جزوی فضیلت میں کوئی بھی صحابی تمام صحابہ سے افضل ہو سکتا ہے لیکن مجموعی مطلق افضیلیت کا مدار جزوی فضیلت پر نہیں ہوتا..

جیسا کہ حضرت حذیفہ کی گواہی دو کے برابر تھی اور اس جزوی فضیلت میں حضرت حذیفہ

حضرت ابا بکر

حضرت عمر

حضرت عثمان

اور

حضرت علی سمیت تمام صحابہ پر افضل ہیں کہ کسی بھی صحابی کی گواہی دو کے برابر نہیں سوائے حضرت حذیفہ کے

اب کوئی بھی اس جزوی فضیلت کی بنیاد پر مطلق طور پر حضرت حذیفہ کو مطلق تمام صحابہ پر افضیلیت کا اطلاق نہیں کر سکتا…

ایسے ہی اہل بیت ہونا بھی ایک جزوی فضیلت ہے نہ کہ کلی افضیلیت کا معیار

اگر ایسا ہوتا تو امام حسن مولا علی سے زیادہ حق دار بنتے افضیلیت کلی کے

اس لیے نبی اکرم نے نسب کو معیار افضلیت قرار نہیں دیا

بلکہ تقوی کو قرار دیا جو تقوی میں سب سے بہتر ہوگا وہ اللہ کے زیادہ قریب ہوگا اور باقیوں سے بہتر ہوگا

اور نبی نے اپنے وقت علالت میں تمام نمازوں میں ابو بکر کو علی سمیت تمام صحابہ کا امام بنایا اور امام کی ایک شرط ہے کہ وہ تقوی و علم میں بھی تمام سے بہتر ہو

اور یہ عمومی شریعت کا اصول ہے سوائے یہ کہ کوئی مجبوری ہو

اور

نبی اکرم کو کوئی ایسی مجبوری نہ تھی کہ مولا علی کو اس لائق سمجھتے اور اسکے باوجود ابو بکر کو اپنی جگہ کھڑا کرتے

معلوم ہوا چاہت رسول بھی ابو بکر ہیں اور معیار محمدی بھی ابو بکر ہیں افضیلیت میں

دعاگو:اسد الطحاوی