ما منعك الاتسب!

تم کیوں گالی نہیں دیتے؟

حضرت امیر معاویه رضی الله عنه كا حضرت سعد رضی الله عنه كو فرمانا كه حضرت علی رضی اللہ عنہ كو سب كرنے سے تمهیں كون سی چیز مانع هے؟

حضرت امیر معاویه رضی الله حضرت مولا علی كو گالیاں دیا كرتے اور لعن طعن كرتے تهے یه كسی بهی صحیح متصل روایت سے ثابت نهیں ۔

ڈوبتے كو تنكے كا سهارا!

تفسیقییوں كو ایك روایت ملی جو استفهام(سوال) پر مبنی هےاس سے اپنا من چاها مطلب نكالنے كی كوشش كرتے هیں چلیے اس كے متعلق علماء كے اقوال پیش خدمت هیں۔

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

قلت: وهذا الحديث: يدل على معرفة معاوية بفضل علي ـ رضي الله عنه ـ ومنزلته، وعظيم حقه، ومكانته، وعند ذلك يبعد على معاوية أن يصرح بلعنه وسبه، لما كان معاوية موصوفًا به من الفضل والدين، والحلم، وكرم الأخلاق، وما يروى عنه من ذلك فأكثره كذب لا يصح. وأصح ما فيها قوله لسعد بن أبي وقاص: ما يمنعك أن تسب أبا التراب؟ وهذا ليس بتصريح بالسب، وإنَّما هو سؤال عن سبب امتناعه ليستخرج ما عنده من ذلك، أو من نقيضه، كما قد ظهر من جوابه، ولما سمع ذلك معاوية سكت، وأذعن، وعرف الحق لمستحقه، ولو سلمنا: أن ذلك من معاوية حمل على السَّب، فإنَّه يحتمل أن يكون طلب منه أن يسبَّه بتقصير في اجتهاد، في إسلام عثمان لقاتليه، أو في إقدامه على الحرب والقتال للمسلمين، وما أشبه ذلك مما يمكن أن يقصر بمثله من أهل الفضل، وأما التصريح باللعن، وركيك القول، كما قد اقتحمه جهَّال بني أمية وسفلتهم، فحاش معاوية منه، ومن كان على مثل حاله من الصحبة، والدين، والفضل، والحلم، والعلم، والله تعالى أعلم

المفهم لما اشكل من تلخیص كتاب مسلم جلد6 صفحه 278

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں :میں کہتا ہوں یہ حدیث حضرت معاویہ کے حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت، آپ کے مرتبے، آپ کے عظیم حق اور مقام کی معرفت پر دلالت کرتی ہے ، اور اس صورت میں بعید ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر لعن اور سب کریں ، خصوصا حضرت معاویہ خود فضلیت ، دین، بردباری اور بہترین اخلاق سے متصف تھے ۔ سَب کرنے کے حوالے سے جو کچھ مروی ہے وہ اکثر جھوٹ اور غیر صحیح ہے ۔ اس میں سب سے زیادہ صحیح بات وہ ہے جو آپ نے حضرت سعد سے کہی تھی کہ آپ کو کون سی بات ، حضرت ابو تراب رضی اللہ تعالی عنہ پر طعن کرنے سے روکتی ہے ؟ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سب کرنے میں صریح نہیں ، یہ تو محض ایک سوال ہے جو آپ نے سب نہ کرنے سے متعلق کیا تاکہ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ جو ان کا مؤقف ہے وہ بیان کردیں ، یا اس کی نقیض ، جیسا کہ ان کے جواب سے ظاہر ہے اور جب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کا جواب سنا ، تو خاموش رہے اور اس پر یقین کیا ، اور مستحق کے حق کو جانا، اور اگر ہم تسلیم کریں کہ یہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے سب کرنے پر ہی ابھارنا تھا تو بھی اس کا احتمال ہے کہ آپ نے ان سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد کرنے میں جتہاد کی تقصیر کو برا کہنا طلب کیا ہو ، یا انہوں نے جو مسلمانوں سے جنگ وقتال کا اس کو برا کہنا مطلوب ہو ، اور اس کی مثل کئی باتیں ہیں ، جس پر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مثل اہل فضل کی باتوں کو محمول کیا جاسکتا ہے ۔جہاں تک رہا صراحتا لعن طعن کرنا ، برے الفاظ کہنا ، جیسا کہ بنو امیہ کے جہال اور گھٹیا لوگوں نے وطیرہ بنایا تھا ، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اس سے بری ہیں اور اسی طرح ہر وہ شخص جو آپ کی طرح صحابیت ، دیانت، فضیلت، بردباری ، اور علم والا ہو ۔

*امام عون الدین یحیی بن ہبیر ہ الشیبانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ولعله لا يبعد أن يكون قد أراد معاوية أن يؤدب بقول سعد بعض أحداث الأسنان من أهله أو أتباعه بما يذكره سعد في حق علي، وإنه قد روي لنا أنه كان يثني عليه ويقول: كان رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يغره بالعلم غرًا، ويرد الفتاوى عنه إليه في حالة اشتداد ما بينهما، ولم يكن منكرًا فضل على رضي الله عنهما، وإنما كان القتال مستندًا إلى اجتهاد في فرع، أخطأ فيه معاوية وأصاب علي، وليس ذلك بمخرج له من الإيمان

الافصاح عن معانی الصحاح جلد 1 صفحه 348

. شاید یہ بات بعید نہیں ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھرانے یا متعلقین میں سے بعض نوجوانوں کو حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق ذکر کردہ باتوں کے ذریعے مولائے کائنات مولا مشکل کشا رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ادب سکھانا چاہتے ہوں۔ یہ بات مروی ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی تعریف کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں علم کے ذریعے خوب روشن و منور فرمایا ہے۔ جب ان دونوں حضرات کے مابین جنگ کی کیفیت تھی اس وقت بھی آپ مولائے کائنات سے فتاوی طلب کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کے منکر نہیں تھے۔ ان کے مابین قتال فرع(فروعی معاملے میں اجتہاد کی وجہ سے تھا )، جس میں حضرت معاویہ نے خطا کی اور مولائے کائنات اصابت پر تھے ، یہ بات انہیں ایمان سے خارج کرنے والی نہیں ہے ۔

*امام نووی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: فقول معاوية هذا ليس فيه تصريح بانه امر سعدا بسبه وانما ساله عن السبب المانع له من السب كأنه يقول هل امتنعت تورعا او خوفا او غير ذلك فان كان تورعا واجلالا له عن السب فانت مصيب محسن وان كان غير ذلك فله جواب آخر ولعل سعدا قد كان في طائفة يسبون فلم يسب معهم وعجز عن الانكار وأنكر عليهم فسأله هذا السؤال قالوا ويحتمل تأويلا آخر ان معناه ما منعك ان تخطئه في رأيه واجتهاده وتظهر للناس حسن رأينا واجتهادنا وانه اخطأ

المنهاج بشرح صحیح مسلم بن الحجاج جلد 8 ص193

حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول اس میں صریح نہیں ہے کہ آپ نے حضرت سیدنا سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو سب کرنے کا حکم دیا ، آپ نے ان سے محض سب نہ کرنے کا سبب دریافت کیا ہے ، گویا کہ آپ نے ان سے کہا کہ آپ برا بھلا کہنے سے ورع کی وجہ سے رکتے ہیں یا خوف کی وجہ سے یا کسی اور سبب سے ؟ اگر یہ بچنا ورع اور بزرگی کے سبب ہے تو تو آپ نیکی کرنے والے اور اصابت پر ہیں ، اور اگر اس کے لیے کوئی اور سبب ہے تو اس کا جواب اور ہے ، شاید حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ ایسے لوگوں کے مابین تھے جو برا کہتے تھے ، حضرت سعد برا بھی نہیں کہتے تھے اور انہیں روکنے سے بھی عاجزتھے ، اور ان کے اس کام کو برا قرار دیتے تھے ، اس پر ان سے یہ سوال کیا ۔ علما فرماتے ہیں: یہاں ایک اور تاویل کا احتمال ہے وہ یہ کہ کون سی بات آپ کو روکتی ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے اور اجتہاد کو خطا پر قرار دیں ، اور لوگوں کے سامنے ہماری رائے اور ہمارے اجتہاد کو اچھا قرار دیں۔

امام قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

ولابد أن يتأول قول معاوية هذا، فتقول: ليس فيه تصريح بأنه أمره بسبه، وإنما سأله عن السبب المانع له من السب، وقد سئل عن مثل هذا السؤال من يستجيز سب المسؤول عنه [وسئل عنه] من لا يستخبره.فقد يكون معاوية رأى سعدًا بين قوم يسبونه، ولا يمكن الإنكار عليهم، فقال: ما منعك أن تسب أبا تراب؛ ليستخرج منه مثل ما استخرج مما حكاه عن النبى – عليه الصلاة والسلام – فيكون له حجة على من سبه ممن ينضاف إليه من غوغاء جنده، فيحصل على المراد على لسان غيره من الصحابة، ولو لم يسلك هذا المسلك وحملنا عليه أنه قصد ضد هذا مما يثيره عنه الموجدة، ويقع فى حين الحنق، لأمكن أن يريد السب الذى هو بمعنى التغيير للمذهب والرأى، وقد سمى ذلك فى العرف سباً، ويقال فى فرقة: إنها تسب أخرى إذا سمع منهم أنهم أخطؤوا فى مذاهبهم، وحادوا عن الصواب، وأكثروا من التشنيع عليهم، فمن الممكن أن يريد معاوية من سعد بقوله: ” ما منعك أن تسب أبا تراب ” أى يظهر للناس خطأه فى رأيه، وإن رأينا ما نحن عليه أشد وأصوب. هذا مما لا يمكن أحد أن يمنع من احتمال قوله له، وقد ذكرنا ما يمكن أن يحمل قوله عليه ورأيه فيه جميل أو غير جميل فى هذين الجوابين. فمثل هذا المعنى ينبغى أن يسلك فيما وقع فى أمثال هذا.

اکمال المعلم جلد 7 صفحہ 416

لازم ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول کی تاویل کی جائے تو ہم کہتے ہیں : حضرت امیر معاویہ کے اس قول میں کوئی ایسی تصریح نہیں ہے کہ آپ نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سب کرنے کا حکم دیا ہو، آپ ان سے محض اس بات کا سوال کر رہے ہیں کہ آپ کو کیا چیز سب کرنے سے روکتی ہے ، اس طرح کا سوال اس شخص سے بھی کیا جاسکتا ہے ہے جو مسئول عنہ پر سَب کو جائز قرار دیتا ہو اور اس سے بھی کیا جاسکتا ہے جو سَب کرنے کو جائز قرار نہ دیتا ہو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو ایسی قوم کے مابین دیکھا جو مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو سب کرتی تھی ، اور ان پر انکار ممکن نہ تھا ، تو آپ نے سوال کیا کہ آپ کو ابو تراب رضی اللہ تعالی عنہ کو برا کہنے سے کون سی بات روکتی ہے ؟ یہ سوال اس لیے تھا کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے وہی بیان کروایا جاسکے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے (مولائے کائنات کی فضیلت) میں روایت کیا تاکہ ان لوگوں پر حجت ہوجائے جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر سب کرتے تھے اور وہ آپ کے لشکر میں گھٹیا قسم کے لوگ تھے ، اس سوال وجواب سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مراد دوسرے صحابی کی زبان کے ذریعے حاصل ہوگئی ۔ اور اگر ہم اس تاویل کی راہ پر نہ چلیں ، اور اس کی ضد ہی کے مقصود ہونے پر محمول کریں کہ یہ ناراضی اور غضب ہی تھا تو ممکن ہے کہ سب سے مراد مقصود ورائے کا تبدیل ہونا ہو ، اور اس کو بھی عرف میں سب کہا جاتا ہے ، کسی بھی فرقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے دوسرے فرقے کو سب کیا جب اس نے سنا کہ وہ اپنے مذہب میں خطا کی ہے اور راہِ صواب سے ہٹ گئے ہیں اور اس فرقے والے پر طعن کرنے میں زیادتی کی ، تو ممکن ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت سعد کو جو کہا تھا کہ کون سی بات آپ کو ابو تراب کو برا کہنے سے روکتی ہے ، اس سے مراد یہ ہو کہ آپ ان کی رائے کی خطا لوگوں کے سامنے بیان کریں ، اور ہماری رائے کو درست کہیں

*علامہ طاہر پٹنی گجراتی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں: هذا لا يستلزم أمر معاوية بالسب بل سؤال عن سبب امتناعه عنه أنه تورع أو إجلال أو غير ذلك، أو المعنى ما منعك أن تخطئه في اجتهاد وتظهر للناس حسن اجتهادنا یعنی یہ اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ حضرت امیر معاویہ نے سَب کا حکم دیا ہو بلکہ سَب نہ کرنے کا سبب پوچھا ہے کہ وہ ورع و بزرگی ہے یا اس کے علاوہ کچھ اور ہے۔یا یہ معنی ہے کہ لوگوں کے سامنے ان کے اجتہاد کی خطا کو بیان کرنے اور ہمارے اجتہاد کی درستی کا اظہار کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکا ہے۔

مجمع البحرین جلد 3 صفحہ 10

ماخوذ من :الصوارم الحیدریہ علی منحر طاعن معاویہ

مرتب :فرحان رفیق قادری عفی عنہ۔

نشر مکرر