالی اسکو پروان کچھ پیروں نے چڑھایا پھر آج کل نئی پید بھی اسی راستے پر چل پڑی ہے نہ اقوال کو سمجتے ہیں نہ ہی محدثین کے منہج سے مکمل واقفیت رکھتے بس جو جرح رد کرنی ہو ایک قیاس تیار کیا اسکو لگا کر علل کے ائمہ قول اڑا دیا یہی حال بھی ان صاحب کا ہے ہم انکو دلائل سے مطلع کرنے کی کوشش کرینگے کہ انکو اپنی تحقیق میں کہاں کہاں خطاء ہوئی ہے اگر واقعی تحقیقی ہونگے تو ضرور اپنی کم از کم اصلاح کرینگے کیونکہ غلطیوں سے تو کوئی پاک نہیں ہوتا ہم کو بھی اپنی تحقیات میں خطاء ہو جاتی تھی لیکن جب ہم کو مطلع کیا جاتا تو ہم ضرور رجوع کرتے جب خطا ء اپنی واضح دیکھ لیتے کیونکہ تحقیقی انسان ہمیشہ رجوع کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے
انکے مضمون کو پڑھنے سے ایک بات یہ بھی ہمیں محسوس ہوئی کہ یہ سمجھتے ہیں کہ انکے مخالفین یا جن محدثین داود بن حصین کی روایت عکرمہ سے بیان کرنے میں جو جرح کی بھی ہے تو بس وہ مطلق جرح ہے جو بھی روایت عکرمہ سے داود بن حصین کی ہوگی وہ منکر ضعیف جدا ہوگی بلکہ ایسی بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ داود بن حصین کی عکرمہ سے تفرد بہت زیادہ تھا یہی تفرد تو نکارت کا بائث بنتا ہے اس لیے جس روایت میں اسکا کوئی متابع عکرمہ سے ثابت ہو جائے یا جید شاہد مل جائے چاہے مسند یا مرسل میں تو بھی اسکی روایت پر اعتبار کیا گیا ہے لیکن جس روایت میں مطلق تفرد ہو جائے داود بن حصین کا یا روایت منکر ہو جانے کے سبب ضعیف قرا ر پاتی ہے جسکی تفصیل اسکے جواب کے دوسرے حصے میں آئے گی
خیر اب ہم ان صاحب کے اعتراضات نقل کرکے بلترتیب جوابات پیش کرتے جائیں گے پہلے انکی عبارت نقل کرینگے پھر الجواب سے اپنا موقف مع دلائل پیش کرینگے
سلفی صاحب لکھتے ہیں :
داود بن حصین عن عکرمہ والا طریق منکر نہیں ہے۔ صرف امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے اس طریق پر یہ اعتراض کیا ہے کہ داود بن حصین عن عکرمہ والا طریق منکر ہے۔
لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔
پہلے امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے کلام کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا کیا ہے
امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ
سئل على ابن المديني عن داود بن حصين فقال: ما روى عكرمة فمنكر الحديث ومالك روى عن داود بن حصين عن غير عكرمة
میں نے امام علی بن مدینی سے داود بن حصین کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ عکرمہ سے روایت کرنے میں منکر الحدیث ہے اور امام مالک نے داود بن حصین سے عکرمہ کے طریق سے روایت نہیں لی
[الجرح والتعدیل 409/3]
سلفی یہ جرح نقل کرکے پھر خود ہی اسکا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے جو دلیل پیش فرمائی ہے داود بن حصین کو عکرمہ سے روایت میں منکر الحدیث کہنے میں وہ یہ تھی کہ امام مالک نے داود سے عکرمہ کے طریق سے روایت نہیں لی۔
حالانکہ یہاں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کو غلطی لگی۔ کیوں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے داود بن حصین سے عکرمہ کے طریق سے ہی روایت لی ہے لیکن عکرمہ کو مبھم بنا دیا ہے۔
چنانچہ امام مالک فرماتے ہیں کہ
عن داود بن الحصين قال أخبرني مخبر أن عبد الله بن عباس كان يقول دلوك الشمس إذا فاء الفيء وغسق الليل اجتماع الليل وظلمته
[دیکھیے مؤطا امام مالک ت عبد الباقی 11/1]
الجواب (اسد الطحاوی ) :
سب سے پہلی جناب نے جو یہ اجتیہاد فرمایا کہ امام علی بن مدینی نے جو یہ کہا کے داود بن حصین جب عکرمہ سے روایت کرتے تو منکر الحدیث ہوتا ہے تو سلفی صاحب کی سوچ کو سلام کہ انہوں نے اپنا یہ قیاس فرمایا کہ یہ ابن مدینی نے امام مالک کا ان سے روایت نہ کرنے کی وجہ سے کہا تھا پھر جناب نے امام مالک سے مبہم طریق سے امام مالک کا داود کی بطریق عکرمہ سے روایت کا ثبوت کے یہ اجتیہاد قائم کیا کہ چونکہ امام مالک نے تو ابن حصین کی عکرمہ سے روایت لی تھی تو امام ابن مدینی کی دلیل یہی تھی تو یہ دلیل ثابت نہ ہوئی تو ابن مدینی کی جرح باطل ثابت ہوئی
انا للہ وانا اليه راجعون
عرض ہے جناب یہ راز آپ ہی نے فاش کیا ہے کہ امام علی بن مدینی جیسا علل کا ماہر امام اور روایت حدیث کی معرفت رکھتے والے بے نظیر امام جرح و تعدیل میں امام مالک کے مقلد تھے بقول آپ کے
عر ض ہے پہلی بات یہ ہے جب کوئی علل کا امام کسی راوی پر جرح خاص کرتا ہے تو اس پر اسکا استقراء ہوتا ہے کہ فلاں راوی جو صدوق یا ثقہ درجے کا ہے لیکن اسکی اپنے فلاں شیخ سے روایت منکر ہوتی ہے یہ بات ائمہ علل ہی بیان کر سکتے ہیں جنکو مکمل استقراء ہوتا ہے یہ موقف امام ابن مدینی کا استقراء کی بنیاد پر تھا نہ کہ امام مالک کی تقلید میں
جہا ں سے یہ قول نقل کیا ہے اس کتاب سے ابن مدینی کے سارے اقوال نقل کر دیتے تو آپ کو اپنا یہ قیاس لکھتے ہوئے بڑی مشکل کا سامنہ کرنا پڑتا
جیسا کہ امام ابن ابی حاتم امام ابن مدینی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
قال أخبرني أبي قال سمعت على ابن المديني قال سمعت سفيان بن عيينة يقول: كنا نتقي حديث داود بن حصين وقد روى مالك عن داود ابن الحصين
امام ابن ابی حاتم اپنے والد اور وہ ابن مدینی سے بیان کرتے ہیں ابن مدینی کہتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا ہم داود بن حصین کی روایت سے بچا کرتے تھے اور مالک بن انس ان سے روایت کیا کرتے تھے
.تو پھر اسکے بعد جو امام ابن ابی حاتم نے وہ قول نقل کیا جسکو سلفی صاحب نے نقل کیا اصل میں وہ قول امام ابن مدینی سفیان بن عیینہ کا ایک قسم کا جو امام مالک پر اعتراض تھا اسکو رفع کر رہے تھے کہ سفیان بن عیینہ بچتے تھے اور امام مالک اس (داود بن حصین) سے روایت کرتے تو پھر امام ابن مدینی فرماتے ہین :
سئل على ابن المديني عن داود بن حصين فقال: ما روى عن – عكرمة فمنكر الحديث، ومالك روى عن داود بن حصين عن غير عكرمة.
سوال ہوا علی بن مدینی سے داود بن حصین کے بارے تو کہا عکرمہ سے روایت کرنے میں منکر الحدیث ہے اور امام مالک داود بن حصین سے عکرمہ کے بغیر بیان کرتے
یعنی امام ابن مدینی کا یہ مطلب نہیں کہ امام مالک روایت ہی نہیں کرتے تھے داود کے طریق سے عکرمہ کو بلکہ عکرمہ کے بغیر یعنی نام کی تصریح کے بغیر روایت کرتے تھے جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہین کہ سفیان بن عینہ اسکی نقل کردہ روایت سے بچتے تھے اور امام مالک ان سے روایت کرتے تھے
اور یہ جرح عموم نہیں خاص ہے عکرمہ کے حوالے سے کیونکہ جب جرح خاص ایک امام کرے تو اسکی بقیہ جروحات کو بھی خاص پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ ابن مدینی نے عکرمہ سے اس کے منکر الحدیث ہونے پر کلام کیا
اور امام مالک عکرمہ کا نام لیے بغیر اسکی روایت کیوں بیان کرتے تھے داود بن حصین سے اسکی وجہ بھی امام ابن معین نے بیان کی ہوئی ہے جیسا کہ امام الدوری بیان کرتے ہیں :
محمد الدوري عن يحيى بن معين أنه قال: داود بن حصين ثقة وإنما كره مالك له لأنه كان يحدث عن عكرمة، وكان يكره مالك عكرمة.
محمد الدوری بیان کرتے ہیں یحییٰ بن معین سے کہ داود بن حصین ثقہ ہے
اور اسکو اسکے لئے نا پسند کیا ہے امام مالک نے.. کیونکہ وہ عکرمہ سے روایت بیان کرتے ہیں مگر امام مالک عکرمہ کو نا پسند کرتے ہیں
امام مالک خود عکرمہ کو نہ پسند کرتے تھے بقول امام ابن معین اسکی وجہ سے وہ اسکا نام لینا پسند نہیں کرتے تھے
اور دوسری بات :
امام مالک نے اپنے موقف کی تائید میں امام مالک کا ان سے روایت نہ لینا بیان کیا ہے کہ امام مالک بھی داود بن حصین کی عکرمہ سے روایت نہیں لی ہے نہ کہ وہ اسکو دلیل بنا کر بات کر رہے ہیں
تو یہ علل کے اتنے ماہر امام کی بات کو ٹانکے پھلے لگا کر اس طرح رد کرنا اس شخص کا کام ہو سکتا ہے جو ائمہ علل کی کتب کی ابحاث سے زیادہ واقف نہ ہو
اور یہ بات امام ابی حاتم کا کلام دیکھا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ داود بن حصین کا عکرمہ سے تفرد اور نکارت اتنی زیادہ تھی کہ یہ راوی متروک کے درجے تک جا پہنچا تھا عکرمہ کے طریق میں لیکن سوائے امام مالک کا انکو بیان کرنا بچا لیا او ریہ آخر میں بیان ہوگا کہ امام مالک نے اسکی کونسی روایت لی اور کیوں لی
امام ابن ابی حاتم اپنے والد کا بیان نقل کرتے ہیں :
حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عن داود بن حصين فقال: ليس بقوي ولولا أن مالكا روى عنه لترك حديثه
امام ابی حاتم فرماتے ہیں اگر امام مالک نے اس سے روایت نہ کیا ہوتا تو اسکو حدیث میں متروک قرا ر دیا جاتا
تو امام مالک کے قول پر امام ابن مدینی کا استدلال بالکل نہیں تھا بلکہ انکا استقرائی حکم تھا کہ عکرمہ سے یہ روایت کرنے میں نکارت ہوتی ہے اسکی حدیث میں
اور ان تمام جروحات کو خاص پر محمول کیا جائے گا نہ کہ عموم پر تبھی محدثین نے ان تمام جروحات کی وجہ سے داود کو مطلق ضعیف قرار نہیں قرار دیا بلکہ عکرمہ کی روایت میں ضعیف قرار دیا ہے
سلفی صاحب آگے لکھتے ہیں :
یہاں داود بن حصین نے جس مخبر سے روایت کی وہ عکرمہ ہی ہے۔
چنانچہ امام ابن عبد البر اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
المخبر ها هنا عكرمة
یعنی یہاں مخبر سے مراد عکرمہ ہے
[الاستذکار 64/1]
قارئین غور فرمائیں امام مالک نے دواد بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے روایت بیان کی ہے لیکن عکرمہ کو مبھم بنا دیا ہے۔ یعنی عکرمہ کو مخبر سے تبدیل کر دیا ہے تاکہ یہ واضح نا ہو کہ وہ مخبر کون تھا جس سے داود بن حصین روایت کر رہا ہے۔ واضح ہوا کہ امام علی بن مدینی کے فیصلے کی بنیاد ہی غلط ہے۔ تو بھلا ان کا فیصلہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔
اب امام مالک کا عکرمہ کو مبھم بنانے کا سبب صرف یہ تھا کہ چونکہ عکرمہ پر بعض لوگوں نے کلام کیا تھا جس کے سبب انہوں نے عکرمہ کو مبھم بنا دیا ۔
چنانچہ امام ابن عبد البر کہتے ہیں کہ
وكان مالك يكتم اسمه لكلام سعيد بن المسيب فيه
اور امام مالک نے ان کا نام اس لئے چھپا لیا (یعنی مبھم بنا دیا) کیوں کہ سعید بن المسیب نے ان پر کلام کیا تھا
[ دیکھیے الاستذکار 64/1]
معلوم ہوا امام مالک کو داود بن حصین عن عکرمہ والے طریق سے کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ وہ محض عکرمہ کو پسند نہیں کرتے تھے بعض لوگوں کے کلام کے سبب۔
اب امام علی بن مدینی نے جو دعوی کیا کہ داود بن حصین عن عکرمہ والا طریق منکر ہے اپنے اس دعوی کی جو دلیل پیش کی وہ یہ تھی کہ امام مالک نے داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے روایت نہیں لی
تو جب ان کے دعوی کی دلیل ہی غلط ہے بھلا ان کا دعوی کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔
الجواب :
ہم اوپر بیان کرآئے امام ابن معین سے کہ مالک خود بھی عکرمہ کو نہ پسند کرتے تھے اس لیے تو مخبر کہہ کر داود بن حصین سے بیان کیا ہے کیونہ روایت شاہد کی وجہ سے ثابت تھی نہ کہ داود کے عکرمہ کے تفرد کو قبول کیا ہے
اور باقی جو ابن عبدالبر کا کلام نقل کیا گیا ہے وہ بھی صحیح ہے لیکن جو جناب نے اپنی طرف سے یہ بات ملادی ہے سلفی صاحب نے کہ امام مالک کو کوئی مسلہ نہیں تھا یہ بات انکی محل نظر ہے جب ائمہ علل کی تصریح موجود ہے
اب امام مالک نے یہ روایت کیوں قبول کی اسکی وجہ بھی ماام ابن عبدالبر نے نقل کی ہے امام ابن عبدالبر الاستذکار میں لکھتے ہیں :
(4 – باب ما جاء في دلوك الشمس وغسق الليل)
اس باب کے تحت امام مالک جو پہلی روایت لاتے ہیں وہ یہ ہے :
۱۔ 17 – مالك عن نافع أن عبد الله بن عمر كان يقول دلوك الشمس ميلها
اور دوسری روایت امام مالک کی داود بن حصین سے مخبر کے الفاظ سے امام مالک روایت کرتے ہیں :
مالك عن داود بن الحصين قال أخبرني مخبر أن عبد الله بن عباس كان يقول دلوك الشمس إذا فاء الفيء وغسق الليل اجتماع الليل وظلمته
قال أبو عمر المخبر ها هنا عكرمة وكذلك رواه الدراوردي عن عكرمة عن بن عباس وكان مالك يكتم اسمه لكلام سعيد بن المسيب
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر نے یہ بات کی جو سلفی صاحب نے اوپر نقل کی ہے جسکو یہا ں دہرانے کی ضرورت نہیں البتہ امام ابن عبدالبر نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ امام مالک نے اس روایت کو نام نہ لیکر کیوں قبول کیا؟
اسکا جواب بھی امام ابن عبدالبر سے ہی پیش کرتے ہیں عکرمہ کی رویات نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :
ولم يختلف عن بن عمر في أن دلوك الشمس ميلها روي ذلك عنه من وجوه ثابتة إلا أن الألفاظ مختلفة والمعنى واحد
منهم من يروي عنه دلوكها زوالها
ومنهم من يقول عنه دلوكها ميلها بعد نصف النهار وكل سواء وهو قول الحسن ومجاهد
ورواه مجاهد أيضا عن قيس بن السائب وهو قول أبي جعفر محمد بن علي والضحاك بن مزاحم وعمر بن عبد العزيز
وكذلك روي عن الشعبي ومجاهد عن بن عباس دلوكها زوالها
وأما عبد الله بن مسعود فلم يختلف عنه أن دلوكها غروبها
وهو قول علي بن أبي طالب وأبي وائل وطائفة والوجهان في اللغة معروفان
امام ابن عبدالبر نے داود بن حصین کی روایت کو بیان کر کے فرمایا کہ اس کے ہم معنی مختلف الفاظ سے یہ مروی ہے
اس میں حضرت ابن عمر ،
حضرت مجاہل کا ابن عباس سے مروی ہے
شعبی کا بھی ، الحسن بصری اور مجاہد کا بھی
اور یہی علی بن ابی طالب اور وائل بن حجر وغیرہ سے مروی ہے
تو جب اسکے جید شاہد و اثار موجود ہے تو اسی وجہ سے امام مالک نے اس روایت کو بیان کیا
لیکن کیا کمال تحقی کی سلفی صاحب نے عکرمہ کی وہ روایات جن میں عکرمہ سے ابن عباس کی روایات کا متن بیان کرنے میں داود بن حصین منفرد نہیں ا س پر ابن عبدالبر کا کلام پیش کیا
لیکن جہاں ابن عبدالبر نے اس عکرمہ والی طلاق ثالثہ والی روایت پر وہابیہ کے دلائل کے پڑخچے اڑا دیے اور صریح جرح کی ہے داود بن حصین کی اس منکر روایت پر اسکو چھپا گئے
ہم جناب کو ابن عبدالبر سے دلائل دیتے ہیں یہ کیا میٹھا میٹھا ہپ یپ اور کڑوا تھو تھو !!
امام بن عبدالبر طاوس کی روایات (جو وہابیہ کی دلیل ہے ) اور دوسری عکرمہ والی روایت کے بارے میں یہ کلام کرتے ہیں :
قَالَ أَبُو عمر فهؤلاء الصحابة كلهم قائلون وبن عَبَّاسٍ مَعَهُمْ بِخِلَافِ مَا رَوَاهُ طَاوُسٌ عَنِ بن عَبَّاسٍ
وَعَلَى ذَلِكَ جَمَاعَاتُ التَّابِعِينَ وَأَئِمَّةُ الْفَتْوَى فِي أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ
وَإِنَّمَا تَعَلَّقَ بِرِوَايَةِ طَاوُسٍ أَهْلُ الْبِدَعِ فَلَمْ يَرَوُا الطَّلَاقَ لَازِمًا إِلَّا على سنته فجعلوا فخالف السُّنَّةِ أَخَفَّ حَالًا فَلَمْ يُلْزِمُوهُ طَلَاقًا
وَهَذَا جَهْلٌ وَاضِحٌ لِأَنَّ الطَّلَاقَ لَيْسَ مِنَ الْقُرْبِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فَلَا يَقَعُ إِلَّا عَلَى سُنَّتِهِ إِلَى خِلَافِ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ الَّذِينَ لَا يَجُوزُ عَلَيْهِمْ تَحْرِيفُ السُّنَّةِ وَلَا الْكِتَابِ
وَمِمَّنْ قَالَ بِأَنَّ الثَّلَاثَةَ فِي كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ تَلْزَمُ مُوقِعَهَا وَلَا تَحِلُّ لَهُ امْرَأَتُهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ مَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُمْ والثوري وبن أَبِي لَيْلَى وَالْأَوْزَاعِيُّ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَعُثْمَانُ الْبَتِّيُّ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَسَنِ وَالْحَسَنُ بْنُ حَيٍّ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ وَأَبُو ثَوْرٍ وَأَبُو عُبَيْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ
وَمَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ قَالَ بِغَيْرِ هَذَا إِلَّا الْحَجَّاجَ بْنَ أَرْطَأَةَ وَمُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ وَكِلَاهُمَا لَيْسَ بِفَقِيهٍ وَلَا حُجَّةَ فِيمَا قَالَهُ
قَالَ أَبُو عُمَرَ ادَّعَى دَاوُدُ الْإِجْمَاعَ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ وَقَالَ لَيْسَ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَأَةَ وَمَنْ قَالَ بِقَوْلِهِ مِنَ الرَّافِضَةِ مِمَّنْ يُعْتَرَضُ بِهِ عَلَى الْإِجْمَاعِ لِأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الْفِقْهِ
حَكَى ذَلِكَ عَنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ دَاوُدَ عَنْهُ وَأَنْكَرَ ذَلِكَ بَعْضُهُمْ عَنْ دَاوُدَ
وَلَمْ يَخْتَلِفُوا عَنْهُ فِي وُقُوعِهَا مُجْتَمِعَاتٍ
امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں : یہ سارے صحابہ کرام اس چیز کے قائل ہیں بشمول ابن عباس کے اس چیز کے برخلاف جسکو طاوس نے روایت کیا ہے
اور مسلمین کی جماعت سے ائمہ فتویٰ اور تابعین کی ساری جماعت اس کے خلاف ہے جسکو طاوس نے روایت کیا ہے
اور اہل بدعت (وہابی بھی شامل ہیں ) جو ہیں انکا تعلق ہے طاوس کی روایت کے ساتھ (دلیل پکڑتے ہیں )
وہ طلاق کے وقوع کو ثابت نہیں مانتے اگر طلاق سنت کے طریقے سے نہ ہو یا سنت کے مخالف دی جائے تو وہ طلاق کے ہونے کو نہیں مانتے
یہ واضح جہالت ہے (جس میں ابن تیمیہ ، ابن قیم اور اہل ظاہری شامل ہیں ) طلاق کوئی اللہ کی قربت کے لیے تو نہیں دی جاتی جو بغیر سنت کے طلاق کا اطلاق نہ ہوگا
سلف و خلف کے خلاف وہ لوگ (اہل بدعت) جس پر کبھی تحریف سنت و کتاب واقع نہیں ہوئی یعنی منسوب نہیں کی جاسکتی
پھر ابن عبدالبر فرماتے ہیں :
بعض لوگ طلاق ثلاثہ ایک کلمے (ایک بار کہہ دینا تین طلاق دی ) میں بھی واقع ہو جاتی ہے اسکے لیے اسکی بیوی حلال نہیں ہوگی یہان تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرے اور یہ مذہب ہے
امام مالك
وامام أبو حنيفة
امام الشافعي
والثوري کے اصحاب
وبن أبي ليلى
والأوزاعي
والليث بن سعد
وعثمان البتي
وعبيد الله بن الحسن
والحسن بن حي
وأحمد بن حنبل
وإسحاق بن راهويه
وأبو ثور وأبو عبيد
ومحمد بن جرير الطبري
یہ سارے اور اہل سنت میں میں کسی کو نہیں جانتا جواسکے خلاف کہتا ہو، سوائے الحجاج بن أرطأة اور محمد بن إسحاق اور نہ ہی یہ مجتہد تھے نہ ہی انکا قول حجت ہے
اور پھر امام ابن عبدالبر کہتے ہیں :
امام داود نے اس مسلے پر اجماع نقل کیا ہے اور حجاج بن اطاء کا قول یا ان جیسے کسی اور کا قول جو رافضیہ میں سے انکے جیسے قوال سے اجماع پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ اہل فقہ میں سے نہیں ہیں
اس حکایت کو بعض ابی داود کے اصحاب نے روایت کیا ہے اور بعض نے اس حکایت کا انکار کیا ہے
لیکن ان میں سے کوئی بھی اسکے وقع پر اختلاف نہین کرتا
اسکے بعد پھر امام ابن عبدالبر رکانہ والی طلاق ثالثہ والی روایت نقل کرتے ہیں
قال أبو عمر روى بن إسحاق في ذلك عن داود بن الحصين عن عكرمة عن بن عباس قال طلق ركانة بن عبد يزيد امرأته ثلاثا في مجلس واحد فحزن عليها حزنا شديدا فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم ((كيف طلقتها قال طلقتها ثلاثا في مجلس واحد قال إنما تلك واحدة فارتجعها إن شئت)) قال فارتجعها
قال وكان بن عباس يرى أن السنة التي أمر الله بها في الطلاق أن يطلقها عند كل طهر وهي التي كان عليها الناس
قال بن إسحاق فأرى أن النبي صلى الله عليه وسلم إنما رد عليه امرأته لأنه طلقها ثلاثا في مجلس واحد لأنها كانت بدعة مخالفة للسنة
اس روایت پر ابن اسحاق نے کہا کہ یہ رسولﷺ سے دلیل ہے کہ ایک ہی مجلس میں تین طلاق دینا مخالف سنت اور بدعت ہے
اسکو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں :
قال أبو عمر هذا حديث منكر خطأ وإنما طلق ركانة زوجته البتة لا كذلك رواه الثقات أهل بيت ركانة العالمون به وسنذكره في هذا الباب
یہ حدیث (داود بن حصین کی عکرمہ سے ) منکر ہے اور خطاء ہے جب کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی جیسا کہ ثقہ روایان نے بیان کیا ہے انکے گھر والوں میں سے جسکی سند اس باب میں نقل کی ہے
(الاستذكار، ابن عبدالبر جلد ۶ ، ص ۹)
تو سلفی صاحب کی اتنی خدمت کافی ہوگی ابن عبدالبر سے جو انہوں نے امام ابن عبدالبر سے اس روایت کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے اس روایت کو داود بن حصین کی منکرات میں ہی بیان کیا ہے کیونکہ انکا کوئی متابع نہیں
اسکے بعد سلفی میاں آگے اپنی طرف سے دوسرا جوا ب لکھتے ہیں :
دوسرا جواب:
امام علی بن مدینی نے جو داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق میں نکارت کی بات کہی ہے لیکن اس کی کوئی معتبر وجہ بیان نہیں کی۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ داود بن حصین عن عکرمہ والے طریق میں نکارت کب ہوتی ہے۔
چنانچہ امام ابن عدی نے داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے ایک روایت ذکر کی اور پھر اس پر تفصیلی کلام کیا وہ کہتے ہیں کہ
وهذا الحديث ليس البلاء من داود فإن داود صالح الحديث إذا روى عنه ثقة والراوي عنه بن أبي حبيبة وقد مر ذكره في هذا الكتاب في ضعفاء الرجال وداود هذا له حديث صالح، وإذا روى عنه ثقة فهو صحيح الرواية إلا أنه يروي عنه ضعيف فيكون البلاء منهم لا منه
اور اس حدیث میں داود کی طرف سے کوئی نکارت نہیں ہے۔ جب داود سے ثقہ راوی روایت کریں اس وقت تو وہ صالح الحدیث ہیں۔ اور یہاں داود سے روایت کرنے والے ابن ابی حبیبة ہیں اور ان کا تذکر اسی کتاب میں ضعیف راویوں میں ہو چکا ہے (یعنی یہ ابن عدی کے نزدیک ضعیف ہے)۔ اور داود کی حدیث صالح ہوتی ہے۔ اور جب داود سے ثقہ راوی روایت کریں تو وہ صحیح روایت والے ہیں مگر جب ان سے روایت کرنا والا ضعیف ہو تو نکارت ان (ضعیف رایوں ) کی طرف سے ہوتی ہے نا کہ داود کی طرف سے۔
[دیکھیے الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی 516/3]
جس روایت پر ابن عدی نے کہا کہ یہاں داود کی طرف سے کوئی نکارت نہیں وہ طریق داود عن عکرمہ والا تھا۔ اور انہوں نے پھر بتایا کہ نکارت تو اس وقت ہوتی ہے جب داود سے روایت کرنے والا ضعیف راوی ہو۔ یعنی داود عن عکرمہ کے طریق میں نکارت کی وجہ داود نہیں بلکہ اس نیچے کے راوی ہیں جو اس سے روایت کرنے والے ہیں اگر تو وہ ضعیف ہیں تو اس طریق میں بلا شبہ نکارت ہے لیکن اگر ثقہ ہیں تو داود بن حصین صالح روایت والے ہیں۔ خواہ عکرمہ سے ہی کیوں نا ہو کیوں کہ امام ابن عدی نے یہ جتنی بحث کی ہے وہ داود عن عکرمہ کے طریق سے روایت کے ہی متعلق ہے
معلوم ہوا امام علی بن مدینی نے جو اس طریق کو منکر کہا ہے پہلی بات اس کی بنیاد ہی غلط ہے دوسرا یہ نکارت بھی تب ہے جب ضعیف رواۃ روایت کریں۔ لیکن جب ثقہ روایت کریں داود سے تو پھر تو وہ صحیح روایت والے ہیں۔ والحمدللہ
الجواب (اسد الطحاوی)
امام ابن عدی کی اس بات کو بعد و الے محدثین نے بالکل قبول نہیں کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ امام ابن عدی نے جو روایات نقل کی داود بن صالح سے اس میں إبراهيم بن أبي حبيبة ہے
اور اسی راوی کے ترجمے میں ساری روایات امام ابن عدی اسی راوی إبراهيم بن أبي حبيبة سے لائے ہیں اوریہ راوی تو ویسے ہی ضعیف ہے اسکی روایات علیحدہ منکر ہوتی تھیں
جیسا کہ اس کی ایک روایت ابن عدی نے اسی کے ترجمہ میں لکھی ہے اور کہا کہ اس میں غلطی ابراہیم کی ہے تو اس میں امام ابن عدی کا کوئی کمال نہیں یہ بات پہلے ائمہ علل بیان کر چکے ہیں جیسا کہ ایک روایت ابن عدی نے نقل کی ہے اور اس روایت پر پہلے ہی امام ابی حاتم کی جرح موجود ہے کہ یہ داود بن حصین سے ابراہیم کا تفرد ہے اور یہ روایت ابراہیم کی منکر ہے داود سے
1367 – وسألت أبي عن حديث رواه ابن أبي فديك (1) ،
عن ابن أبي حبيبة ، عن داود بن حصين، عن عكرمة، عن ابن عباس؛ أن النبي (ص) قال: إذا قال الرجل للرجل: يا مخنث، فاجلدوه، وإذا قال الرجل للرجل: يا لوطي، فاجلدوه عشرين، ومن وقع على ذات محرم، فاقتلوه، ومن وقع على بهيمة، فاقتلوه واقتلوا البهيمة؟
قال أبي: هذا حديث منكر، لم يروه غير ابن أبي حبيبة .
(العلل لابن أبي حاتم)
اور ایسے ہی امام ذھبی نے بھی ایسی روایات جو داود بن حصین کی عکرمہ سے ہیں اور داود بن حصین سے صرف ابراہیم بن ابی حبیبة بیان کرتا ہے تو محدثین نے ان رویات کا الزام داود بن حصین پر نہیں بلکہ ابراہیم بن ابی حبیبة پر ہی دیا جیسا کہ امام ذھبی نے میزان میں بھی یہ اور دیگر روایات ابراہیم بن حبیبہ کی منکرات میں درج کی ہیں
36 – إبراهيم بن إسماعيل بن أبي حبيبة الأشهلي المدنى [ت، ق] أبو إسماعيل.
عن داود بن الحصين وغيره.
قال البخاري: عنده مناكير.
وقال النسائي: ضعيف.
وقال أحمد: ثقة.
وقال ابن معين مرة: صالح الحديث.
ومرة قال: ليس بشئ.
وقال الدارقطني: ليس بالقوي.
وقال ابن عدي: يقال صام ستين سنة.
وقال عبد العزيز بن عمر الزهري، عن إبراهيم بن الزهري، عن إبراهيم بن إسماعيل، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس – أحسبه رفعه: من قال لرجل: يا مخنث، فاجلدوه عشرين
.
أبو القاسم بن أبي الزناد، حدثني إسماعيل بن إبراهيم، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس: أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: لا نفقة لك ولا سكنى
مات سنة خمس وستين ومائة.
(میزان الاعتدال )
تو اس سے تو اختلاف ہی نہیں جو روایات ابراہیم بن اسماعیل بن ابی حبیبة بیان کرتا ہے تفرد سے وہ اسکی منکر ہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ بھی اس سے بیان نہ کررہا ہوں اور داود بن حصین سے ثقہ راوی بیان کر رہے ہوں اور روایت منکر ہو تو پھر اسکا ذمےدار کون ہے ؟
اور امام ابن عدی نے اسی طرح تمام روایات ابراہیم بن ابی حبیبة سے نقل کی ہیں جس میں یہ خور منکر الحدیث اور ضعیف راوی ہے
لیکن امام ابن عدی نے الکامل میں داود بن حصین کی کوئی منکر روایت نقل ہی نہیں یعنی وہ انکی منکر روایات پر مطلع ہی نہیں تھے جبھی انہوں نے یہ بات کہی جو متقمدین اور بعد والے ناقدین کے بالکل خلاف ہے جسکو ہم یہاں ثابت کرتے ہیں
اس پر ابن عدی کا کلام بالکل خطاء پر مبنی ہے کیونکہ وہ داود بن حصین کی منکر روایات پر مطلع نہیں ہوئے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ دیگر محدثین جو اسکی منکرات پر مطلع تھے وہ بھی غیر ثابت ہوئیں
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔
سلفی صاحب کی اگلی عبارت :
امام ابو داود کہتے ہیں کہ
أحاديثه عن عكرمة مناكير
داود عکرمہ سے مناکیر بیان کرتا ہے۔
[میزان الاعتدال 5/2]
یہ حوالہ بے سند و مردود ہے۔ اور ثابت نہیں ہے۔
بالفرض اگر ثابت بھی ہوتا تو امام ابن عدی کی طرف سے یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ نکارت تب ہوتی ہے جب داود سے روایت کرنے والا ضعیف راوی ہوتا ہے لیکن جب ثقہ روایت کریں تو نکارت نہیں ہوتی بلکہ تب وہ صالح روایت والا ہوتا ہے۔
اس طریق کو صحیح قرار دینے والے محدثین
1) امام احمد بن حنبل:
امام احمد نے داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے مسند احمد بن حنبل میں ایک روایت ذکر کی ہے۔ چنانچہ امام احمد فرماتے ہیں کہ:
حدثنا محمد بن سلمة عن ابن إسحاق، عن داود بن حصين، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: ” رد رسول الله صلى الله عليه وسلم زينب ابنته على زوجها أبي العاص بن الربيع بالنكاح الأول، ولم يحدث شيئا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہ کو ابو العاض رضی اللہ عنہ کو پہلے نکاح پر ہی واپس لوٹا دیا دوبارہ سے نکاح نہیں کیا
[دیکھیے مسند احمد 369/3]
اور اس حدیث کے متعلق امام احمد کہتے ہیں کہ
والحديث الصحيح الذي روي: أن النبي صلى الله عليه وسلم أقرهما على النكاح الأول
”اس سلسلے میں جو صحیح حدیث مروی ہے وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں (زینب اور ابوالعاص رضی اللہ عنہما) کو پہلے نکاح پر باقی رکھا“
[دیکھیے مسند احمد ط الرسالہ 530/11]
امام احمد بن حنبل نے داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق والی روایت کو صحیح کہا جس کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ داود بن حصین عن عکرمہ والا طریق ان کے نزدیک صحیح ہے۔ والحمدللہ
الجواب :
سب سے پہلے وہابیوں میں یہ جہالت بھی بہت بری ڈالی گئی ہے تہذیب الکمال اور میزان میں وہ اقوال جو محدثین نے نسخے اپنے سامنے رکھ کر اقوال لکھے ہیں
اگر یہ سلفی صاحب امام ذھبی کی کتاب میزان کا مقدمہ پڑھ لیتے تو انکو معلوم ہو جاتا کہ امام ذھبی نے کتنی کتب کا ذکر کیا ہے جو سامنے رکھ کر میزان لکھی تھی
امام ابی داود کے شاگردوں نے تصانیف لکھی ہیں امام ابی داود کے رجال کے اقوالات پر لیکن جب رد ہی کرنا ہے تو بس بے سند اقوال کہہ کر اڑا دی جرح اور جب مخالف کی روایات کا رد کرنا ہوتا تو یہی بے سند اقوال سے جروحات کی بھرمار کر دی جاتی ہے تو
امام ابی داود کا قول نہ بھی مانا جائے تو باقی محدثین کی جرح ہی کافی ہے
اگر یہ امام ابی داود کی جرح کو امام ابن عدی کی خطاء کی وجہ سے رد کرینگے تو ہم امام ابن عدی کی اس بات کو انکے بعد والے ناقدین سے رد کر دیتے ہیں
صاحب استقراء امام ذھبی سے ابن عدی کارد :
امام ذھبی میزان میں داود بن حصین کے ترجمہ میں متعدد اسکی مناکیر روایات بیان کرتے ہیں جس میں سے ایک یہی طلاق ثالثہ والی بھی ہے
2600 -[صح] داود بن الحصين [ع] أبو سليمان المدني.
محدث مشهور.
انفرد بأشياء.
(کچھ چیزوں میں اسکا تفرد ہے اور امام ذھبی نے ابن عباس والی روایت اسکی مناکیر میں شامل کی ہے )
وقال ابن عدي: حدثنا محمد بن صالح بمكة، حدثنا سليمان بن عبد العزيز
الزهري، حدثني أبي، عن إبراهيم بن أبي حبيبة، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما احتلم نبي قط، إنما الاحتلام بعبث (1) من الشيطان.
قال ابن عدي: البلاء فيه من بعد داود، وهو صالح الحديث.
أحمد في المسند، حدثنا سعد بن إبراهيم، حدثنا أبي، عن ابن إسحاق، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: طلق ركانة بن عبد يزيد أخو المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد، فحزن عليها حزنا شديدا، فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف طلقتها؟ قال: طلقتها ثلاثا. قال: فقال في مجلس واحد؟ قال: نعم. قال: فإنما تلك واحدة فارجعها إن شئت. قال: فرجعها. فكان ابن عباس يرى: إنما الطلاق عند كل طهر.*
(میزان الاعتدال)
تو امام ذھبی نے ابن عدی کی بات کو نقل کرنے کے بعد ہی داود بن حصین کی عکرمہ والی مسند احمد کی روایت کو میزان میں منکر کے طور پر نقل کی ہے
اور امام اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں (جو فتح الباری کے بعد کی ہے ) میں داود بن حصین کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
1779- داود ابن الحصين الأموي مولاهم أبو سليمان المدني ثقة إلا في عكرمة ورمي برأي الخوارج من السادسة مات سنة خمس وثلاثين ع
داود بن حصین مدنی یہ ثقہ ہے سوائے ابن عکرمہ سے روایت میں اور یہ خوارج والی رائے رکھتا تھا
(تقریب التہذیب )
باقی انہوں نے جو امام احمد نے داود بن حصین کی عکرمہ سے منفرد روایت کی توثیق دینے کی ناکام کوشش کی اگر واقعی یہ طریق امام احمد کے نزدیک صحیح ہوتا تو امام احمد بن حنبل کا فتویٰ تو پھر اس روایت کے مطابق ہونا چاہیے تھا لیکن سارے اس مسلے میں ایک ہیں سوائے اہل بدعت کے (بقول ابن عبدالبر)
اصل میں امام احمد بن حنبل نے روایت کو صحیح کہا ہے نہ کہ سند کو کیونکہ جو متن امام احمد نے داود بن حصین نے عکرمہ سے یہ روایت کی ہے اپنی مسند میں :
عن ابن عباس : أن النبى صلى الله عليه وسلم رد زينب على أبى العاص بالنكاح الأول
ا س روایت کو محدثین نے تصحیح عکرمہ سے داود بن حصین کی منفرد سند کی وجہ سے نہیں کی اور نہ ہی امام احمد نے بلکہ اس روایت کے جید شاہد متعدد مرسل روایات سے ثابت ہیں
اور امام احمد کے نزدیک بھی مرسل روایات حجت ہوتی ہیں
علامہ شعیب الارنووط جو خود داود بن حصین کی عکرمہ سے روایات کو ضعیف مانتے ہیں لیکن اس روایت کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس کے جید شاہد مرسل ثابت ہیں
جیسا کہ امام طحاوی ، امام عبدالرزاق اور امام ابن سعد نے نقل فرمائے ہیں اس وجہ سے امام احمد نے اس حدیث کو مرسل شواہد کی بنیاد پر صحیح کہا ہے نہ کہ اسکے منفرد سند کی وجہ سے
جیسا کہ علامہ شعیب الارنووط حاشیہ میں لکھتے ہیں :
وله شاهد من مرسل قتادة عند ابن سعد 8/32، ومرسل الشعبي عند عبد الرزاق (12640) ، وسعيد بن منصور (2107) ، وابن سعد 8/32، والطحاوي 3/256.
(مسند الإمام أحمد بن حنبل برقم : 1876)
سلفی صاحب کی اگلی عبارت:
2) امام ترمذی رحمہ اللہ داود بن حصین عن عکرمہ والی سند کی ایک منفرد روایت کے متعلق فرمایا کہ:
ھذا حدیث لیس بإسناده باس
اس حدیث کی سند میں کوئی حرج نہیں
[دیکھیے سنن ترمذی حدیث 1143]
بعض کہتے ہیں ترمذی متساہل ہیں۔ عرض ہے کہ یہاں امام ترمذی کی موافقت دیگر جمہور ناقدین نے کر رکھی ہے
الجواب (اسد الطحاوی)
امام ترمذی نے بھی یہ بات امام احمد بن حنبلی کی تصحیح کی وجہ سے کی ہے اور روایت بھی وہی ہے
لیکن سلفی صاحب نے امام ترمذی کی مکمل بات نقل نہیں کی ہے کیونکہ امام ترمذی کی مکمل عبارت یہ ہے :
قال ابو عيسى: هذا حديث ليس بإسناده باس ولكن لا نعرف وجه هذا الحديث، ولعله قد جاء هذا من قبل داود بن حصين، من قبل حفظه.
اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن ہم اس حدیث میں نقد کی وجہ نہیں جانتے ہیں۔ شاید یہ چیز داود بن حصین کی جانب سے ان کے حفظ کی طرف سے آئی ہے۔
یعین امام ترمذی اس بات سے لا علمی کا اظہار کیا ہے کہ سند میں کوئی علت ہو اور جب علت دیگر محدثین کے نزدیک ثابت ہو چکی جو کہ مفسر ہے پھر ایسے کلام فائدہ نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ انکے زبیرزئی صاحب اس روایت کے تحت لکھتے ہیں ؛
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 24 (2240)، سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2009)، (تحفة الأشراف: 6073) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ داود کی روایت عکرمہ سے متکلم فیہ ہے)»
سلفی صاحب نے جو مختلف محدثین سے منفرد سند کا ڈھنڈورا پیٹا ہے وہ وہی ایک منفرد روایت ہے جو امام احمد نے تصحیح کی تھی شواہد مرسل کی بنیاد پر
3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس داود بن حصین عن عکرمہ والے طریق کی منفرد روایت کو أصح قرار دیا
[دیکھیے علل الکبیر للترمذی 166/1]
امام بخاری نے بھی اسی روایت کو صحیح قرار دیا ہے جو امام احمد بن حنبل نے صحیح قرار دی تھی اور یہ تقابل کی صورت میں اصح کہا ہے
289 – حدثنا هناد , حدثنا يونس بن بكير , عن محمد بن إسحاق , قال: حدثني داود بن الحصين , عن عكرمة , عن ابن عباس , قال: رد النبي صلى الله عليه وسلم ابنته زينب على أبي العاص بن الربيع بعد سنتين بنكاح الأول ولم يحدث نكاحا.
سألت محمدا عن هذين الحديثين فقال: حديث ابن عباس أصح في هذا الباب من حديث عمرو بن شعيب , عن أبيه , عن جده
امام ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے ان دواحادیث کے بارے پوچھا امام بخاری سے تو انہوں نے ابن عباس کی روایت زیادہ صحیح قرار دیا ہے عمرو بن شعیب کی والد کے طریق سے سے وارد حدیث کے مقابلے
اسکی وجہ ہم پہلے بیان کر چکے کہ ابن عباس کی روایت کے جید شاہد ثابت ہیں جیسا کہ امام حاکم وغیرہ نے بھی بیان کیے ہیں
پھر دارقطنی سے بھی اسی ایک ہی روایت کا حوالہ دیا
4) امام دار قطنی داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے ایک منفرد روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
والصواب حديث ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم ردها بالنكاح الأول
صحیح حدیث وہ ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسم نے اپنی بیٹی زینب کو ان کے شوہر کے پاس پہلے نکاح پر ہی بھیج دیا
[دیکھیے سنن الدارقطنی 373/4]
اور یہ حدیث داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے ہی ہے
[دیکھیے سنن دارقطنی 374/4]
امام حاکم نے بھی اسی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جو امام احمد بن حنبل نے عمرو بن شعیب کے مقابلے میں صحیح قرار دی تھی جید مرسل شاہد ثابت ہونے کے بعد
5) امام حاکم رحمہ اللہ نے داود بن الحصین عن عکرمہ والے طریق کی روایت کی سند کو کہیں جگہ صحیح کہا ہے
[دیکھیے مستدرک للحاکم حدیث 2325، 2921، 4029، 6694 وغیرہ]
6) امام ذھبی رحمہ اللہ نے بھی اس طریق سے مروی ایک منفرد روایت کو صحیح کہا ہے۔
[دیکھیے تلخیص المستدرک حدیث 2811]
اسکے بعد جتنے حوالے دیے انکا بھی یہی حال ہے
اب کوئی وہابی یہ سمجھے کہ یہ روایت تقویت کیوں نہیں پا سکتی تو یہ روایت معلول ہے
اور ایک تو یہ ثقات کے خلاف ہے دوسری یہ منکر ہے اصول محدثین کے تحت اور امام احمد حنبل کا فتویٰ بھی اس روایت کے خلاف ہے تو جب یہ روایت مصنف کے نزدیک قابل استدلال نہیں تو باقی کیا رہہ گیا
اس سند کو منکرو خطاء امام ابن عبدالبر سے ثابت کیا
امام علی بن مدینی
امام ابو حاتم
امام سفیان بن عیینہ
اب امام بیھقی سے اس سند کے ضعیف ہونے کی جرح :
وَهَذَا الْإِسْنَادُ لَا تَقُومُ بِهِ الْحُجَّةُ مَعَ ثَمَانِيَةٍ رَوَوْا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فُتْيَاهُ بِخِلَافِ ذَلِكَ وَمَعَ رِوَايَةِ أَوْلَادِ رُكَانَةَ أَنَّ طَلَاقَ رُكَانَةَ كَانَ وَاحِدَةً وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ
یہ اسنادسے حجت نہیں پکڑی جا سکتی ہے اور ابن عباس سے اسکے خلاف فتویٰ موجود ہے جو رکانہ کی اولاد نے بیان کیا ہے کہ رکانہ نے ایک طلاق دی تھی
(السنن الکبری بیھقی )
امام ابن حجر اس روایت کوک معلول قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں
وفي الباب عن ابن عباس رواه أحمد والحاكم، وهو معلول أيضا.
(التلخیص الحبیر ، برقم : 1744)
اسکے علاوہ امام ابن عبدالبر اور امام نووی نے اس مسلے پر اتفاق و اجماع لکھا ہے لیکن وہابیہ کی ضد کی داد تو بنتی ہے جو پوری امت سے ٹکر لی ہوئی ہے ایک ضعیف روایت کی بنیاد پر صرف علامہ ابن تیمیہ اور ابن قیم کی وجہ سے
اللہ سب کو حق و سچ قبول کرنے کی ہمت عطا کرے آمین
تحقیق : دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی